تحریر : بابر اعوان تاریخ اشاعت     15-09-2023

Let's come out of Self Denial…(2)

بابائے قوم ہمارے لیے تین نکاتی قومی ایجنڈا دے کر گئے تھے۔ اردو میں ہم نے ان تینوں الفاظ کا حلیہ بگاڑ چھوڑا ہے۔ اس لیے قائداعظم کا ایجنڈا انگریزی کے اُن الفاظ میں جن کا چناؤ Father of the Nationنے خود کیا۔ میں انہیں ہی یہاں دہرا دیتا ہوں۔
قائداعظم کے ایجنڈے کا پہلا لفظ تھا Unity۔ فال آف ڈھاکہ کے بعد آدھا پاکستان چلا گیا۔ کچھ منیجرز کی اَنا تھی اور کچھ اوروں کے گناہ تھے۔ ہم نے قائد کی دی ہوئی Unityکو پاش پاش کر ڈالا۔ ایک مثال میں نے دے دی‘ باقی کا فیصلہ آپ خود کریں۔ مذہبیات سے لے کر سماجیات تک‘ راج نیتی سے لے کر فارن پالیسی تک‘ ہم کس بات پر یک سُو اور یک جان ہیں؟ جو آئین میں لکھا ہوا ہے ہم اس پر بھی متحد ہونے کے لیے تیار نہیں۔ ایسا لگتا ہے یہ سرزمینِ بے آئین گوشت نوچنے والے گِدھوں کے لیے بنی تھی۔ سندھ کی حکومت 15سال اور مرکز میں 5سال جمع 16ماہ گزار کر ریسٹ پر گئی۔ مشکل سے ایک مہینہ گزرا ہے مگر اُس کا ماؤتھ پیس کہنا شروع ہو گیا ہم کب تک عوام کا خون نچوڑیں گے۔ چیخ و پکار اتنی جیسے اقتدار کے ایوانوں میں وہ خود نہیں بلکہ کوئی اور براجمان تھا۔
اب آئیے ذرا Faithکی طرف۔ کسی بھی ریاست کے اوپر اعتماد عمرانی معاہدے سے پیدا ہوتا ہے۔ Faithاس سے بھی اگلا قدم ہے۔ آپ اسے ریاست اور شہری کے باہمی اعتماد کی معراج کہہ لیں۔ جس ملک سے چند ماہ کے اندر 12لاکھ لوگ باہر بھاگے ہوں اور لاکھوں پاسپورٹ دفتروں کے چکر لگا رہے ہوں۔ معاشی پہیہ رکا ہوا ہو۔ نئی ایمپلائمنٹ کا راستہ بند ہو۔ چپڑاسی اور فُٹ کانسٹیبل کی نوکری کے لیے بی اے اور ایم اے کی ڈگریاں بھی بغیر سفارش کے کام نہ آسکیں۔ اس میں طاقت کی لاٹھی اور خوف کے بت کی پوجا کے ذریعے یقینِ محکم پیدا نہیں کیا جا سکتا۔
بابائے قوم کے ایجنڈے میں سے باقی رہ گیا Discipline۔ کس شعبے کی بات کریں گے؟ سرکاری ملازمت کی‘ ٹرانسپورٹ کی‘ روڈ یوزرز کی۔ ویسے بھی Disciplineکی دولت اوپر سے نیچے کی طرف آتی ہے۔ جب اوپر والے آئین سے ماورا‘ قانون سے بڑے‘ اپنے سے نیچے والوں کو مالک مکان یا حصہ دار سمجھنے کے بجائے ڈیفالٹر کرایہ دار سمجھ بیٹھیں۔ بڑے کی گاڑی کو روکنے کے لیے ٹریفک کا حوالدار آگے بڑھے‘ اسے کیمرے کی آنکھ کے سامنے بڑی گاڑی کُچل دے۔ قاتل باعزت بری ہو جائے۔ مقتول خاندان کو انصاف نہ ملے اور قاتل پہلے اسمبلی میں اور پھر وزارت کی کرسی پر جا کر بیٹھے۔ اس طرح کی لیڈر شپ کے نیچے قوم کے بچے یہی والا Disciplineسیکھیں گے جو ان کو سکھایا جا رہا ہے۔
مجھے ہر روز ایک سے زیادہ مرتبہ اور کم از کم دو مرتبہ سرکاری ریڈ زون میں جانا پڑتا ہے۔ ورنہ میری رہائش گاہ اور لا آفس دونوں سویلین ریڈ زون میں آتے ہیں۔ میں ہر روز دیکھتا ہوں کوئی نہ کوئی بڑی گاڑی والا ہاتھ لہرا لہرا کر کسی نہ کسی اشارے پہ ٹریفک وارڈنز کو بے نقط سناتا ہوا ملتا ہے۔ آپ چاہیں تو اپنے شہر میں گھوم کر خود یہ تجربہ دہرا لیں۔ کراچی میں ایسی ہی ایک واردات میں بڑی گاڑی کے مالک کے بیٹے نے گالیاں بکیں۔ وارڈن کو پہلے معطل کروایا پھر عین Disciplineکا مظاہرہ کرتے ہوئے اس پہ ایف آئی آر درج کرا دی۔ Disciplineتوڑنے والا اپنی کامیابی اور شادمانی کی پوسٹیں سوشل میڈیا پر لگا رہا ہے اور Discipline سکھانے والا سینٹرل جیل میں امیر قیدیوں کی بیرک میں جھاڑو دے رہا ہے۔ بحیثیت قوم‘ سماج اور سلطنت ہمیں پتہ ہے کہ خرابی کہاں ہے۔ آزادیٔ اظہار اس عروج پر ہے کہ کوئی غلطی کی نشاندہی کے لیے انگلی اٹھا کر اپنی انگلی کٹوانا نہیں چاہے گا۔ چڑیا طوطے کی کہانیاں‘ ہومیو پیتھک ایشوز پر جو مرضی بولیں‘ جتنا لمبا مرضی لکھیں‘ آپ اچھے بچے ہیں۔ آپ کو فکر کرنے کی کوئی ضرورت نہیں کیونکہ چڑیا‘ طوطا دونوں ڈال پر رہتے ہیں‘ ڈالے پر نہیں۔
اگلے روزسربراہِ ریاست نے آئین میں دیے ہوئے اختیار کو استعمال کرکے الیکشن کی تاریخ چھ نومبر 2023ء مقرر کر دی ہے۔ یونٹی‘ فیتھ اور ڈسپلن کے پرچار والے اس ملک میں سربراہِ ریاست کے نیچے کون سا ادارہ ان کی اس آئینی کمانڈ کو مانے گا؟
تیسرا مسئلہ‘ رول آف لا کے بجائے Rolling دی لا: آج ترقی یافتہ قوموں پر نظر ڈالیں تو گلوبل گاؤں میں چار طرح کے ماڈل نظر آتے ہیں۔ ان میں سے کون اچھا ہے اور کون برا‘ یہ ثابت کرنا مقصود نہیں۔ پہلے نمبر پر Kingdom‘ Sheikhdom‘ Fiefdomآتی ہیں۔ سب نے اپنی ضروریات کے مطابق قانون بنا رکھے ہیں۔ جنہیں توڑنے والا پکڑا جاتا ہے اور برسرِ عام سزا پاتا ہے۔ دوسرے نمبر پر Capitalismآتا ہے‘ نظامِ سرمایہ داری جس کے اپنے ضابطے ہیں۔ کوئی جیے یا مرے‘ نظام کو اس سے غرض نہیں ہوتی۔ وہ اپنے طے شُدہ کوڈ آف کنڈکٹ پر آگے بڑھتا ہے۔ تیسرا طرزِ حکمرانی سینٹرلی پلینڈ اکانومیز کہلاتا ہے جس کی سب سے بڑی مثال چین ہے‘ دوسرے کئی ملکوں میں سوشلسٹ اورکمیونسٹ نظریات رکھنے والے حکمرانی کرتے ہیں۔ جس کے تین بڑے اشارے ہیں۔ ملک میں موجود سارا کچھ اجتماعی ملکیت ہے۔ ہر شخص کو اس کی اہلیت کے مطابق روزگار اور ترقی کا موقع ملتا ہے۔ چوتھا‘ کرپشن اور بدعنوانی کی سزا صرف ایک ہے‘ موت۔ پانچواں نظام جمہوریت کہلاتا ہے۔ Presidential فارم آف گورنمنٹ‘ کسی جگہ پارلیمانی طرزِ حکومت اور کہیں بادشاہت اور جمہوریت ساتھ ساتھ۔ گورننس کے یہ سارے ماڈل اپنے اپنے نظام کے بنائے ہوئے قانون کے نیچے ہیں۔ بڑے اور چھوٹے کی کوئی تمیز نہیں۔ جو بھی قانون کی چکی میں آئے گا‘ پِس کر رہے گا۔ ہم نے ان سب میں سے کوئی بھی ماڈل کبھی تسلیم نہیں کیا۔ ہمارا نعرہ اسلامی جمہوریت ہے۔ ہمارا نظامِ مملکت اسلام کے عین متوازی ہے اور جمہوریت کے عین منافی۔ Self Denialکا مستقل مریض نظام۔
یہ مریض نظام امپورٹڈ ہے۔ امریکی مصنف ڈینیل مارکے اپنی کتاب ''No Exit from Pakistan‘‘ میں لکھتا ہے ''ہم پاکستان کو نہیں چھوڑ سکتے‘ جس کی تین وجوہات ہیں۔ پہلی‘ پاکستان کا نیوکلیئر/ میزائل پروگرام بڑا اور ایکسٹینسو ہے۔ اس پہ مسلسل نظر رکھنے کے لیے پاکستان سے انگیج رہنا پڑے گا۔ دوسری‘ پاکستان کے چینی سول ملٹری قیادت سے گہرے تعلقات ہیں۔ چین پر نظر رکھنے کے لیے بھی امریکی انگیجمنٹ ضروری ہے۔ تیسری‘ پاکستانی فوج بہت بڑی ہے جو ریجن یا دنیا کو ڈی سٹیبلائز کر سکتی ہے۔ اس پہ نظر رکھنے کے لیے انگیجمنٹ چاہیے‘‘۔
ڈینیل لکھتا ہے کہ ہم نے 72سال پہلے فیصلہ کیا پاکستان کو ڈویلپ ہونے اور اسلامی دنیا لیڈ کرنے کی اجازت نہیں دیں گے جس کے لیے کچھ طریقے اپنائے۔ پاکستان کو ڈی سٹیبلائز کرکے مینج کرو۔ ڈی سٹیبلائز کرنے کے لیے پاکستانی لیڈر خریدے جاتے ہیں۔ ساتھ سول بیوروکریسی کے افسران اور بعض جرنلسٹ۔ ڈینیل کے مطابق یہ بہت تھوڑی قیمت پر بِک جاتے ہیں۔ جیسے امریکی ویزا ملنا۔ بچوں کے لیے سکالر شپ۔ اتنی چھوٹی چیز پر وہ پاکستانی مفادات بیچنے پر تیار ہو جاتے ہیں۔ Let's come out of Self Denial۔(ختم)

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved