کہتے ہیں کہ ایک کسان نے زرعی اجناس فروخت کرنے والی شہر کی منڈی کے ایک چودھری صاحب کی آڑھت سے یہ کہہ کر کچھ رقم ادھار لے لی کہ چند دن بعد میری فصل مارکیٹ میں پہنچنے والی ہے۔ اس رقم کو ادھار کہہ لیں یا ایڈوانس سمجھ لیں‘ چند دنوں تک جب فصل آئے گی تو آپ کی آڑھت میں آنے والی فصل کی ادائیگی سے یہ رقم منہا کر لیجئے گا۔ چودھری صاحب نے اس کسان کی بات کا اعتبار کر لیا اور اس کو مطلوبہ رقم ادھار دے دی مگر اس کے بعد وہ کسان دوبارہ نظر نہیں آیا۔ اس بات کو پندرہ‘ بیس دن گزر گئے لیکن نہ تو کسان نے اپنی شکل دکھائی اور نہ ہی اس کی فصل آڑھت میں پہنچی۔ کسی آڑھتی سے بہتر کون جا ن سکتا تھا کہ کون سے علا قے میں کس کس کی فصل کی کٹائی ہو چکی ہے اور کس کس کی فصل ابھی باقی ہے۔ لگ بھگ ایک ماہ انتظار کرنے کے بعد انہوں نے اپنے ملازم کے ہاتھ اس کسان کو پیغام بھیجا کہ چودھری صاحب آپ کو یاد کر رہے ہیں۔ کسان نے جواب بھیجا کہ ہفتے‘ دس دن تک ان کو ملنے کیلئے آ ئوں گا‘ انہیں کہیں کہ گھبرائیں مت! کچھ بہت ہی ضروری کام آن پڑے ہیں۔ وعدے کا دن گزر گیا مگر کسان نہیں آیا۔ اس کے بعد مزید ایک ہفتہ گزر گیا۔ آڑھت میں چودھری صاحب انتظار کرتے رہے مگر کسان کی شکل دیکھنا نصیب ہوئی نہ ہی اس نے قرض کی رقم بھیجی۔ مختصراً یہ کہ دن پر دن گزرتے رہے اور چودھری صاحب پیغام بھیج بھیج کر تھک گئے۔ انہوں نے منڈی کے چند لوگوں کو بھی اس کسان کے پاس بھیجا مگر اس نے ان سے بھی ہفتے‘ دس دن کا وعدہ کر لیا لیکن وعدہ ایفا نہ ہو سکا۔ چودھری صاحب ایک سیدھے سادے کاروباری آدمی تھے اور لڑائی جھگڑے سے اجتناب کرتے تھے اس لیے تھک ہار کر چپ کر کے بیٹھ گئے۔ اتفاق دیکھئے کہ وہ کسان جو پہلے ہر دوسرے‘ چوتھے ہفتے آڑھت اور منڈی میں آیا کرتا تھا‘ اب مہینوں سے غائب تھا اور ان کا اُس سے آمنا سامنا بھی نہ ہو سکا تھا۔
ایک دن عجیب واقعہ ہوا۔ چودھری صاحب جو اب تک اس معاملے کو بھول کر آگے بڑھ چکے تھے‘ اپنی آڑھت میں پہنچے تو صبح صبح ہی وہ کسان ان کے پاس پہنچ گیا۔ چودھری صاحب اسے دیکھ کر کچھ حیران ہوئے اور اس کے سلام کے جواب میں زیادہ گرم جوشی بھی نہ دکھائی بلکہ غصے سے منہ دوسری جانب پھیر لیا۔ کسان ان کی بے رخی دیکھ کر کہنے لگا: چودھری صاحب! میں آج صبح صبح ایسے ہی نہیں آیا بلکہ آپ کی رقم کی ادائیگی کا پورا بندوبست کر کے آیا ہوں۔ آپ کے چہرے سے لگ رہا ہے کہ آپ مجھ سے کچھ ناراض ہیں‘ لہٰذا اپنا غصہ تھوک دیجئے اور میرے ساتھ چلیں۔ چودھری صاحب اس کی باتوں پر حیران ہو کر پوچھنے لگے کہ ایک تو تم اتنے عرصے بعد آئے ہو‘ میں تم پر اعتماد کرتے ہوئے تمہیں ادھار دینے کی غلطی کر بیٹھا تھا۔ اگر میرا قرض چکانا ہے تو یہیں پر میرے پیسے دو‘ مجھے کہاں لے جانا چاہتے ہو؟ کسان کہنے لگا کہ میں آپ کی ناراضی دور کرنے کی وجہ سے آپ کو ساتھ لے کر جانا چاہتا ہوں تاکہ آپ کو اندازہ ہو جائے کہ اتنے دنوں تک میں آپ کے قرض کی ادائیگی کیلئے کیا کیا جتن کرتا رہا ہوں۔ نہ چاہتے ہوئے بھی چودھری صاحب اپنے ایک ملازم کو ساتھ لیے اس کسان کے ساتھ چل پڑے۔ کافی دیر کے بعد وہ ایک سڑک پر پہنچے، کسان نے چودھری صاحب کو ایک جگہ کھڑا کر کے کہا: یہ سڑک آپ دیکھ رہے ہیں‘ میں نے اس سڑک کے دونوں جانب بیریوں کے پودے لگا دیے ہیں۔ چودھری صاحب بولے: وہ تو سب ٹھیک ہے لیکن اس کا میری ڈوبی ہوئی رقم سے کیا تعلق؟ اس پر کسان بولا: جناب! یہیں پر تو آپ کی رقم ہے۔ بیریوں کے یہ درخت بڑے ہو کر سڑک کی دونوں جانب اس طرح پھیل جائیں گے کہ پوری سڑک بیریوں کی جھاڑیوں سے اَٹ جائے گی اور آپ کو تو علم ہے کہ یہ کپاس والا علاقہ ہے‘ زمیندار اور جننگ فیکٹریوں والے جب کپاس اپنی ٹریکٹر ٹرالیوں اور ٹرکوں پر لاد کر اس سڑک سے گزریں گے تو بیری کے جھاڑیوں میں ان کی کپاس اٹک جایا کرے گی۔ کانٹوں کے ساتھ اٹکنے والی کپاس اتار کر بازار میں بیچ کر میں جلد ہی آپ کا ادھارچکا دوں گا۔ یہ سنتے ہی چودھری صاحب کی بے ساختہ ہنسی چھوٹ گئی اور وہ ہنستے ہنستے دہرے ہو گئے۔ اس پر کسان بولا: چودھری صاحب! اب تو آپ نے خوشی سے ہنسنا ہی ہے کیونکہ آپ کو پتا ہے کہ اب آپ کی رقم کی ادائیگی کا بندوبست ہو گیا ہے۔
سولہ ماہ میں ''اپنی سیاست تیاگ کر ملک بچانے والے‘‘ سابق وزیراعظم شہباز شریف نے لندن میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا ہے کہ اگر ان کے خاندان کو چوتھی مرتبہ موقع دیا گیا تو وہ سب کو یقین دلاتے ہیں کہ عوام کی وہ خدمت کریں گے کہ ان کے مسائل حل کر کے دکھائیں گے۔ میاں نواز شریف نے شہباز شریف کی بات کو آگے بڑھاتے ہوئے کہا کہ پاکستان میں جو بھی ترقی ہوئی‘ صرف انہی کے دورِ حکومت میں ہوئی۔ اگر انہیں پاکستان جا کر پھر سے وزیر اعظم کے طور پر کام کرنے کا موقع ملا تو وہ اپنے نا مکمل ایجنڈے کی تکمیل کیلئے سر دھڑ کی بازی لگا دیں گے۔ انہوں نے بتایا کہ ان کی ٹیم اسحاق ڈار کی قیا دت میں معاشی پالیسیوں کو نئے سرے سے تریب دے رہی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ہم وہی لوگ ہیں جنہوں نے ملک میں موٹر ویز کے جال بچھائے۔ اب جیسے ہی انہیں پھر سے حکومت میں لایا گیا تو وہ پہلے کی طرح موٹر ویز بناتے جائیں گے کیونکہ جیسے جیسے نئی سڑکیں اور موٹر ویز بنائیں گے‘ ملک کی ترقی ہوتی جائے گی جس سے ملک خوش حال بھی ہو گاا ور ہمارے زر مبادلہ کے ذخائر بھی بڑھنا شروع ہو جائیں گے۔
استاد گوگا دانشور سے ہم نے جب میاں صاحب کے اس بیان کی تشریح کا مطالبہ کیا تو ان کا کہنا تھا کہ مطلب واضح ہے کہ عالمی اداروں سے قرض لے کر موٹرویز بنائی جائیں گی۔ اس پر سوال کیا کہ پھر یہ قرض ادا کیسے کیاجائے گا؟ تو ان کا کہنا تھا کہ یہی موٹرویز گروی رکھ کر سکوک بانڈز جاری کیے جائیں گے اور ان سے قرض ادا کیا جائے گا۔ سیدھی سے بات ہے کہ جس قدر موٹرویز زیادہ ہوں گی، اسی قدر زیادہ قرض مل سکے گا کیونکہ گروی رکھنے کو زیادہ چیزیں میسر آ جائیں گی۔ استاد گوگا دانشور کی باتیں ہمارے پلے نہیں پڑیں لہٰذا ٹی وی پر خبریں سننے لگے۔ ٹی وی پر سابق وزیر خزانہ اسحاق ڈار صاحب کا ایک بیان چل رہا تھا کہ ڈار صاحب نے کہا ہے کہ کچھ عالمی اداروں کی خواہش تھی کہ پاکستان ڈیفالٹ کرے، وہ نہیں چاہتے تھے کہ بطور وزیر خزانہ اسحاق ڈار کامیاب ہو، وہ میرے ڈالر کو دو سو روپے سے نیچے پہنچانے کے ارادے سے خائف تھے، انہوں نے ہی میری راہوں میں روڑے اٹکائے۔ڈار صاحب کا یہ بھی کہنا تھا کہ عالمی ادارے میری ہسٹری‘ میرے ٹریک ریکارڈ سے خوفزدہ تھے، انہیں علم تھا کہ ڈار آئے گا تو ڈالر کو دو سو سے نیچے لے جائے گا۔ دوسری جانب بلاول بھٹو زرداری نے کہا ہے کہ اتحادی جماعتیں الیکشن سے خوفزدہ ہیں، وہ الیکشن سے فرار چاہتی ہیں لیکن میں کہتا ہوں کہ نوے نہیں تو ایک سو بیس دنوں میں الیکشن تو ہوں گے، لہٰذا ڈر کے بھاگنے کے بجائے مقابلہ کرو۔ ہم اپنی پرفامنس اور اہلیت دکھا کر الیکشن لڑیں گے۔نوجوانوں کو کہتا ہوں کہ ہمارا ساتھ دیں، میں ملک کی تقدیر بدلنا چاہتا ہوں۔بھارت میں ہوئی جی ٹونٹی کانفرنس کے حوالے سے میاں نواز شریف کا کہنا تھا کہ اگر میری حکومت ہوتی تو بھارت میں ہونے والی جی ٹونٹی کانفرنس پاکستان میں منعقد ہوتی۔ ان کا کہنا تھا کہ اگر میری حکومت کا تسلسل برقرار رہتا اور 2017ء میں ملک ڈی ریل نہ ہوتاتو آج جی ٹونٹی کا اجلاس بھارت کے بجائے پاکستان میں ہو رہا ہوتا۔
یہاں رک کر بتانا چاہوں گا کہ جیسے کوئی فلم‘ ڈرامہ یا پروگرام شروع ہونے سے پہلے ایک ڈِس کلیمر چلایا جاتا ہے کہ پروگرام میں پیش کیے جانے والے سبھی کردار، حالات اور واقعات فرضی ہیں، ان کی کسی سے کسی بھی قسم کی مماثلت محض اتفاقیہ ہو گی اور انتظامیہ اس سلسلے میں کسی بھی طرح سے ذمہ دار نہیں ہو گی، اسی طرح خاکسار نے چودھری اور کسان کی جو کہانی بیان کی ہے‘ یا موٹر ویز اور ان کے گروی رکھنے کی جو بات کی وہ سراسر فرضی ہے جس کا سیاستدانوں کے حقیقی بیانات سے کوئی تعلق نہیں ہے۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved