آئندہ عام انتخابات بروقت ہونے یا نہ ہونے کے حوالے سے صورتحال اب بھی مبہم ہے۔ سیاسی حالات اتنی غیریقینی صورتحال اختیار کر چکے ہیں کہ وہ سیاسی جماعتیں جو پہلے انتخابات سے بھاگتی تھیں‘ اب جلد انتخابات کی بات کرتی نظر آ رہی ہیں۔ پیپلز پارٹی کی بات کریں تو وہ انتخابات کے حوالے سے بے شمار یوٹرن لے چکی ہے۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ جیسے پیپلز پارٹی ڈبل گیم کھیل رہی ہے۔ یوں کہنا زیادہ مناسب ہوگا کہ پیپلز پارٹی وکٹ کے دونوں جانب کھیل رہی ہے۔ بلاول بھٹو زرداری اور آصف علی زرداری کو دیکھ لیجئے۔ بلاول بھٹو الیکشن کمیشن کے خلاف محاذ کھول رہے ہیں توزرداری صاحب مفاہمت کی باتیں کر رہے ہیں۔ یعنی ایک اپنے رویے سے تپش کا ماحول بنا رہا ہے تو دوسرا اُس پر پانی ڈال رہا ہے۔ ابھی حال ہی میں بلاول بھٹو نے الیکشن کمیشن اور اتحادیوں کو تنقیدکا نشانہ بنایا۔ بلاول بھٹو زرداری کا کہنا تھا کوئی چاہے یا نہ چاہے‘ الیکشن ہر صورت ہوں گے۔ دیوار پر لکھا ہے اگلی حکومت پیپلز پارٹی ہی بنائے گی۔ پیپلز پارٹی واحد جماعت ہے جو عوام کے مسائل حل کر سکتی ہے۔ الیکشن 90 دن نہیں تو 100 دن میں ہوں گے‘ سو نہیں تو 120 دن میں ہوں گے۔ بلاول بھٹو نے الیکشن کمیشن کے ساتھ ساتھ اپنے اتحادیوں کو الیکشن سے بھاگنے کا طعنہ بھی دیا اور کہا کہ اگر وہ بھاگ رہے ہیں تو اُنہیں بھاگنے دیا جائے لیکن پیپلز پارٹی انتخابات کے مطالبے سے پیچھے نہیں ہٹے گی۔ دوسری طرف آصف علی زرداری کا بیان بلاول بھٹو سے متضاد نظر آیا۔ آصف زرداری نے اپنے بیان میں الیکشن کمیشن پر اعتماد کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ الیکشن کمیشن آئین کے مطابق الیکشن کرائے گا۔ مردم شماری کے بعد الیکشن کمیشن نئی حلقہ بندیاں کرانے کا پابند ہے۔ چیف الیکشن کمشنر اور تمام اراکین پر ہمیں پورا اعتماد ہے۔ یوں باپ اور بیٹے کے بیانات میں کھلا تضاد نظر آیا جس کو تجزیہ کار اپنی اپنی نظر سے دیکھ رہے ہیں۔ بہت سارے سیاسی تجزیہ کار اسے گڈ کاپ اور بیڈ کاپ کی حکمت عملی قرار دے رہے ہیں۔
بلاول بھٹو کو سیاستدان بنانے میں ان کے والد صاحب کا اہم کردار ہے۔ بی بی کی شہادت کے بعد زرداری صاحب نے بلاول بھٹو کو سیاست کے میدان میں اتارا۔ بلاول بھٹو ہمیشہ جمہوریت کو بہترین انتقام قرار دیتے ہیں لیکن ایسا محسوس ہورہا ہے کہ اب پیپلز پارٹی کے اندر ہی انتقام کی صورتحال پیدا ہوگئی ہے۔ پارٹی میں تقسیم نظر آرہی ہے جس کی گواہی ایک سینئر صحافی نے حال ہی میں دی ہے۔ اُس صحافی کے بقول پیپلز پارٹی کے سیکرٹری جنرل فیصل کریم کنڈی نے اُنہیں بتایا کہ مشترکہ مفادات کونسل میں قمر زمان کائرہ پیپلز پارٹی کی نمائندگی نہیں کر رہے تھے۔ پیپلز پارٹی کی نمائندگی مراد علی شاہ اور نوید قمر کر رہے تھے جبکہ قمر زمان کائرہ کسی اور کی نمائندگی کر رہے تھے‘ وہ ہمارے نمائندے نہیں تھے۔ اب کسی اور کی نمائندگی سے کیا مراد ہے؟ یہ تو فیصل کریم کنڈی ہی بہتر بتا سکتے ہیں۔ لیکن اگر معاملے کو دوسرے زاویے سے دیکھیں تو یہ بات واضح ہے کہ پیپلز پارٹی پہلے جلد انتخابات کروانے کی حامی نہیں تھی لیکن جیسے ہی پی ڈی ایم حکومت ختم ہوئی تو اُس نے اپنے اتحادیوں کو تیور دکھانا شروع کر دیے۔ جس کی وجہ یقینی طور پر یہی ہو سکتی ہے کہ پیپلز پارٹی عوام میں اچھا بننا چاہتی ہے۔ پیپلز پارٹی کو یہ لگتا ہے کہ سندھ پہلے ہی اُس کے پاس ہے اور وہ وفاق میں استحکامِ پاکستان پارٹی‘ پرویز خٹک اور دیگر چھوٹی جماعتوں سے اتحاد کرکے اپنی پوزیشن کو مضبوط کر لے گی۔ اس لیے وہ اب جلد انتخابات میں اُترنا چاہتی ہے اور اسے یہ بھی پتا ہے کہ (ن) لیگ نے حکومت لینے کے بعد اپنا بہت ساسیاسی سرمایہ کھودیا ہے جس کا وہ انتخابات میں بھرپور فائدہ اُٹھانا چاہتی ہے۔ بلاول بھٹو پورے یقین کے ساتھ یہ کہہ رہے ہیں کہ اگلی حکومت پیپلز پارٹی بنائے گی اور اُن کی تقریروں سے بھی جھلک رہا ہے جیسے انہوں نے خود کو آئندہ کا وزیراعظم مان لیا ہے‘ لیکن (ن) لیگ اتنی آسانی سے سب کچھ پیپلز پارٹی کے ہاتھ میں نہیں دے گی۔ (ن) لیگ کو میاں نواز شریف کی واپسی کا شدت سے انتظار ہے لیکن جب تک آئندہ عام انتخابات ہو نہیں جاتے یا پھر انتخابات ہونا واضح نہیں ہو جاتا تب تک میاں نواز شریف کی واپسی مشکل نظر آتی ہے۔ گو کہ شہباز شریف نے میاں نواز شریف کی واپسی کی تاریخ دے دی ہے اور وہ تاریخ 21اکتوبر کی ہے۔ میاں صاحب خود بھی منہ زبانی اکتوبر میں واپسی کی بات کر چکے ہیں۔ اگر واقعی میاں نواز شریف وطن واپس آجاتے ہیں تو پھر اس کا مطلب یہ ہوگا کہ ان کے معاملات طے پا چکے ہیں اور انتخابات کی بھی آمد آمد ہے۔
فی الحال سیاسی جماعتیں انتخابات نہ ہونے کا ملبہ ایک دوسرے پر ڈال رہی ہیں۔ مولانا فضل الرحمان جو پہلے اسمبلی کی مدت میں ایک سال کی توسیع کی خواہش کا اظہار کر رہے تھے‘ وہ بھی اب جلد انتخابات کی بات کر رہے ہیں۔ مولانا تو یہاں تک کہہ رہے ہیں کہ وہ عمران خان کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک نہیں لانا چاہتے تھے لیکن انہیں مجبور کیاگیا۔ مولانا فضل الرحمان اگر تحریک عدم اعتماد لانے کے حق میں نہیں تھے پھر ان کو کس نے اس کاحصہ بننے پر مجبور کیا اور اگر واقعی جمعیت علمائے اسلام (ف) اس بات میں سنجیدہ تھی کہ انتخابات وقت پر ہوں تو پھر وہ حکومت کا حصہ کیوں بنی؟ اور اب اقتدار ختم ہونے کے بعد پیپلز پارٹی‘ جے یو آئی (ف) ایک دوسرے پر الزام تراشیاں کر رہی ہیں۔ بلیم گیم کا یہی سلسلہ (ن) لیگ اور پیپلز پارٹی بھی ایک دوسرے کے خلاف جاری رکھے ہوئے ہیں۔ جہاں تک تحریک انصاف کا تعلق ہے تو وہ شروع سے ہی انتخابات کا مطالبہ کر رہی ہے اور اب تحریک انصاف کے مطالبے پر صدرِ مملکت نے چیف الیکشن کمشنر کے نام ایک خط میں عام انتخابات کے لیے چھ نومبر کی تاریخ تجویز کر دی ہے۔نگران وزیر قانون کی صدرِ مملکت سے ملاقاتوں کی وجہ بھی شاید یہی امر تھا۔
یاد رہے کہ جب سپریم کورٹ میں پنجاب اور خیبر پختونخوا کے انتخابات کے معاملے پر از خود نوٹس کی سماعت جاری تھی تو اس دوران جسٹس جمال مندو خیل نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا تھا کہ آرٹیکل 48کہتا ہے صدر کا ہر عمل اور اقدام حکومت کی سفارش پر ہوگا۔ آرٹیکل 48کے مطابق الیکشن کی تاریخ دینا حکومتی ایڈوائس پر منحصر ہوگا۔ اب کچھ لیگی رہنما اور قانون دانوں کے مطابق صدر کی آئینی مدت ختم ہوگئی ہے اور اب وہ نگران صدر ہیں جبکہ دوسری رائے یہ ہے کہ نگران صدر کا کوئی تصور نہیں ہے۔ البتہ قائم مقام صدر ضرور ہوتا ہے۔ اور آئین کا آرٹیکل 44 صدر کو آئینی مدت پوری کرنے کے بعد تب تک عہدے پر رہنے کی اجازت دیتا ہے جب تک نئے صدر کا انتخاب نہ ہو جائے۔ لیگی رہنما عطا تارڑ کے نزدیک چونکہ عارف علوی صاحب کے عہدے کی میعاد ختم ہو چکی ہے اور 9 ستمبر کے بعد آرٹیکل 58 غیرفعال ہو چکا ہے۔ ایسے میں صدر الیکشن کی تاریخ کا اعلان کرنے کے مجاز نہیں لیکن اب چونکہ صدرِ مملکت الیکشن کی تاریخ کا اعلان کرچکے ہیں‘ اب اگر دوسری جانب الیکشن کمیشن بھی انتخابات کی کوئی تاریخ دے دیتا ہے تو پھر آئینی بحران جنم لے گا جوبالآخر سپریم کورٹ میں جائے گاکیونکہ انتخابات کی تاریخ کے اختیارات پر صدر مملکت اور الیکشن کمیشن میں سرد جنگ جاری ہے۔لیگی رہنما خرم دستگیر بھی ایک نجی پروگرام میں اس بات کی نشاندہی کرچکے ہیں کہ اس صورت میں معاملہ سپریم کورٹ جائے گااور ممکن ہے کہ اب نئے چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ ہی کیس کا فیصلہ کریں۔ آتے ساتھ ہی اُن پر ایک بڑی ذمہ داری پڑجائے گی۔ وقت کی ضرورت یہی ہے کہ صاف شفاف اور بروقت انتخابات کا انعقاد جتنا جلدی ہو سکے ہو جانا چاہیے۔ انتخابات نہ ہونے کی صورت میں ملک کو مزید نقصان پہنچے گا پھر سیاسی جماعتیں کس کو ذمہ دار ٹھہرائیں گی؟ پھر ہاتھ ملتے رہنے کا کوئی بھی فائدہ نہیں ہوگا۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved