دنیا بھر میں دیہی علاقوں سے شہری علاقوں کی طرف نقلِ مکانی جاری ہے۔ دیہات میں رہنے والے شہروں میں بسنے کا سپنا آنکھوں میں سنجوئے رہتے ہیں۔ شہری زندگی میں پائی جانے والی جدید ترین سہولتیں، چمک دمک اور گہما گہمی اُنہیں اپنی طرف کھینچتی ہے۔ دیہات کی زندگی محض پُرسکون نہیں بلکہ بہت پُرسکون ہوتی ہے۔ بہت سوں کو اِتنا سُکون راس نہیں آتا۔ وہ متحرک رہنے کے لیے بے تاب رہتے ہیں۔ دیہی ماحول میں زندگی تھمی ہوئی سی ہوتی ہے۔ زیادہ بھاگ دوڑ ہوتی ہے نہ شور شرابہ۔ فی زمانہ سوشل میڈیا کے ذریعے دیہات کے جو لوگ دنیا بھر کے شہروں کو اپنے سمارٹ فون کی سکرین پر دیکھتے ہیں وہ دن رات بڑے شہروں میں آباد ہونے کا خواب دیکھتے رہتے ہیں۔
درمیانے حجم کے اور بڑے شہر سبھی کو بہت پُرکشش دکھائی دیتے ہیں۔ معاملہ صرف چمک دمک، کشش اور ہماہمی تک ہوتا تو کچھ بات نہ تھی۔ حقیقت یہ ہے کہ بڑے شہر اپنے باشندوں کے لیے واجبات میں تبدیل ہوتے جارہے ہیں۔ جو لوگ کسی زمانے میں شہری زندگی کو اثاثہ سمجھتے تھے وہ اب اپنی رائے سے رجوع کرنے پر مجبور ہیں۔ بڑے شہر اب مہنگے ہی نہیں‘ پیچیدہ بھی ہیں۔ اِن شہروں میں ڈھنگ سے جینا محال ہوتا جارہا ہے۔ جس طور لوگ کسی سوسائٹی یا چار دیواری والے اپارٹمنٹ بلاک میں رہنے کے لیے مینٹی ننس کی مد میں رقم دیتے ہیں بالکل اُسی طرح بڑے شہروں میں رہنے کے لیے پوری زندگی مینٹی ننس کی مد میں ادا کرتے ہی رہنا پڑتا ہے۔ دنیا بھر میں کئی بڑے شہر اِتنے بڑے ہوچکے ہیں کہ وہ ایک شہر نہیں بلکہ کئی شہروں کا مجموعہ قرار دیے جاسکتے ہیں۔ کراچی ہی کی مثال لیجیے۔ یہ شہر اِتنا پھیلا ہوا‘ الجھا ہوا ہے کہ اِسے بہت آسانی سے بارہ سے پندرہ شہروں کا مجموعہ قرار دیا جانا چاہیے۔ اورنگی ٹاؤن، نارتھ کراچی، لانڈھی، ملیر، کورنگی، کیماڑی، بلدیہ ٹاؤن، لیاقت آباد، یونیورسٹی روڈ، گلستانِ جوہر، گلشنِ اقبال، گلشنِ حدید، سٹیل ٹاؤن نیو کراچی، گارڈن، لیاری‘ یہ سب محض علاقے نہیں بلکہ شہر ہیں۔ ہر علاقے کی آبادی اِتنی ہے کہ اُسے بلا خوفِ تردید چھوٹے حجم کا شہر قرار دیا جاسکتا ہے۔ کراچی جیسے بڑے شہر میں سب سے بڑا مسئلہ یومیہ سفر کا ہے۔اِس وقت کراچی میں ورک فورس کا ایک بڑا حصہ روزانہ روزانہ اوسطاً پندرہ سے بیس کلومیٹر سفر کرنے پر مجبور ہے۔ آمدنی کا معقول حصہ اس سفر کی نذر ہو جاتا ہے۔ انسان کام پر جانے اور واپس آنے میں کھپ جاتا ہے۔ یہ عمل روزانہ ڈھائی سے تین گھنٹے کھا جاتا ہے۔ سوال صرف وقت کے ضیاع کا نہیں۔ پیسہ بھی ضائع ہوتا ہے اور توانائی کے حوالے سے بھی لوگ خسارے میں رہتے ہیں۔
اب سوال یہ ہے کہ بڑے شہروں میں گزاری جانے والی زندگی کو خسارے سے بچانے کے لیے انسان کرے تو کیا کرے۔ ایک حل یہ ہے کہ چھوٹے شہر بسائے جائیں۔ یا پھر بڑے شہروں کو انتظامی طور پر اس طور تقسیم کردیا جائے کہ ہر حصہ اپنے آپ میں ایک شہر ہو اور ڈھنگ سے جینے کے لیے درکار تمام سہولتیں فراہم کرے۔ آج دنیا بھر میں سمارٹ سٹی کا تصور تیزی سے پروان چڑھ رہا‘ مقبولیت پارہا ہے۔ سمارٹ سٹی یعنی ایسا شہر جس میں کسی کے لیے بھی معاملہ خسارے کا نہ ہو۔ سمارٹ سٹی کے ساتھ ساتھ پندرہ منٹ کے شہر کا تصور متعارف کرایا گیا ہے۔پندرہ منٹ کا شہر وہ ہے جس میں ہر مقام کا فاصلہ وقت کے اعتبار سے تقریباً پندرہ منٹ کا ہو۔ ترقی یافتہ ممالک میں طویل فاصلے بھی ڈھنگ سے طے کرلیے جاتے ہیں مگر لوگ وقت کے ضیاع کی شکایت کرتے ہیں۔ ماس ٹرانزٹ سسٹم بہت اچھا بھی ہو اور سفر خاصی سہولت کے ساتھ ہوتا ہو تب بھی وقت کا ضیاع کَھلتا ہے۔
شہری علاقوں کی منصوبہ سازی اب اِس طور کی جارہی ہے کہ کام پر جانا اور واپس آنا پندرہ منٹ میں ممکن ہو، تعلیمی ادارے پندرہ منٹ کی ڈرائیو پر ہوں، خواتینِ خانہ خریداری کرنے نکلیں تو پندرہ منٹ میں مارکیٹ یا مارٹ پہنچ جائیں۔ کسی سے ملنے جانا ہو تو پندرہ بیس منٹ سے زیادہ وقت نہ لگے۔ ہسپتال بھی اِتنی ہی دیر کی ڈرائیو پر ہونے چاہئیں۔ دیگر ضروری مقامات تک بھی رسائی آسان ہونی چاہیے۔ ہمارے ہاں اَپ ڈاؤن کا سلسلہ بھی رہا ہے اور کہیں کہیں اب بھی ہے۔ مثلاً لوگ گوجرانوالہ، اوکاڑہ، فیصل آباد وغیرہ سے ملازمت کے سلسلے میں روزانہ لاہور جاتے ہیں۔ یہ یومیہ سفر خاصا پریشان کن ہے کیونکہ پیسے بھی خوب خرچ ہوتے ہیں اور سفر میں تنگی بھی بہت رہتی ہے۔ بہت سے لوگ گھارو، ٹھٹھہ وغیرہ سے کراچی آتے ہیں۔ اِسی طور کراچی سے لوگ نوری آباد اور حب وغیرہ جاتے ہیں۔ اِن لوگوں کو روزانہ کام پر جانے اور واپس آنے میں کم و بیش تین ساڑھے تین گھنٹے کھپانے پڑتے ہیں۔ یہ یومیہ سفر عمر کا ایک معقول حصہ کھا جاتا ہے۔ تھکن الگ ہوتی ہے اور خرچ بھی کم نہیں ہوتا۔ یہ خرچ اگر نہ ہو یا برائے نام ہو تو بچائی ہوئی رقم سے زندگی کا معیار تھوڑا سا بلند کیا جاسکتا ہے۔
دنیا بھر میں یہ تصور بہت تیزی کے ساتھ مقبولیت سے ہم کنار ہو رہا ہے کہ انسان کو معاشی اور دیگر سرگرمیوں کے لیے روزانہ طویل فاصلے طے نہیں کرنے چاہئیں یعنی شہروں کی منصوبہ بندی اصلاً اِس طور ہونی چاہیے کہ لوگ کام پر بائیسکل کے ذریعے یا پیدل بھی جاسکیں۔ اِسی طور تجارتی مراکز بھی گھر سے زیادہ دور نہیں ہونے چاہئیں تاکہ ضرورت کی ہر چیز محض چہل قدمی کے فاصلے پر ہو۔ بڑے شہروں میں لوگ طویل فاصلوں اور سفر کی پریشانی کے باعث آپس میں مل بھی نہیں پاتے۔ ہمارے ہاں بڑے شہروں میں لوگ اپنے رشتہ داروں سے ملنے سے بھی اس لیے کتراتے ہیں کہ یہ سفر دشوار بھی ہوتا ہے اور مہنگا بھی۔ اور اگر کوئی کسی سے ملنے کے لیے پہنچے اور تھکن سے چور ہو تو ملنے کا لطف جاتا رہتا ہے۔ پندرہ منٹ کے شہر کا تصور یہی تو ہے کہ ہر ضروری مقام برائے نام فاصلے پر ہو تاکہ وہاں جانا اور واپس آنا کسی بھی اعتبار سے دشوار ثابت نہ ہو۔
ہمارے ہاں بڑے شہروں میں لوگ اب تک منصوبہ سازی کے بغیر جی رہے ہیں۔ حکومت کی طرف سے تھوڑی بہت منصوبہ سازی کی جاتی ہے مگر لوگ اِس سلسلے میں کچھ نہیں کرتے۔ مثلاً کراچی کے ہر علاقے میں تجارتی اور صنعتی زون موجود ہیں مگر لوگ اُن میں ملازمت تلاش کرنے کے بجائے پچیس تیس کلو میٹر کا فاصلہ طے کرکے کسی دور افتادہ علاقے کی فیکٹری، دفتر یا دکان میں کام کرتے ہیں۔ یوں وہ روزانہ کام کے مقام پر پہنچتے پہنچتے تھک جاتے ہیں اور واپسی پر مزید تھکن سے چُور ہوتے ہیں۔ اس یومیہ جھنجھٹ میں تنخواہ کا ایک معقول حصہ خرچ بھی ہوتا ہے اور روزانہ ڈھائی تین گھنٹے بھی ضائع ہوتے ہیں۔ ہنر مندوں کو بھی گھر سے چار پانچ کلو میٹر کے دائرے میں کام تلاش کرنا چاہیے۔ کام مل بھی جاتا ہے۔ اگر اجرت تھوڑی سی کم بھی ہو تو کام چلا لینا چاہیے کیونکہ گھر کے نزدیک کام کرنے کی صورت میں آنے جانے کا خرچ بچتا ہے‘ بے جا تھکن نہیں ہوتی اور سب سے بڑھ کر یہ کہ وقت بھی ضائع نہیں ہوتا۔ صنعت کار اور تاجر بھی اس بات کو پسند کرتے ہیں کہ اُن کے ہاں کام کرنے والے اُسی علاقے میں رہنے والے ہوں۔ کیا وہ اس حقیقت سے بے خبر ہیں کہ اگر کوئی روزانہ بیس پچیس کلو میٹر کا فاصلہ طے کرنے کے لیے بسوں کے دھکے کھاتا ہوا ڈیڑھ دو گھنٹے میں کام پر آئے گا تو تھکا ہوا ہوگا اور کام شروع کرنے سے پہلے اپنی تھکن سے نپٹے گا؟ اور اگر کوئی تیس ہزار روپے ماہانہ پر کام کرتا ہو اور اس یومیہ سفر پر پانچ ہزار روپے تک خرچ کرنے پر مجبور ہو تو اُس میں کام کرنے کی لگن اور توانائی کیونکر برقرار رہ سکے گی؟
پندرہ منٹ کے شہر کا تصور ہمارے ہاں یوں بھی پروان چڑھایا جاسکتا ہے کہ لوگ گھر کے نزدیک کام کرنے کو ترجیح دیں۔ کراچی میں لوگ شیر شاہ کے علاقے سے کام کرنے کے لیے قائد آباد یا بن قاسم کے علاقے تک جاتے ہیں جو شہر کا دوسرا سرا ہے۔ اس حوالے سے سنجیدہ ہونے اور معقول منصوبہ سازی کے مرحلے سے گزرنے کی ضرورت ہے۔ تھوڑی توجہ سے ہم اپنے علاقوں کو کسی حد تک پندرہ منٹ کا شہر بناسکتے ہیں۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved