تحریر : آصف عفان تاریخ اشاعت     15-09-2023

کون کہاں جھوم رہا ہے

یوں لگتا ہے کہ ملک ایسے افراد کے نرغے میں آ چکا ہے جو آئین‘ قانون اور ضابطوں سمیت نظریات و اخلاقیات کو یکسر فراموش ہی کیے چلے جا رہے ہیں۔ آئینی مدت میں عام انتخابات کروانے کے لیے سبھی جتن اور جواز بے معنی ہوتے چلے جا رہے ہیں۔ سبکدوش ہونے والے چیف جسٹس عمر عطا بندیال کئی بار تاسف کا اظہار کر چکے ہیں کہ برملا اور دوٹوک فیصلے نہ کیے تو شرمندگی ہوگی۔ رخصتی کا وقت آن پہنچا ہے لیکن تاحال کوئی ایسا فیصلہ نہیں آسکا جو تاریخ اور انصاف کی کتابوں میں ممتاز سمجھاجاتا۔ نیب ترامیم ہوں یا پنجاب اور خیبرپختونخوا میں ماورائے آئین حکومتیں‘ ان سبھی کے کیسز نظامِ انصاف کی راہداریوں میں فیصلوں کے لیے بھٹکتے اور پیشیوں پر پیشیاں لیتے رہے لیکن اصول اور ضابطوں سمیت ناقابلِ تردید سبھی جواز دھرے کے دھرے رہ گئے اور وکالتوں اور مضبوط دلائل کی پیش نہ چلی۔ الیکشن کمیشن کو دو صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات کا شیڈول جاری کیے کئی ماہ گزر چکے ہیں لیکن یہ شیڈول کاغذوں اور فائلوں کے انبار تلے نجانے کہاں دَب چکا ہے۔
صدرِ مملکت نے اپنی مدتِ ملازمت پوری ہونے کے باوجود آئینی طریقہ کار کے مطابق نئے صدر کی تقرری تک عہدے پر برقرار رہنے کا فیصلہ کیا ہے۔ اگلے روز انہوں نے 6نومبر تک عام انتخابات کروانے کا پروانہ جاری کرتے ہوئے گیند ایک بار پھر عدلیہ کے کورٹ میں اُچھال دی ہے۔ صدرِ مملکت کی طرف سے انتخابی تاریخ جاری کرنے کے اقدام کو پہلے بھی کاؤنٹر کیا جاتا رہا ہے اور اب بھی پیپلز پارٹی اور (ن) لیگ صدر کی طرف سے انتخابات کی تاریخ تجویز کرنے پر مشترکہ مؤقف پر قائم ہیں کہ صدر کے پاس ایسا کوئی اختیار نہیں کہ وہ انتخابات کی تاریخ تجویز کریں جبکہ دور کی کوڑی لانے والے یہ بھی کہتے ہیں کہ صدر ضیا الحق کے فضائی حادثے کے بعد چیئرمین سینیٹ غلام اسحاق خان نے قائم مقام صدر بننے کے بعد انتخابی شیڈول بھی دے دیا تھا۔ اس تناظر میں صدر کی طرف سے انتخابات کی تاریخ تجویز کرنے کے اقدام کو غیرقانونی اور غیر آئینی قرار دینے والوں کے مؤقف کو ہرگز تقویت نہیں ملتی۔ صدر کے اس اقدام کو غیر آئینی اور اختیارات سے تجاوز قرار دینے والے خدا جانے کون سے آئین کو مانتے ہیں؟ پنجاب اور خیبرپختونخوا میں آئینی مدت کے بعد شوقِ حکمرانی کے نت نئے ریکارڈ کون سے آئین کے تحت ہیں؟
انتخابات سے گریزاں پنجاب کی نگران حکومت آئے روز تھوک کے بھاؤ تبادلے اور پیداواری سیٹوں پر باریاں کیوں لگوا رہی ہے۔ بیشتر انتظامی و پولیس افسران کی حالیہ ترقی اور تقرری تعجب خیز ہونے کے ساتھ ساتھ میرٹ اور گورننس کے بھی برعکس ہے۔ صوبائی دارالحکومت میں ایسے افسران نے وہ اندھیر مچایا ہوا ہے کہ بند آنکھ سے بھی صاف صاف نظر آرہا ہے لیکن خدا جانے کون سے ایجنڈے ہیں اور کون کون سے دھندے ہیں‘ کلیدی عہدوں پر ایسے افسران کا انتخاب کون کرتا ہے اور ان کی کلیئرنس کہاں سے ہوتی ہے؟ تعجب ہے! پولیس مقابلے کی آڑ میں ماورائے عدالت انصاف کو ہاتھ میں لینے والوں کے ہاتھ نجانے کس کس کے خون میں رنگے ہوئے ہیں۔ مشہورِ زمانہ زینب کیس میں پھانسی پانے والا اصل مجرم تھا یا قبل ازیں پولیس مقابلے میں پار ہونے والا؟ اس معمے اور سوال کا جواب تو ان فیصلہ سازوں کے پاس بھی نہیں جو ایسی تقرریوں اور تبادلوں کو گورننس ثابت کرنے پر تلے ہوئے ہیں۔ سنگین مالیاتی الزامات کی پنڈ اٹھائے اور رنگے ہاتھوں کے ساتھ صوبائی دارالحکومت میں کیسے کیسے سرکاری بابو نازاں اور اترائے پھرتے ہیں۔ کوئی انسدادِ رشوت ستانی و بدعنوانی کے معانی الٹائے جا رہا ہے تو کوئی شبینہ پولیسنگ کے ماڈل کے ساتھ زبانی جمع خرچ کیے چلا جا رہا ہے۔ کس کس کا نام لوں؟ سب کو سبھی جانتے ہیں۔ جانے نہ جانے گل ہی نہ جانے باغ تو سارا جانے ہے۔
اکثر تقرریاں اور تبادلے ٹینڈر کا منظر پیش کرتے نظر آتے ہیں۔ بزدار دور میں تختِ پنجاب میں تخت کے چاروں اطراف کھیلنے والے اکثر سرکاری بابوؤں کی موجیں بدستور جاری ہیں۔ کرپشن صرف مالی ہی نہیں انتظامی بھی ہوتی ہے۔ بابو جب صاحبِ اختیار ہو تو دونوں ہاتھوں سے دونوں کام کیوں نہ کرے۔ صوبائی دارالحکومت کے پوش ترین کمرشل علاقے میں واقع ایک وسیع و عریض پلازے کے روف ٹاپ پر معروف ریستوران کی ناختم ہونے والے لیز اور من چاہی شرائط و قواعد کا بینی فشری کون چلا آرہا ہے؟ اس ریستوران پر سرکاری محکمے اور ریگو لیٹر جانے سے کیوں گھبراتے ہیں؟ اس ریستوران کی کہیں زیادہ بولیوں کی پیشکش کے باوجود متعلقہ ادارہ بھاری مالی فائدے کو کیوں رَدّ کیے چلا جا رہا ہے؟ بھائی کے نام پر یہ بڑے کاروباری فائدے کون اٹھائے جا رہا ہے؟ انصاف سرکار کی نیا ڈولتی دیکھ کر مزید کام سے معذوری ظاہر کرنے والے بڑے سرکاری بابو جاتے جاتے ماتحت افسران کی اے سی آرز (کارکردگی رپورٹ) خراب کرنے کے ساتھ ساتھ نجانے کون کون سے بغض اور غصے بھی نکال گئے۔ میرٹ کے علمبردار افسر موصوف نے ایک طرف اصول پسندی کا جھنڈا اٹھائے رکھا اور دوسری طرف کلرک بھرتی ہونے والے واجبی تعلیم کے حامل محمد خان بھٹی کو بلا چوں چراں پرنسپل سیکرٹری برائے وزیراعلیٰ بھی اس لیے لگا ڈالا کہ وہ ضابطوں سے زیادہ حکمرانوں کی خوشنودی کو مقدم رکھتے تھے۔ ان کی اہم ترین اور نئی تقرری کے بعد ان سبھی افسران میں تشویش کی لہر دوڑ گئی ہے جن کی کارکردگی رپورٹیں وہ جاتے جاتے خراب اور ان کا کیریئر داؤ پر لگا گئے تھے۔ نئی ذمہ داریوں میں افسران کی اے سی آرز کی جانچ پڑتال سمیت مائنس پلس کا اختیار بھی موصوف کے پاس ہی ہے۔ اس تناظر میں اپنے ہاتھوں سے خراب کی گئی رپورٹس کی اپیل اور نظر ثانی کا امکان بھی ختم ہوگیا۔ گویا: خود ہی قاتل‘ خود ہی منصف۔صوبائی دارالحکومت میں ایک سے زائد عہدوں کی بدعت دوام پکڑتی چلی جا رہی ہے۔ کوئی گیدڑ سنگھی ہے یا جادو کی چھڑی‘ یہ معمہ آج تک حل نہیں ہو پایا کہ ایک ہی افسر کو ڈھیروں قلمدان دے کر کون سے ایجنڈوں اور دھندوں کی تکمیل جاری ہے۔ سبھی واقفانِ حال بخوبی جانتے ہیں کہ کون کہاں جھوم رہا ہے۔ صوبائی دارالحکومت میں میرٹ اور گورننس کی یہ درگت ہے تو دیگر چھوٹے بڑے شہروں میں کیا اُدھم مچا ہوا ہوگا۔ الامان الحفیظ!
بات چلی تھی آئینی مدت میں انتخابات کروانے کے خواہشمندوں اور گریزاں حلقوں کی‘ سبھی اپنے اپنے مؤقف پر ڈٹے ہوئے ہیں لیکن حالاتِ پریشاں کہیں رُکتے اس لیے نظر نہیں آتے کہ وفاقی کابینہ میں اضافے کے بعد الیکشن کمیشن نے بھی سوال اٹھا دیا ہے کہ سیاسی لوگ نگران کابینہ میں کیوں شامل کیے جا رہے ہیں؟ الیکشن کمیشن نے مزید تشویش کا اظہار کرتے ہوئے یہ بھی کہا ہے کہ نگران حکومت سابق حکومت کا تسلسل دِکھائی دے رہی ہے۔ اسیری اور وفاداری کی قیمت چکانے کے لیے اگر قلمدان اور سرکاری وسائل دستیاب ہوں تو اس سے بہتر قیمت کیا ہو سکتی ہے۔ مفادات کی پہرے داری کے لیے ان سے بہتر قلمدانوں کا اہل کون ہو سکتا ہے۔ خاطر جمع رکھیے! الیکشن کمیشن تشویش کا اظہار کرتا رہے گا۔ عدلیہ بھی تحفظات باور کرواتی رہے گی۔ قلمدانوں کی بندر بانٹ یونہی جاری رہے گی۔ سہولت کاریوں اور جانبداریوں کی قیمتیں سرکاری وسائل کے عوض برابر چکائی جاتی رہیں گی۔ سابق حکومت کا تسلسل دِکھائی دینے والی نگران حکومت بس نگرانی ہی کرتی رہے گی اور گلشن کا کاروبار جوں کا توں جاری رہے گا۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved