سندھ کی نگران حکومت کا یہ اعلان کے کہ ''وہ کچے اور پکے کے ڈاکوئوں میں نہ تو کوئی تمیز کرے گی اور نہ ہی ان میں سے کسی کا لحاظ کیا جائے گا بلکہ دونوں کو قانون کے شکنجے میں لانے کے لیے ہر ممکن کوشش کی جائے گی‘‘ عوام کے لیے خاصا حوصلہ افزا ثابت ہوا ہے اور یہ اعلان سن کر سبھی اب اس انتظار میں ہیں کہ کب کچے کے ساتھ ساتھ پکے والوں پر بھی قانون کا شکنجہ کسا جاتا ہے۔ یہ حقیقت کس سے ڈھکی چھپی ہے کہ جس دن پکے کے بڑے بڑے دس‘ بارہ ڈاکوئوں پر ہاتھ ڈالا گیا تو سمجھ لیجئے کہ ملک و قوم کی قسمت تبدیل ہو گئی۔ صرف سندھ ہی نہیں‘ پورے ملک کو جس طرح لوٹا گیا ہے‘ اس کا اگر کسی نے ایمانداری سے حساب لگایا تو اس کے ہوش اڑ جائیں گے لیکن بدقسمتی یہ ہے کہ اپنی حکومت کو قائم رکھنے، حالات کو کنٹرول میں رکھنے اور دیگر سو قسم کی مجبوریوں کے تحت اس قسم کے عناصر کی کرتوتوں سے پردہ پوشی کی جاتی ہے۔ سندھ کے نگران وزیر داخلہ نے قوم کا بھلا سوچتے ہوئے انہیں یہ مشورہ بھی دیا ہے کہ کچے کے ڈاکوئوں سے بچنے کے لیے وہ اپنے موبائل فون کو ہاتھوں میں لے کر نہ گھوما کریں بلکہ اسے قمیص یا ویسکوٹ کی اندرونی جیب میں رکھا کریں۔
اگر کچے کے ڈاکوئوں کی بات کریں تو اس وقت شمالی سندھ میں اغوا برائے تاوان ایک باقاعدہ صنعت بنی چکی ہے۔ ایک مقامی سندھی جریدے کی ایک رپورٹ کے مطابق پانچ ماہ میں شمالی سندھ میں 250 افراد کو تاوان کے لیے اغوا کیا گیا۔ شمالی سندھ میں امن و امان کے حوالے سے ایک کیس کی سماعت میں سندھ ہائی کورٹ کے جسٹس صلاح الدین پنہور نے ریمارکس دیے تھے کہ سندھ میں اغوا برائے تاوان روز کا معمول بن چکا ہے۔ اغوا برائے تاوان کی یہ وارداتیں گزشتہ چار دہائیوں سے زائد عرصے سے جاری ہیں مگر اب ان میں جو تیزی آئی ہے اس کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا۔ متعدد بار ان ڈاکوؤں اور اغوا کاروں کے خلاف آپریشن بھی کیا گیا مگر کچھ عرصہ بعد یہ دھندہ پھر شروع ہو گیا۔ 'ڈاکوئوں کی دہائی‘‘ (از امداد حسین سہتو) کے مطابق 1984ء سے 1994ء کی دہائی میں 11 ہزار 436 افراد کو تاوان کے لیے اغوا کیا گیا۔ 1337 سے زیادہ افراد کو قتل کیا گیا اور دو ارب روپے کا تاوان وصول کیا گیا۔ مقامی پولیس رپورٹس یہ بتاتی ہیں کہ کچے کے علاقے میں چھپے یہ ڈاکو اپنے علاقوں سے باہر نہیں نکلتے، ان کے جو سہولت کار ہیں‘ وہی اغوا کیے گئے لوگوں کو لے کر آتے ہیں اور ان کے علاقے میں پہنچا دیتے ہیں۔ باخبر ذرائع کا کہنا ہے کہ کرائے کی موٹر سائیکلیں اور گاڑیاں خصوصی طور پر اس کام میں استعمال ہوتی ہیں۔ اب یہ پورا ایک کاروبار بن چکا ہے جس میں بندہ اغوا کرنے والے، اسے رکھنے والے ،آگے پہنچانے والے، چیک پوسٹوں اور ناکوں والوں سمیت سب کا حصہ ہوتا ہے۔ سندھ پولیس کا کہنا ہے کہ ڈاکوؤں سے لڑائی کے لیے ان کے پاس زیادہ سے زیادہ جی تھری اور کلاشنکوف جیسے ہتھیار ہیں جبکہ ڈاکوؤں کے پاس طیارہ شکن بندوقیں تک موجود ہیں۔ اس کے علاوہ وہ سرحد پار کر کے جنوبی پنجاب کے علاقوں میں چلے جاتے ہیں۔ پولیس کے ہاتھ بندھے ہوئے ہیں جبکہ ڈاکوئوں کے پوری طرح کھلے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ وہ دندناتے پھرتے ہیں۔ باخبر صحافتی ذرائع کا کہنا ہے کہ کچے کے ڈاکو ''پکے‘‘ کے ڈاکوئوں کے بنا کچھ بھی نہیں۔ کس کو کس کی آشیرباد حاصل ہے، یہ بات ہر کوئی جانتا ہے۔ یہ کیسے ممکن ہے کہ کراچی اور حیدر آباد جیسے علاقوں سے کوئی بندہ اغوا ہو اور فوری طور پر اس کے تاوان کے لیے کچے سے فون چلا جائے۔ اس کے علاوہ کچھ ہی گھنٹوں میں اغوا شدہ بندہ بھی کچے کے علاقے میں پہنچ جائے۔ کیا اتنے ناکوں، چیک پوسٹوں اور دیگر سکیورٹی بیریئرز سے گزرنا کسی معاونت کے بغیر ممکن ہے؟ مسئلہ یہ ہے کہ ''پکے والوں‘‘کے ووٹوں کو عزت دینا پڑتی ہے۔
اگر سندھ کی نگران حکومت کے کچے اور پکے کے ڈاکوئوں کے خلاف بلاتخصیص کارروائی کے اعلان کے بعد بھی قانون کا گھیرا صرف کچے کے ڈاکوئوں کے خلا ف ہی تنگ کیا گیا تو پھر سمجھ لیجیے گا کہ یہ اعلان بھی محض ایک دکھاوا تھا اور حالات میں بہتری کی زیادہ امید نہیں ہے۔ اس حقیقت سے کون انکار کر سکتا ہے کہ کچے کے ڈاکو اس وقت تک باہر نکلتے ہی نہیں جب تک پکے کے ڈاکو اجا زت نہ دیں۔ بد قسمتی کہہ لیجئے کہ ہمارے ملک کا ہمیشہ سے مسئلہ یہی رہا ہے کہ جب بھی ہاتھ ڈالا گیا تو صرف چھوٹے چوروں پر اور اگر پھولوں کی مالا پہنائی گئی تو وہ بڑے ڈاکوئوں کو۔ آج میرے ملک کے جو حالات ہو چکے ہیں، ہر پل کے نیچے اور ریل کی پٹڑیوں پر جو لال خون بہہ رہا ہے اس کی وجہ یہی ہے کہ پکے کے ڈاکوئوں کو کھلی چھوٹ دے دی گئی ہے۔ کاش ان کے ساتھ کسی قسم کی کوئی رعایت نہ برتی جاتی تو شاید آج عوام بجلی کے بلوں، گھی‘ آٹے‘ چینی‘ دال اور سبزی کیلئے گھر کی ہر شے بیچنے کیلئے در بدر نہ پھر رہے ہوتے۔کاش ان پکے والوں پر بھی آہنی ہاتھ ڈالا جاتا ،تو پورا ملک آج سکھ کا سانس لے رہا ہوتا۔
2020ء میں سندھ کے حوالے سے ایک جامع رپورٹ شائع ہوئی تھی جس کے مطابق چند نمائشی منصوبوں کو چھوڑ کر پورا صوبہ صوبائی حکومت کی ناکامیوں کی گواہی دے رہا ہے۔سڑک، سیوریج، صاف پانی اور بجلی جیسی بنیادی ضروریات سے محرومی سندھ باسیوں کا مقدر بن چکی ہے۔ صحت جیسا اہم معاملہ بھی حکمران اشرافیہ کی توجہ میں جگہ نہیں پا سکا۔ اندرونِ سندھ کے عوام کو معمولی علاج کے لیے بھی میلوں کا سفر کرنا پڑتا ہے اور وہ بھی ایسی سڑکوں پر جہاں مریض کی حالت تو بگڑتی ہی ہے‘ سفر کا دورانیہ بھی بڑھ جاتا ہے جس سے لاچار بیماروں کی اذیت کئی گنابڑھ جاتی ہے۔ شہروں میں موجود ہسپتال بھی اس قابل نہیں کہ شہری آبادی کے ساتھ ساتھ دیہی مریضوں کا بھی بوجھ اٹھا سکیں۔ کھربوں روپے ترقیاتی منصوبوں پر خرچ کرنے کے دعوے کیے گئے لیکن اس کے باوجودصحت، تعلیم، فراہمیِ آ ب ا ور دیگر شعبوں کے سینکڑوں منصوبے نامکمل ہیں۔دستاویزات کے مطابق 2200 سے زائد ایسے منصوبے تھے جنہیں صوبائی حکومت اپنے دوسرے دورِ اقتدار میں مکمل نہیں کر پائی تھی۔ کچھ منصوبوں پر کام کا آغاز تو ہوا لیکن کوئی پیشرفت نہ ہو سکی جبکہ متعدد منصوبے ایسے بھی تھے جن پر کام ہی شروع نہ کیا جاسکااور وہ صر ف کاغذوں اور فائلوں تک محدود رہے۔کراچی، لاڑکانہ، حیدر آباد اور تھر جیسے علاقے ہی میں نا مکمل منصوبے نہیں تھے، بے نظیر آباد، بدین، لاڑکانہ، جیکب آباد، ٹنڈو محمد خان، کشمور، ٹھٹھہ، گھوٹکی میں بھی کسی ترقیاتی منصوبے کو پایہ تکمیل تک نہیں پہنچایا جاسکا۔ زراعت کے شعبے سے متعلق 35سے زائد منصوبے ادھورے رہے جبکہ شعبۂ صحت کے ڈیڑھ سو سے زائد منصوبے نا مکمل رہے۔ اُسی سال جو صوبائی حکومت کی آڈٹ رپورٹ جاری ہوئی تھی اس میں بتایا گیا تھا کہ مالی سال 2019-20ء میں 163 ارب روپے سے زائد کی مبینہ کرپشن ہوئی۔ 113 ارب روپے وہ تھے جو حکومت نے خرچ کرنے کا دعویٰ کیا مگر کوئی دستاویزی ثبوت فراہم نہیں کیا۔ مختلف خریداریوں میں 47 ارب روپے براہِ راست کرپشن کی نذر ہوئے۔2021ء میں نیب نے سندھ میں فلاحی کاموں کے لیے دیے گئے 350 ارب روپے سے زائد کی کرپشن کے کیس کی تحقیقات شروع کرنے کا اعلان کیا۔ اسی طرح اینٹی کرپشن سندھ کا ریکارڈ بتاتا ہے کہ کرپشن کیسز کی انکوائریاں سست روی کا شکار ہیں۔ 300سے زائد انکوائریاں تاحال مکمل نہیں ہوسکیں۔ میگا کرپشن ، کروڑوں کی خوردبرد، غیر قانونی ترقیاں، جعلی بھرتیاں اور گھپلوں کی تحقیقات سرد خانے کی نذر ہورہی ہیں اور وجہ صرف ایک رہی: حکومت کا سیاسی دبائو۔ نگران حکومت نے بھی ابھی تک ان انکوائریوں کی تکمیل کے لیے کوئی خاطر خواہ اقدام نہیں کیا۔
اگر سندھ کی نگران حکومت واقعی عوام کے دکھ درد کا احساس کرتے ہوئے انہیں کچے کے ساتھ ساتھ پکے کے بھی ڈاکوئوں سے نجات دلانا چاہتی ہے تو باقی سب کچھ چھوڑ کر‘ صرف اینٹی کرپشن اور نیب کے جاری کیسوں کی تحقیقات کو غیرجانبدارانہ اور سیاسی اثرو رسوخ سے پاک رکھتے ہوئے جلد از جلد مکمل کرا دے۔ بے لاگ کارروائی کا تاثر بھی پختہ ہو جائے گا اور سندھ دھرتی کو لوٹنے والوں کے نام بھی سامنے آ جائیں گے۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved