پاکستان آزادی کے 77ویں سال میں کمزور معیشت‘پچیس کروڑ نفوس پہ مشتمل متنوع آبادی‘ فعال سیاست اور ایسے تغیر پذیر بیرونی تعلقات کے ساتھ داخل ہوا ہے جو اگلے چند سالوں میں اسے جنوبی ایشیا کی ابھرتی ہوئی معیشت اور دفاعی لحاظ سے ناقابلِ تسخیر بنا سکتے ہیں۔معاشی بدحالی اور مغربی سرحدوں سے پھوٹنے والے دہشت گردی کے جس آسیب نے ہمیں گھیر رکھا ہے یہ عالمی طاقتوں کی اُسی دم توڑتی پیکار کا نتیجہ ہیں جس کے تقاضوں نے روز ِاول سے ہماری مملکت کو دبوچ لیا۔ستم ظریفی دیکھئے‘ پچھلی پون صدی میں مغربی اشرافیہ نے بھارت کی انگلی پکڑ کر اُسے شاہراہِ ٔجمہوریت پہ چلنا سکھایا‘سرد جنگ کے زمانہ میں بھی کھلے دل کے ساتھ اسے یہ سہولت ملی کہ وہ روس‘ امریکہ‘ عرب‘ اسرائیل ‘ایران اور چین سمیت جس سے چاہے متوازن تعلقات اور تجارتی و دفاعی معاہدے کرے ‘لیکن پاکستان کو ملائیشیا سے زیتون کا تیل لینے کی اجازت تھی نہ روسی تیل خرید سکتا تھا۔پچاس کی دہائی میں جب امریکہ ہمیں گھسیٹ کے سیٹو‘ سینٹو معاہدات کی زنجیروں میں جکڑ رہا تھا‘بھارتی وزیر اعظم نہرو اُ س وقت پوری آزادی کے ساتھ غیر وابستہ تحریک کی قیادت کرتے دکھائی دیتے تھے۔امریکہ نے1947ء سے ہی پاکستان کو ایسے معاہدوں میں جکڑ لیا جن کا مقصد پاکستان کی سٹریٹجک پوزیشن کو سرد جنگ کے تقاضوں کے مطابق بروئے کار لانا تھا؛ چنانچہ 75 سالوں کے دوران ہمیں افغانستان میں سوویت جارحیت اور دہشت گردی کے خلاف جنگ اور انتہا پسندی کے حوالوں سے استعمال کیا گیا۔ امریکی اقتصادی اور فوجی امداد دینے والے معاہدوں کا مقصد بھی ہمارے مملکتی نظام پہ گرفت مضبوط کرنا تھا‘اسی لیے بھارت کے خلاف 1965ء اور 1971ء کی جنگوں کے دوران امریکی فوجی امداد کی معطلی اور بھارتی ایٹمی دھماکوں سے صرفِ نظر کرتے ہوئے جوہری ہتھیاروں کی تیاری کے پیش نظر عائد پابندیوں نے پاکستانی عوام میں اس تاثر کو گہرا کیاکہ امریکہ قابلِ اعتماد اتحادی نہیں۔1947ء میں جب نوزائیدہ ریاست کو بنیادی ڈھانچے کی ترقی کیلئے مالی مدد کی ضرورت تھی تب امریکہ نے فوج کی جدید کاری کیلئے امداد کی ترغیب دی تاکہ مشرقِ وسطیٰ میں سوویت یونین کی توسیع‘کمیونسٹ چین اور مشرق وسطیٰ کے قریب پاکستان کے سٹریٹجک محل وقوع پہ تصرف پا کرجنوبی ایشیا میں امریکہ کیلئے قدم جمانے کا موقع پیدا کیا جائے؛چنانچہ پاکستان نے امریکہ کیساتھ 19 مئی 1954ء کوسیٹو معاہدہ پر دستخط کئے‘ جس کے تحت دفاعی سازوسامان کے علاوہ ہماری داخلی سلامتی اورجغرافیائی دفاع کو برقرار رکھنے کا عہد و پیماں شامل تھا۔ تاہم سیٹوکے تحت پاکستان کو ناکافی امداد سے مایوسی ہوئی۔ معاہدے کا مقصد صرف کمیونسٹ جارحیت کے خلاف دفاع تھا‘ پاک‘ بھارت تنازعات میں شمولیت نہیں تھی‘ اسیلئے پاکستان سینٹو پر دستخط بارے متذبذب تھا کیونکہ اسے SEATO سے متوقع مدد نہ ملی‘ البتہ ترکی و عراق نے یہ بتاتے ہوئے کہ علاقائی اراکین کی حمایت کیلئے ان پر اعتماد کیا جا سکتا ہے‘ ایوب خان کو معاہدے پہ پر راضی کر لیا۔ بعد ازاں پاکستان نے ستمبر 1955ء میں امریکہ کیساتھ باہمی تعاون کے ایک ایسے معاہدے پر دستخط کیے جسے 1959ء میں بڈھ بیر میں خفیہ انٹیلی جنس بیس قائم کرنے اور پشاور ایئربیس کوU-2 امریکی جاسوسی طیاروں کو روس کی نگرانی کیلئے استعمال کرنے کی اجازت دینے کے بدلے پاکستان کی قومی اور علاقائی سالمیت کیلئے یقین دہانی کرائی گئی کہ پاکستان کے خلاف بیرونی جارحیت کی صورت میں امریکہ اپنی افواج کے استعمال سمیت مناسب کارروائی کرے گا۔تاہم ایک تو اتحاد کے اخراجات فوائد سے زیادہ تھے دوسرے امریکہ کیساتھ اتحاد نے سوویت یونین کو مشتعل کر دیا؛ چنانچہ ستمبر 65ء کی پاک بھارت جنگ کے دوران ماسکو نے اپنا وزن بھارت کے پلڑے میں ڈال دیا۔ امریکہ نے بھی بھارتی جارحیت کے خلاف مزاحمت کے فطری حق کو تسلیم کرنے کے باوجود ہماری مدد سے ہاتھ کھینچ لیا۔اسی عہد میں سوویت یونین نے کابل میں بیٹھ کر' پشتونستان‘ کی حمایت کرکے پاکستان کیخلاف دشمنی کا اظہار کیا۔تا ہم1971ء کی جنگ کے دوران امریکہ نے پاکستان کیساتھ کئے گئے دفاعی اور علاقائی سالمیت کے معاہدوں سے انحراف کر کے عوامی سطح پہ باہمی اعتماد کو نقصان پہنچایا۔اسلئے پاکستان جو ابتدا میں پُرامن استعمال کیلئے جوہری ٹیکنالوجی حاصل کر رہا تھا‘ 1974ء میں بھارت کے زیر زمین ایٹمی تجربہ کے بعد مجبوراً پاکستان کو بھارتی جارحیت کے خلاف خود کو دفاع کے قابل بنانے کیلئے جوہری ہتھیاروں کے پروگرام کی طرف جانا پڑا۔1972ء میں حکومت کا کنٹرول سنبھالنے کے بعد ذوالفقار علی بھٹو نے ٹوٹی ہوئی قوم کو جوڑ کر اسے نئے حقائق سے آشنا کرنے‘ حوصلہ و اعتماد بحال کرنے اور داخلی و خارجی طور پہ ناکام پالیسیوں کی اصلاح کی طرف قدم بڑھانے کے دوران ملک کو مغربی مدار سے گھسیٹ کر سوویت یونین اور چین کی طرف مائل کرتے ہوئے پاکستان کو سیٹو معاہدے سے نکال لیا مگر سینٹو کا حصہ رہا‘ کیونکہ بھٹو انتظامیہ امریکہ کیساتھ تعلقات مکمل طور پر منقطع نہیں کرنا چاہتی تھی ؛چنانچہ جب پاکستانی پالیسی مغربی سے مشرقی بلاک کی طرف شفٹ ہونے اور جوہری ہتھیاروں کی تیاری کی طرف مائل ہوئی تو جمی کارٹر نے پاکستان پر پابندیاں عائد کر دیں۔امریکی اس وقت مزید بگڑگئے جب بھٹو نے 1977ء کے انتخابات کے بعد امریکہ کو اپنے خلاف ملک گیر تحریک برپا کرنے کا محرک قرار دیا۔ انہوں نے اپریل 1977ء میں پاکستان میں امریکی مشن کے اہلکار کے ریمارکس کو انٹیلی جنس مداخلت قرار دیتے ہوئے کہا '' میرے ذرائع مجھے بتاتے ہیں کہ پارٹی ختم ہو گئی‘‘ مطلب بھٹو مزید اقتدار میں نہیں رہ سکتے۔جولائی میں بھٹوکا تختہ الٹ کے ملک تیسرے مارشل لاء کے سپردکر دیا گیا۔ 29 دسمبر 1979 کو جمی کارٹر نے وسیع تر خفیہ کارروائی کی منظوری دی جس میں سی آئی اے کو افغان کمیونسٹ مخالف جنگجوؤں کیلئے ہتھیار اور گولہ بارود فراہم کرنے کی ہدایت کی گئی۔اس منصوبہ پر عمل درآمد کے صلہ میں جنرل ضیا الحق کو اگلے چھ سالوں کیلئے 3.2 بلین ڈالر کا امدادی پیکیج دے کر پاکستان کو ایک بار پھر''قابلِ بھروسہ‘‘ اتحادی بنایا گیا‘ تاہم خوش قسمتی سے یہ افغان تنازع ہمارے ایٹمی پروگرام کو بڑھانے میں مددگار ثابت ہوا‘ لیکن سرد جنگ کا خاتمہ اور دہشت گردی کے خلاف جنگ سوویت یونین کے انہدام پہ منتج ہوئی تو امریکہ نے ایٹمی مسئلہ کو جواز بنا کر 1990ء میں پریسلر ترمیم کے تحت 700 ملین ڈالر کی اقتصادی اور فوجی امداد بند کرنے کے علاوہ F16 اور دیگر فوجی ساز و سامان دینے سے انکار کر دیا۔مزید برآں‘ جیسے ہی پاکستان نے 1997ء میں طالبان حکومت تسلیم کی‘ امریکہ سے تعلقات مزید بگڑنے لگے۔ تاہم ماضی کی ہر آمریت کی طرح مشرف کے مارشل کو 9/11 واقعہ نے امریکہ سے قریبی فوجی تعاون میں بدل دیا اور امریکہ نے ایک بار پھر پاکستان کو جنگِ دہشت گردی میں سٹریٹجک پارٹنر کے طور پر جوت لیا۔
گزشتہ دو دہائیوں کے دوران پاک امریکہ تعلقات میں دو واقعات نہایت اہم رہے‘ پہلا امریکی فوج کے ہاتھوں 2011ء میں ایبٹ آباد میں اسامہ بن لادن کی ہلاکت‘جسکے بعد نہ صرف حکومتی بلکہ عوامی سطح پر بھی ایک دوسرے پہ عدم اعتماد ناقابلِ یقین حد تک گہرا ہو گیا۔ ایسا لگ رہا تھا کہ حالات کا پلٹنا ناممکن ہو گا‘ لیکن ایک بار پھر افغانستان سے امریکی انخلا نے پاکستان کو واشنگٹن کی ضرورت بنا دیا۔ پاکستان سرد جنگ کے آغاز سے لے کر افغانستان سے سوویت یونین کے انخلا تک‘ جنگ ِدہشت گردی سے لے کر فوجی انخلا تک خطے میں امریکہ کا ناقابلِ بھروسہ اتحادی رہا لیکن اب پیراڈائم شفٹ نے ہمارے دفاعی واقتصادی ڈھانچے اور سیاسی نظام کو مغربی مدار سے نکال کر چین‘روس‘ترکی اور ایران کیساتھ منسلک کر دیا ہے۔ یہی ارتعاش کا وہ نازک مرحلہ ہے جس میں قوم کا سفینہ ہمیں ہچکولے کھاتا نظر آتا ہے ۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved