تحریر : نذیر ناجی تاریخ اشاعت     03-10-2013

ہم بے بس یرغمالی

جن ملکوں میں لاقانونیت اور دہشت گردی کا راج ہے‘ ان کے بہت چھوٹے چھوٹے حصے‘ اس مرض سے متاثر ہیں۔ سوڈان‘ مالی‘ صومالیہ‘ کینیا‘ عراق‘ افغانستان‘ برما‘ کچھ عرصہ پہلے تک سری لنکا‘ تھائی لینڈ‘ فلپائن‘ غرض دنیا کے نقشے پر نظرڈالتے ہوئے دیکھتے جایئے‘ اس طرح کے سارے ملکوں میں ‘ دہشت گردی اور لاقانونیت چھوٹے چھوٹے ٹکڑوں کی صورت میں پائی جاتی ہے اور متاثرہ ملکوں کے بڑے حصوں میں معمول کی زندگی بھی رواں دواں ہے۔ بھارت میں بھی دہشت گردی موجود ہے۔ لیکن وہاں بنیادی طور پر سیاسی اور طبقاتی تحریکیں ہیں‘ جو معاشی اور سماجی آزادیوں کے لئے‘ حکمران طبقوں اور ان کے مسلح کارندوںسے برسرپیکار ہیں۔ لیکن وہاں کا بھی آبادی کا بڑا حصہ پرامن اور معمول کی زندگی گزارتا ہے۔ موازنہ کر کے دیکھا جائے‘ تو پاکستان کی جتنی بڑی آبادی‘ لاقانونیت اور دہشت گردی کے شکنجے میں آئی ہوئی ہے‘ اس کی دنیا میں دوسری کوئی مثال موجود نہیں۔ سب سے زیادہ دہشت گردی بلکہ جنگ‘ افغانستان میں ہو رہی ہے۔ لیکن کیا آپ کو معلوم ہے کہ افغانستان میں بھی اتنے لوگ جنگ اور دہشت گردی سے متاثر نہیں‘ جتنے ہمارے صرف ایک شہر کراچی میں ہیں۔ یہی صورتحال عراق میں ہے۔ اگر دیکھا جائے تو دہشت گردی کے معاملے میں عراق سرفہرست ہے۔ گزشتہ کئی ماہ سے وہاں ہر مہینے ایک ہزار افراد ‘ دہشت گردی کا نشانہ بنتے ہیں۔ لیکن وہاں کی آبادی کا بڑا حصہ پرامن زندگی گزار رہا ہے۔ دہشت گردی صرف چند شہروں تک محدود ہے۔ یہ اور بات ہے کہ عراق کی دہشت گردی کے پیچھے عالمی کھلاڑیوں کے ہاتھ ہیں‘ جو اس ملک کو شیعہ اور سنی مسلک رکھنے والوں کے مابین تقسیم کرنا چاہتے ہیں۔ شام میں اقتدار پر قبضے کی جنگ ہے‘ جو حقیقی معنی میں دہشت گردی کی بجائے کشمکش اقتدار میں ہونے والی خونریزی ہے۔ وہاں اس طرح سے دہشت گردی نہیں ہو رہی‘ جیسے معمول کی زندگی گزارتے ہوئے شہروں میںپرامن آبادیوں کو چوروں کی طرح اچانک بارود کے دھماکوں اور شعلوں میں ڈبو کر‘ دہشت گرد بھاگ نکلتے ہیں۔ مالی‘ یمن ‘ سوڈان اور اسی طرح کے دوسرے ملکوں میں بہت چھوٹے چھوٹے ٹکڑے دہشت گردی سے متاثر ہیں۔ برما میں چند شہری آبادیاں اور جنگلوں کے چھوٹے چھوٹے ٹکڑے دہشت گردوں کی آماجگاہیں ہیں۔ یہی صورتحال فلپائن اور تھائی لینڈ میں ہے۔ انڈونیشیا بڑی حد تک دہشت گردی پر قابو پا چکا ہے اور دہشت گردوں کوبہت ہی چھوٹے علاقوں میں محصور کر کے رکھ دیا گیا ہے۔ بھارت میں چند صوبوں کے تھوڑے تھوڑے حصوں میں دہشت گردوں کے ٹھکانے ہیں اور وہ کبھی کبھی گھات لگا کر سکیورٹی فورسز پر حملے کرتے ہیں‘ عام شہریوں کو نشانہ نہیں بناتے۔ مگر ان تمام باتوں کے باوجود ان سارے ملکوں میں کسی نہ کسی حد تک قانون اور رسوم و رواج کے زیراثر معاشرے معمول کے مطابق کام کر رہے ہیں اور قانون کسی نہ کسی شکل میں‘ موجود نظر آتا ہے۔ مگر جب میں پاکستان میں دہشت گردی کی صورتحال دیکھتا ہوں‘ تو مجھے اپناملک ‘ دہشت گردی‘ لاقانونیت اور عدم تحفظ کے جس طوفان کی لپیٹ میں نظر آ رہا ہے‘ اس کی دنیا میں کوئی مثال نہیں ملتی۔ ہم اپنے وسیع و عریض ملک میں اگر دیکھیں‘ تو یہاں کا سب سے بڑا شہر کراچی‘ جس کی آبادی 2 کروڑ کے لگ بھگ ہے‘ ہر طرح کی دہشت گردی کا ہدف بنا ہوا ہے۔ وہاں کے شہریوں کو حکومت سے لے کر بھتہ خوروں تک‘ سب اپنی اپنی استطاعت کے مطابق لوٹ رہے ہیں۔ کچھ گروہ ایسے ہیں‘ جو بغیر کسی وجہ کے ہی راہ چلتے شہریوں کو گولیوں کا نشانہ بنا کے رفوچکر ہو جاتے ہیں۔ وفاقی اور صوبائی حکومتیں ٹیکس نہیں لگاتیں‘ بھتہ وصول کرتی ہیں۔ کیونکہ ٹیکس کا کوئی جواز ہوتا ہے۔ نظام ہوتا ہے۔ یکسانیت ہوتی ہے۔ مگر بھتہ ‘ دہشت کے ذریعے لوٹ مار کا نظام ہے۔ پاکستان کی حکومتیں‘ شہریوں سے ٹیکس نہیں لیتیں‘ بھتہ وصول کرتی ہیں۔ ٹیکس کا نظام یہ ہوتا ہے کہ حکومتیں مالیاتی‘ انتظامی اور سلامتی کے اخراجات پورے کرنے کے لئے ٹیکس وصول کرتی ہیں اور بدلے میں شہریوں کو امن اور تحفظ فراہم کرتی ہیں اور ہر ٹیکس نافذ کرنے کی وجہ بتائی جاتی ہے۔ اسمبلیوں میں عوامی رابطوں کے دیگر ذرائع سے شہریوں کو بتایا جاتا ہے کہ ان سے ٹیکس کیوں وصول کئے جا رہے ہیں اور انہیں کہاں خرچ کیا جا رہا ہے؟ یہاں رات کے اندھیرے میں ٹیکس کے نفاذ کا اسی طرح اچانک اعلان کر دیا جاتا ہے‘ جیسے تاجروں کو اچانک بھتے کی پرچی وصول ہوتی ہے۔ بھتہ خور تو اپنے شکار کو چند گھنٹوں کی مہلت بھی دے دیتا ہے۔ لیکن حکومت یہ زحمت بھی نہیں کرتی۔ رات کے 12بجے بھتے کی پرچی آتی ہے اور 12 بج کر 1 منٹ پر وصولی شروع ہو جاتی ہے۔ بے رحمی کی انتہا یہ ہے کہ حکومتیں جتنا بھتہ وصول کرتی ہیں‘ ان کے بارے میں عوام کو کبھی نہیں بتایا جاتا کہ ان وصولیوں کی وجوہ کیا ہیں اور حاصل شدہ وصولیاں خرچ کہاں کی جا رہی ہیں؟ جو حال میں نے کراچی کا لکھا ہے‘ وہی پاکستان کے دوسرے شہروں میں بھی ہے۔ کہیں کم۔ کہیں زیادہ۔ دہشت گردی سے متاثرہ علاقوں کو دیکھا جائے‘ تو ان کی وسعت دیکھ کر سر چکرانے لگتا ہے۔ بلوچستان جو ملک کا سب سے بڑا صوبہ ہے‘ اس کے صرف 10فیصد حصے میں حکومتوں کی کٹی پھٹی عملداری ہے۔ مثلاً صوبائی دارالحکومت کوئٹہ جہاں ہم اس خودفریبی کا شکار ہیں کہ اس شہر میں حکومت کی رٹ باقی ہے‘ وہاں بھی قتل عام کے اتنے بڑے بڑے واقعات ہو جاتے ہیں کہ جنگ زدہ علاقوں میں بھی نہیں ہوتے ہوں گے۔ ایک ایک دن میںسوڈیڑھ سو سے زیادہ انسانوں کو دیکھتے ہی دیکھتے لاشوں میں بدل دیا جاتا ہے اور خونریزی کی یہ وارداتیں کرنے والے کبھی پکڑے نہیں جاتے۔ خیبرپختونخوا میں فاٹا کے پورے علاقے پر حکومت کا کنٹرول نہیں اور صوبے کے باقی شہر بھی دہشت گردوں کے یرغمالی ہیں۔ دارالحکومت پشاور تو اب یوں ہو گیا ہے کہ وہاں امن کے محض وقفے آتے ہیں۔ باقی سارا وقت دہشت گردوں کی کارروائیوں کا نشانہ بنتے یا ان کا انتظارکرتے ہوئے گزرتا ہے۔ سندھ کے اندر ڈاکوئوں‘ جاگیرداروں اور مافیائوں کا راج ہے۔ وہاںکی انتظامی مشینری ‘ ریاستی قوانین کی پابند نہیں۔ وہ غیرقانونی طاقتوں کے مفادات کو تحفظ دینے کے لئے سرکاری طاقت اور اختیارات کا استعمال کرتی ہے۔ پورے دیہی سندھ کے شہری اس گٹھ جوڑ کے یرغمالی ہیں۔ پنجاب کی طرف آئیں‘ تو جنوبی پنجاب بری طرح سے انتہا پسندوں اور دہشت گرد تنظیموں کی آماجگاہ بنا ہوا ہے۔ پنجابی طالبان کے ٹھکانے یہیں پر واقع ہیں۔ وسطی اور شمالی پنجاب میں بظاہرمعمول کی زندگی دکھائی دیتی ہے۔ لیکن عملاً یہ علاقے بھی دہشت گردوں اور مافیائوں سے محفوظ نہیں ہیں۔ راولپنڈی‘ اسلام آباد اور لاہور جیسے شہروں میں‘ جہاں کہ وفاقی اور صوبائی حکومتوں کے مرکزی دفاتر ہیں‘ انتظامیہ کی ناک کے عین نیچے لاقانونیت کا دھندا جاری ہے۔ بھتہ وصولیاں بھی ہو رہی ہیں اور اغوا برائے تاوان کے زیادہ واقعات بھی پنجاب کے انہی علاقوں میں ہوتے ہیں۔ لاہور جیسے شہر میں انتہائی پوش آبادیوں کے اندر‘ دن دیہاڑے اغوا ہوتے ہیں اور پھر تاوان کی بڑی بڑی رقوم پر سودے بازیاں ہوتی ہیں۔ ایک جنرل کے داماد اور سابق گورنر کے صاحبزادے ہفتوں اور مہینوں نہیں بلکہ برسوں یرغمالیوں کی تحویل میں رہے۔ نان سٹیٹ ڈاکوئوں کے علاوہ سرکاری ڈاکوئوں کی لوٹ مار علیحدہ ہے۔ ایک تو قانون اور اتھارٹی کے نام پرڈاکہ زنی کی جاتی ہے۔ جیسے جب چاہا پٹرول کا ریٹ بڑھا دیا۔ جب چاہا بجلی کے نرخ بڑھا دیئے اور پھر بجلی کے بلوں میں جس نام سے چاہا بھتہ وصولی کر لی۔ بجلی کے بل کا ٹیلیویژن سے کیا تعلق؟ مگر سرکاری ٹی وی دیکھیں یا نہ دیکھیں‘ فیس آپ کو دینا پڑتی ہے۔نیلم جہلم پر جو پاور ہائوس بن رہا ہے‘ اس میں سرمایہ کاری کرنا حکومت کا کام ہے۔ لیکن عام شہریوں سے جبراً بجلی کے بلوں میں وصولیاں کی جا رہی ہیں اور شہریوں کو اپنی اس رقم کی نہ تو رسید ملتی ہے اور نہ انہیں بتایا جاتا ہے کہ آپ کی یہ رقم کس طرح لوٹائی جائے گی؟ یا اس کے بدلے میں کونسی سہولت مہیا کی جائے گی؟ کچھ نہیں۔ ایسی وصولیاں صرف بھتہ ہوتی ہیں۔ سرکاری خزانہ بھرنے کے لئے بھی بھتے بٹورے جاتے ہیں اور پھر افسروں اور اہلکاروں کی عیاشیوں کے لئے بھی بھتے لئے جاتے ہیں۔ جسے عرف عام میں رشوت کہا جاتا ہے۔ اگر مجموعی صورتحال پر نظر دوڑائی جائے‘ تو یہ تسلیم کرنا پڑے گا کہ پاکستان دنیا کا واحد ملک ہے‘ جہاں پوری کی پوری آبادی‘ حکومتوں‘ غنڈوں‘ مافیائوں‘ دہشت گردوں اور رسہ گیروں کی یرغمالی ہے۔ ہر کوئی اپنے اپنے حصے کا بھتہ وصول کر کے موج کرتا ہے اور یرغمالیوں کو اس کی اجازت نہیں کہ وہ بھتے میں دی ہوئی اپنی رقوم کے بدلے کوئی سہولت‘ تحفظ یا انصاف مانگ سکیں۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved