تحریر : علامہ ابتسام الہٰی ظہیر تاریخ اشاعت     02-10-2013

نوابزادہ نصر اللہ خان مرحوم

نوابزادہ نصراللہ خان کو ہم سے جد ا ہوئے 10برس سے زیادہ عرصہ بیت چکا ہے ۔آپ اس دنیا ئے فانی سے 25ستمبر 2003ء کو رخصت ہوئے تھے۔ ایک عرصہ بیت جانے کے باوجود آپ کی یادوں کی خوشبو سے دل کا گلشن مہک رہا ہے ۔ والدگرامی علامہ احسان الہٰی ظہیر کے نوابزادہ نصراللہ خان سے بڑے گہرے مراسم تھے اور مجھے بچپن میں کئی مرتبہ والدِ مرحوم کی ہمراہی میں نکلسن روڈ پر واقع ان کے دفتر میں ان کی مجلس میں بیٹھنے کا شرف حاصل ہوا۔والدِ گرامی تو اکثر و بیشتران کے دفتر میں آتے جاتے رہتے تھے لیکن کئی مرتبہ خودنوابزادہ صاحب بھی کھانے کی دعوت پر ہمارے گھر تشریف لاتے اور رات گئے تک مختلف امور پر بات چیت ہوتی تھی۔ نوابزادہ نصراللہ خان ایک اصول پسند اور وضع دار سیاسی راہنما تھے۔ آپ کو آمریت سے شدیدنفرت تھی۔ جب تک زندہ رہے فوجی آمروں کا بھر پور طریقے سے مقابلہ کرتے رہے ۔ ایوب خان ،یحییٰ خان اور جنرل ضیاء الحق کے ادوار میں انہوں نے انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے خلاف بھر پور طریقے سے آواز اٹھائی۔ نوابزادہ نصراللہ خان کی یہ آواز اتنی موثر ہوتی تھی کہ ملک کی تما م سیاسی جماعتیں نوابزادہ کی قیادت میں متفق ہوجایا کرتی تھیں۔ نوابزادہ کے گھر یا دفتر میں ہونے والا اجتماع کسی نہ کسی سیاسی تحریک کا پیش خیمہ ثابت ہوتا اور حساس اداروں کے اہلکاروں کی ایک بڑی تعداد ہمہ وقت آپ کے دفتر کے گرد منڈلاتی رہتی تھی ۔ جنرل ضیاء الحق کے دور میں ہونے والے سیاسی اجتماعات میں علامہ ظہیر بھی شریک ہوا کرتے تھے۔ اپنی طوفانی خطابت سے جب آپ عوامی جذبات کو بیدار کرتے تو نوابزادہ نصراللہ خان آپ کی خطابت سے جھوم جایا کرتے تھے اور اجتماع کے بعدجب نوابزادہ کی بیٹھک میں اکٹھ ہوتا تو وہ آپ کے ساتھ بڑی شفقت اور انسیت کا اظہار کیاکرتے تھے۔23مارچ 1987ء کو علامہ ظہیر راوی روڈ پر ایک جلسے سے خطاب کے دوران ہونے والے بم دھماکے میں شدید زخمی ہوگئے تھے۔ علاج کے لیے آپ کو سعودی عرب کے ملٹری ہسپتال میں منتقل کیا گیا لیکن آپ جانبر نہ ہوسکے اور 30مارچ 1987ء کو ریاض میں انتقا ل کرگئے ۔آپ کی وفات کے بعد آپ کو مدینہ منورہ منتقل کیا گیا اور بقیع کے قبرستان میں دفن کیا گیا ۔ مجھے ابھی تک یاد ہے کہ والد گرامی کے انتقال کی اطلاع ملتے ہی نوابزادہ نصراللہ خان مرحوم ہمارے گھرتشریف لائے ۔آپ اس وقت انتہائی دل گرفتہ تھے اور آپ کا چہرہ غم اور کرب کی تصویر بنا ہوا تھا ۔آپ نے اس موقعہ پر کہا تھا کہ تشدد او ر نفرت کے سودا گروں نے ملت کی متاعِ عزیز کو ہم سے چھین لیا۔ آج وہ شحض ہم میں موجود نہیں رہا کہ جس کی ولولہ انگیز قیادت نے مارشل لاء زدہ مایوس اور مضمحل قوم کو نیا حوصلہ اور نئی توانائی دی تھی ۔ والدِ مرحوم کے انتقال کے بعد بھی کئی مرتبہ میں والد صاحب کے تعلق کو نبھانے کے لیے نکلسن روڈ جاتا رہا ۔آپ کی مجلس روایتی سیاستدانوں والی مجلس نہیں ہوتی تھی بلکہ آپ کے ساتھ بیٹھ کر انسان کے علم، آگہی اور شعور میں اضافہ ہوتا تھا ۔ آپ نے بر صغیر کے عظیم مذہبی اور سیاسی راہنما ئوں کے ساتھ وقت گزارا تھا ۔ان رہنمائوں کی صحبت میں گزرے ہوئے وقت کی روداد کو بیان کرتے ہوئے آ پ کئی مرتبہ ماضی میں کھو جایا کرتے تھے اور آپ کی آواز بھرا جاتی تھی ۔میں نے آپ سے مولانا ابو الکلام آزاد، مولانا ظفر علی خان ،سید عطاء اللہ شاہ بخاری اور مولانامحمد علی جوہر جیسے اکابرین کے بہت سے یاد گار واقعات کو سنا تھا ۔ آپ بتلایا کرتے تھے کہ قیامِ پاکستان سے قبل آپ بیک وقت کانگرس اور مجلس احرار کے رکن ہوا کرتے تھے ۔مولانا آزاد کے علم اور شعلہ نوائی کا ذکر کرتے ہوئے آپ سب کچھ فراموش کردیتے ۔آپ کو مولاناآزاد سے والہانہ عقیدت تھی جو آپ کے الفاظ اور اندازِ بیان سے جھلکتی تھی ۔سید عطا ء اللہ شاہ بخاری کی ختم نبوت کے لیے کی جانے والی جدوجہد کے بھی آپ معترف تھے او ر ان کی درویشی اور فقرکاذکر بھی آپ بڑے جوش اور جذبے سے کیا کرتے تھے ۔ مولانا ظفر علی خان کی صحافت اور جوش ِ خطابت کا ذکر بھی فرمایا کرتے تھے ۔آپ نے کئی مرتبہ بتایا کہ مولاناظفر علی خان کی رومی ٹوپی اور پگڑی بھی آپ کے خطاب کے دوران آپ کے جوش اور جذبات سے ہل رہی ہوتی تھی ۔نوابزادہ نصراللہ خان کی مجلس سے اٹھ کر آنے کے بعد انسان بہت دیر تک برصغیر کے ان عظیم راہنمائوں کی یادوں کا اسیر بنا رہتا تھا کہ جن کی بے مثال اور پر خلوص جدوجہد کے سبب بر صغیر کے مسلمانو ں کو انگریزوں کی غلامی سے نجات حاصل ہوئی تھی ۔ نوابزادہ نصراللہ خان ایک درویش صفت انسان تھے۔ ان کی مجلس میں ہر سیاسی اور مذہبی کارکن بغیر اجازت داخل ہوسکتا تھا۔نوابزادہ مرحوم ہر غریب اور امیر کو نہایت خندہ پیشانی سے ملتے تھے۔ ہر شخص کے سوال کا جواب اطمینان اور سکون سے دیا کرتے تھے اور عوام کے رش اور آمد ورفت کی وجہ سے کسی قسم کی تھکاوٹ اور اکتاہٹ کا شکار نہیں ہوتے تھے ۔ نوابزادہ نصراللہ خان کی ایک بہت بڑی خوبی آپ کے دستر خوان کی کشادگی تھی ۔کھانے کے وقت دستر خوان پر حاضرینِ مجلس کو مدعو کرتے اور ہر کس و نا کس آپ کے دستر خوان سے جی بھر کر کھانا کھایا کرتا تھا ۔ بر صغیر کے بڑے بڑے سیاسی راہنماء ،علماء اورخطباء نوابزادہ نصراللہ خان سے بڑے ذوق اور شوق سے ملنے جاتے اور واپسی پر آپ کے بڑے پن کا احساس اپنے دل میں لے کر باہر نکلتے ۔ نوابزادہ نصراللہ خان کے انتقال سے ملک کے سیاسی کلچر کو بہت بڑا دھچکا لگا ۔سیاست خدمت کی بجائے تجارت بن گئی۔ مڈل کلاس کی دسترس سے نکل کر سرمایہ داروں کے گھروں کی غلام بن گئی۔ علم، خطابت ،شعور اور آگہی کی بجائے دکھلاوا ،مال ، رشوت ستانی اور سفارش سیاست میں ترقی کی علامات بن گئیں۔ نوابزادہ نصراللہ خان کی وفات سے نہ صرف یہ کہ قوم ایک بڑے راہنما سے محروم ہوگئی بلکہ سیاست بھی اعلیٰ اقدار اور زریں اصولوں سے دور ہوگئی۔ آپ کی وفات سے سیاست کا ایک اہم دور اختتام کو پہنچ گیا۔ اللہ تعالیٰ نوابزادہ نصراللہ خان کی خطائوں کو معاف فرماکر ان کے درجات کو بلند فرمائے ۔آمین!

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved