بھارتی وزیراعظم من موہن سنگھ نے جنرل اسمبلی سے خطاب اور اوباما سے اپنی درخواست میں پاکستان کو دہشت گردی کا کارخانہ قرار دیا ہے۔ اس سے پہلے بیک ڈور ڈپلومیسی میں انہوں نے پاکستان کے ساتھ مذاکرات کی بحالی کیلئے لشکر طیبہ کے سات افراد کی حوالگی‘ حافظ سعید کے خلاف سخت کارروائی اور بھارت کو سب سے پسندیدہ قوم تسلیم کرنے کی تین شرائط پاکستان کے سامنے رکھی تھیں۔ حقیقت میںدہشت گردی کے اصلی کارخانے کہاں واقع ہیں‘ یہ جاننے کیلئے ممبئی پولیس کی انسداد دہشت گردی کے سربراہ آنجہانی ہیمنت کر کرے کی ان ’’ٹاپ سیکرٹ‘‘ فائلوں میں جھانکنا پڑے گا جنہیں ہاتھ لگاتے ہوئے بھارتی حکومت کو جھٹکے لگنے شروع ہو جاتے ہیں۔ ان فائلوں کے کچھ اوراق ہم انہیں سنائے دیتے ہیںبشرطیکہ وہ اپنے کان کھلے رکھیں۔ 26 نومبر 2008ء کی رات دس بجے کے قریب ممبئی حملوں کی اطلاع ملنے پر انسدادِ دہشت گردی فورس کے انسپکٹر جنرل ہیمنت کر کرے کا ما ہسپتال پہنچتے ہیں تو ان کے موبائل کی گھنٹی بجنی شروع ہو جاتی ہے۔ یہ فون سننے کیلئے وہ جونہی سر سے فولادی ہیلمٹ اتارتے ہیں‘ چار گولیاں ان کے سر کو اڑا دیتی ہیں۔ کیا جوڈیشل کمیشن یا من موہن سنگھ سرکار یہ بتانا پسند کرے گی کہ یہ فون کال کس کی تھی؟ کیا یہ درست نہیں کہ ہیمنت کر کرے‘ بھارت کی ملٹری انٹیلی جنس کے کرنل پرساد شری کانت پروہت اور ابھینائو بھارت کی نگرانی میں کام کرنے والے دہشت گرد گروپ کے نیٹ ورک تک پہنچ گئے تھے؟ ملیگائوں بم دھماکوں کے مکمل ثبوت حاصل کرنے کے بعد جب کرنل پروہت کو جو انڈین آرمی انٹیلی جنس کے پنچھ مڑھی سکول مدھیہ پردیش میں عربی زبان کا کورس مکمل کر رہے تھے‘ تفتیش کیلئے ممبئی انسداد دہشت گردی ہیڈ کوارٹر لایا گیا تو بھارتی ملٹری انٹیلی جنس کے بریگیڈیئر اور ممبئی پولیس کےEncounter Specialist وجے سالسکر پر مشتمل ٹیم نے کرنل پروہت سے مشترکہ تفتیش کی تو اس نے سمجھوتہ ایکسپریس، ملیگائوں بم دھماکوں، جعلی اسلحہ لائسنس اور دہشت گرد گروہ سے اپنے تعلق کا اعتراف کر لیا اور جب یہ رپورٹ بھارتی آرمی چیف کو پیش کی گئی تو ان کی منظوری سے کرنل پروہت کو با قاعدہ گرفتار کر لیا گیا۔ اب سوال یہ ہے کہ کیا کرنل عہدے کا فوجی افسر ناکافی ثبوتوں یا معمولی جرم پر آرمی چیف کی اجازت کے بغیر گرفتار ہو سکتا ہے؟ کہا جاتا ہے کہ ہیمنت کرکرے سے فوج اس لیے ناراض تھی کہ اس نے رپورٹ بین الاقوامی میڈیا تک پہنچا دی تھی۔ کیا بھارت سرکار اس سچائی سے انکار کرنے کی ہمت رکھتی ہے کہ کرنل پروہت سے مشترکہ تفتیش کرنے والے وجے سالسکر اور اشوک کامتے کو بھی26/11 کی رات نامعلوم سمت سے آنے والی گولیوں نے چھلنی کر دیا تھا؟ 31 مئی2008ء کو مہاراشٹر کے شہر واشی کے ویشنو داس آڈیٹوریم میں ہونے والے بم دھماکے کے صرف پانچ دن بعد مہاراشٹر ہی کے شہر تھان میں واقع گدکری رنگیاتن آڈیٹوریم کے تہہ خانے میں ہونے والے بم دھماکوں کے سلسلے میں رامیش ہنو منت، منگریش ڈنکرمِ، سنتوش سیتا رام، آنگرے اور وکرم بھائو گرفتار ہوئے۔ جب ان سے تفتیش کی گئی تو منگریش نے ان بم دھماکوں کے علا وہ20 فروری2008ء کو پانول میں ’’جودھا اکبر‘‘ فلم کی نمائش کے خلاف کیے جانے والے بم دھماکے کا بھی اعتراف کر لیا۔ ان سب دھماکوں کا تعلق کرنل پروہت گروپ سے تھا۔ انسدادِ دہشت گردی سکواڈ ممبئی نے تیرنوالی تن کاشی میں راشٹریہ سیوک سنگھ کے دفتر اور بس اسٹینڈ کے باہر ایک رکشہ میں کئے جانے والے بم دھماکے میں کیبل آپریٹر روی پانڈیان، رکشہ ڈرائیور ایس کمار، وی نارائن شرما، ایم ارجن، اے ارجن، بلم ارجن اور مسا رام کو چودہ پائپ بم بناتے ہوئے گرفتار کیا۔ ان سب کا تعلق بھارت کی انتہا پسند تنظیم راشٹریہ سیوک سنگھ سے تھا۔ ان سے جب تفتیش کی گئی تو ہیمنت کر کرے یہ جان کر حیرت زدہ رہ گئے کہ18 مئی2007ء کو حیدر آباد کی مکہ مسجد میں جمعۃ المبارک کی نماز میں یہی پائپ بم استعمال کیے گئے تھے۔ کر کرے نے بھارت کی سی بی آئی کو تنکاشی دھماکوں کے ملزمان سے کی گئی اس تفتیش سے آگاہ کرتے ہوئے درخواست کی کہ مکہ مسجد اور دوسرے بم دھماکوں کی تفتیش اکٹھی کر دی جائے‘ لیکن بار بار درخواست کرنے کے با وجودبھارت کی سی بی آئی خاموش رہی۔ 13 مئی2008ء کو جے پور کی مصروف ترین مارکیٹوں میں یکے بعد دیگرے سات بم دھماکے ہوئے جن میں63 لوگ مارے گئے۔ موقع سے وجے نامی ایک مشکوک شخص کو گرفتار کیا گیا۔ دورانِ تفتیش وجے نے دھماکوں میں ملوث ہونے کا اقرار کرتے ہوئے اپنی ساتھی عورت کا نام‘ پتہ اور حلیہ پولیس کو بتا دیا۔ چند گھنٹوں بعد وجے کو اوپر سے آنے والے ایک حکمِ خاص پر خاموشی سے چھوڑ دیا گیا جس کی کر کرے کو خبر ہو گئی اور اس کی زیر کمان انسداد دہشت گردی فورس نے وجے کو دوبارہ گرفتار کر لیا۔ اس پر سی بی آئی کر کرے سے سخت ناراض ہو گئی۔ ہیمنت کر کرے کی فائلوں میں بھارت سرکار کے کارخانوں میں ترتیب دیے گئے دہشت گردی کے دو انتہائی اہم ترین مقدمات کی کڑیاں آئے دن پھیلتی جا رہی تھیں۔ ان میں ایک 8 ستمبر2008ء کو ممبئی سے ساٹھ کلو میٹر دور مسلم آبادی کے قصبے ملیگائوں کی مسجد اور اس سے ملحقہ ایک خانقاہ میں کیا گیا بم دھماکہ تھا جس میں 32 افراد ہلاک اور125 زخمی ہوئے تھے۔ دوران تفتیش کر کرے کو موقع سے جب ایک نقلی داڑھی ملی تو 26 اپریل کو مہاراشٹر کے شہر نانڈو میں راشٹریہ سیوک سنگھ کے ایک عہدیدار کے گھر میں تیار ہونے والے بم کے پھٹنے کی تفصیلات سامنے آ گئیں۔ جب ہیمنت کر کرے کی فورس نے اس گھر کی تلاشی لی تو وہاں سے مختلف سائز کی نقلی داڑھیوں کے بھرے ہوئے ڈبے اور ایسے ملبوسات برآمد ہوئے جو بھارت کی مختلف ریاستوں میں بسنے والے مسلمان پہنتے ہیں۔ جب ہیمنت کرکرے کی تفتیش مزید آگے بڑھی تو اس کے سامنے بھارتی فوج کے میجر رامیش اپاڈیا کی تصویر آ گئی۔ جب اُس کے موبائل کا ریکارڈ چیک کیا گیا تو ملیگائوں بم دھماکے کے چند سیکنڈ بعد کرنل پروہت کے پانچ ایس ایم ایس سامنے آ گئے۔ اس پر میجر رامیش، کلکرنی اور ایک ہندو عورت پرگیہ ٹھاکر‘ جس کی جے پور دھماکوں میں گرفتار کیے گئے ملزم وجے نے نشاندہی کی تھی گرفتار کر لیے گئے اور تفتیش کا سلسلہ بڑھتے بڑھتے ملٹری انٹیلی جنس کے کرنل پروہت کے گروپ تک جا پہنچا جس نے پوری دنیا میں بھارت سرکار کے دہشت گردی کے کارخانوں کو ننگا کر کے رکھ دیا۔ بھارتی دہشت گردی کے کارخانوں کی چمنیاں بند کرنے کی کوشش کرنے والے ہیمنت کرکرے، اشوک کامتے اور وجے سالسکر کے سروں میں 26/11 کے ممبئی حملوں کی رات گولیاں اتار کر ہمیشہ کیلئے خاموش کر دیاگیا۔ آنجہانی ہیمنت کر کرے کے آپریٹر نیتن متھن کا ممبئی حملوں کے بارے میں قائم سپیشل کورٹ میں دیا گیا بیان ان کے قاتلوں کی مکمل نشاندہی کرتا ہے۔ متھن کا ریکارڈ شدہ بیان ہے کہ’’ حملے کی اطلاع ملنے پر ہیمنت ہاج ہائوس کے قریب سینئر پولیس افسران وسانت، سنجے موہت اور کے پی راگو ونش کے ساتھ ایک میٹنگ میں رہے اور پھر وہاں سے بلٹ پروف جیکٹ پہننے کے بعد جونہی کاما ہسپتال پہنچے‘ ان کے موبائل فون کی گھنٹی بجی اور جونہی انہوں نے ہیلمٹ اتار کر فون کان سے لگایا ان کے سر کو نشانہ بنا کر وہیں ڈھیرکر دیا گیا۔ بلٹ پروف جیکٹس کاعلم صرف’’ دہشت گردوں‘‘ کو تھا‘ اس لیے ان کے سینے کی بجائے فون کے ذریعے ہیلمٹ اتروا کر ان کے سر کو اڑا دیا گیا۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved