دنیا بھر میں خوراک کا بحران دھیرے دھیرے سنگین سے سنگین تر ہوتا جارہا ہے۔ بعض خطوں میں اِس کی شدت اِتنی زیادہ ہے کہ واضح طور پر محسوس ہوتی ہے۔ افریقہ اور جنوبی ایشیا کے متعدد ممالک میں خوراک کے حوالے سے صورتحال انتہائی سنگین ہے۔ بھارت اور بنگلہ دیش کے علاوہ افغانستان میں بھی خوراک کی قلت کا معاملہ پریشان کن حد تک پہنچ چکا ہے۔ بھارت ترقی کے کتنے ہی دعوے کرلے‘ حقیقت یہ ہے کہ آج بھی وہاں 80 کروڑ سے زائد افراد کو خوراک کی قلت کا سامنا ہے! راشننگ کے سسٹم سے بھی یہ مسئلہ حل نہیں کیا جاسکا ہے۔ شہروں میں بھی خوراک کی قلت کی کمی نہیں تو سوچئے کہ دیہات اور بالکل پچھڑے ہوئے‘ دور افتادہ علاقوں کا کیا حال ہوگا۔ دنیا بھر میں خوراک کی شدید قلت سے دوچار افراد کی تعداد میں روز بروز اضافہ ہو رہا ہے۔ اس کا ایک سبب تو افلاس ہے۔ علاوہ ازیں موسموں کی بدلتی ہوئی کیفیت نے فوڈ سکیورٹی کی صورتحال پیدا کی ہے۔ غذائی اجناس کی پیداوار میں موسمی تغیرات کے ہاتھوں کمی آئی ہے۔ کہیں طوفانی بارشوں سے فصلیں تباہ ہو جاتی ہیں تو کہیں سیلاب یہ کام کر گزرتے ہیں۔ راستہ چاہے کوئی ہو‘ خوراک کا بحران انسانوں تک پہنچ ہی رہا ہے۔
دنیا بھر میں خوراک کی قلت سے دوچار معاشروں کی مدد کے لیے اقوامِ متحدہ کے تحت ورلڈ فوڈ پروگرام متحرک ہے۔ ہاں‘ ضرورت مندوں کی تعداد بڑھنے سے اِس ادارے پر دباؤ بھی بڑھتا جارہا ہے اور فنڈز کی کمی سے معاملات مزید بگڑ رہے ہیں۔ ورلڈ فوڈ پروگرام نے بتایا ہے کہ مختلف عوامل کے ہاتھوں خوراک کی شدید قلت سے دوچار افراد کی تعداد میں سالِ رواں کے دوران 2 کروڑ 40 لاکھ کا اضافہ ہوسکتا ہے۔ صورتحال میں سنگین نوعیت کی اِس تبدیلی نے ورلڈ فوڈ پروگرام کو مجبور کردیا ہے کہ خوراک کی قلت سے دوچار افراد میں سے صرف اُنہیں فوری مدد فراہم کرے جو فاقہ کشی پر مجبور ہیں اور فوری خوراک نہ ملنے پر موت کے منہ میں بھی جاسکتے ہیں۔ ورلڈ فوڈ پروگرام نے خوراک کی قلت سے دوچار بہت سے علاقوں میں راشن دینا بند یا کم کردیا ہے۔ ورلڈ فوڈ پروگرام کے چیف اکانومسٹ عارف حسین کہتے ہیں کہ ورلڈ فوڈ پروگرام کے فنڈز میں کم و بیش 60 فیصد کمی واقع ہوچکی ہے۔ اس پروگرام کو اپنی ساٹھ سالہ تاریخ میں اِس نوعیت کے بحران کا سامنا کبھی نہیں کرنا پڑا۔ فنڈز گھٹتے جارہے ہیں اور ضرورت بڑھتی جارہی ہے۔ ورلڈ فوڈ پروگرام کو اپنے آپریشنز میں کم و بیش نصف کی حد تک کٹوتی کرنا پڑ رہی ہے۔ اس اقدام نے افریقہ اور ایشیا میں خوراک کی شدید قلت سے دوچار معاشروں کے لیے مشکلات بڑھادی ہیں۔ افریقہ میں درجنوں معاشروں میں لوگ فاقہ کشی پر مجبور ہیں۔ اعداد و شمار بہت ڈراؤنے ہیں۔ اگر تجزیہ کیجیے تو اندازہ ہوگا کہ ورلڈ فوڈ پروگرام کے آپریشنز میں کی جانے والی ایک فیصد کمی سے کم و بیش چار لاکھ افراد خوراک کے معاملے میں ہنگامی حالت کو پہنچ جاتے ہیں۔ یہ سب کچھ ایسے وقت ہو رہا ہے جب کورونا کی وبا اور اس کے بعد یوکرین کی جنگ کے ہاتھوں بیسیوں معاشروں میں فوڈ سکیورٹی کا معاملہ سنگین شکل اختیار کرتا جارہا ہے۔ افریقی معاشرے اس بحران میں براہِ راست نشانے پر ہیں کیونکہ خانہ جنگیوں نے انہیں کہیں کا نہیں رکھا۔ دنیا بھر میں 35 کروڑ افراد خوراک کی شدید قلت کا شکار ہیں اور ان میں بھی 4کروڑ وہ ہیں جو غذائیت کی کمی کے باعث موت کے دہانے پر کھڑے ہیں۔ 2020ء کے بعد یہ تعداد دُگنی ہو گئی ہے۔ بچے زیادہ متاثر ہوئے ہیں اور اُن کے لیے غذائیت کا اہتمام ایک بڑا دردِ سر ہے۔ غذا اور غذائیت کی کمی سے اُن کے جسم کمزور رہ جاتے ہیں اور یہ خسارہ اُنہیں مرتے دم تک جھیلنا پڑتا ہے۔ ورلڈ فوڈ پروگرام کی ایگزیکٹو ڈائریکٹر سِنڈی میکین کا کہنا ہے کہ دنیا بھر میں خوراک کی شدید قلت سے دوچار افراد کی تعداد میں اِتنی تیزی سے اضافہ ہوا ہے کہ فنڈنگ میں کمی کی کوئی گنجائش نہیں۔ اقوام متحدہ کے رکن ممالک کو اس حوالے سے اپنا اپنا کردار پوری دیانت اور اخلاص کے ساتھ ادا کرنا چاہیے۔
خوراک کی قلت کے باعث لوگوں کے فاقہ کشی پر مجبور ہونے کا یہ عالم ہے کہ ورلڈ فوڈ پروگرام کو دنیا بھر میں 79 آپریشن کرنا پڑ رہے ہیں۔ خوراک کی قلت کا نشانہ بننے والے ممالک میں ڈیموکریٹک ری پبلک آف کانگو، صومالیہ، ہیٹی، اردن، فلسطین، جنوبی سوڈان، شام، افغانستان اور بنگلہ دیش شامل ہیں۔ بنگلہ دیش کے بارے میں آج کل بڑا غلغلہ ہے کہ اُس کی معیشت مستحکم ہوچکی ہے اور زرِمبادلہ کے ذخائر قابلِ رشک ہیں۔بلاشبہ اس کی برآمدات اچھی خاصی ہیں اور ترسیلاتِ زر بھی قومی آمدنی کا بڑا ذریعہ ہیں مگر اِس کے باوجود افلاس پر قابو نہیں پایا جاسکا۔ ترقی کے خاطر خواہ فوائد عوام تک منتقل نہیں کیے جاسکے ہیں۔ اِدھر ہم ہیں کہ ہزار خرابیوں کے باوجود خوراک کی قلت سے دوچار نہیں۔ بدنیتی کے نتیجے میں نرخ زیادہ ضرور ہیں مگر ملک میں غذائی اجناس کی کمی نہیں اور خوراک کی شدید قلت سے دوچار یا فاقہ کشی کے ہاتھوں موت کے دہانے پر کھڑے ہوئے افراد کی تعداد نہ ہونے کے برابر ہے۔ اِس پر اللہ تعالیٰ کا جتنا شکر ادا کیا جائے‘ کم ہے۔
سالِ رواں کے دوران افغانستان میں کم و بیش ایک کروڑ افراد کو ورلڈ فوڈ پروگرام کے تحت ملنے والی خوراک کی فراہمی بند کردی گئی۔ اِس وقت افغانستان کی ایک تہائی آبادی رات کو بھوکی سوتی ہے یا یوں کہیے کہ ایک وقت کا کھانا چھوڑنا پڑتا ہے۔ فنڈنگ میں کمی کے باعث ورلڈ فوڈ پروگرام اکتوبر سے افغانستان میں ہر ماہ صرف 30 لاکھ افراد کو راشن فراہم کرسکے گا۔ شام میں 55 لاکھ افراد ورلڈ فوڈ پروگرام کے تحت ملنے والی امداد پر منحصر ہیں۔ سالِ رواں کے اوائل میں اُن کے راشن میں نصف کی حد تک کٹوتی کردی گئی تھی۔ جولائی سے اُسے بھی نصف کردیا گیا یعنی جو کچھ پہلے ملتا تھا اب اُس کا صرف ایک چوتھائی ملتا ہے۔ اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ اِن 55 لاکھ افراد کی مشکلات کس قدر بڑھ گئی ہوں گی۔
ورلڈ فوڈ پروگرام کو فنڈز کی شدید قلت کا سامنا ہے۔ فنڈنگ کے روایتی ذرائع پیچھے ہٹ گئے ہیں۔ کورونا کی وبا کے دوران ترقی یافتہ ممالک بھی شدید متاثر ہوئے۔ اُن کی معیشتوں کو مشکل حالات کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ اِس کے نتیجے میں اُن کی طرف سے فنڈنگ میں بھی 40 فیصد سے زیادہ کمی آئی ہے۔ ترقی پذیر ممالک اس معاملے میں کوئی خاص کردار ادا نہیں کرتے۔ ورلڈ فوڈ پروگرام پر اپنے آپریشنز میں کٹوتیاں کرتے رہنے کے لیے دباؤ بڑھ رہا ہے۔ عارف حسین کہتے ہیں کہ کورونا کی وبا نے پس ماندہ ممالک کی معیشتوں کو تقریباً منجمد کردیا۔ عام آدمی اپنی خوراک کا بھی ڈھنگ سے اہتمام نہیں کر پارہا۔ دنیا بھر میں مسلح تنازعات، دہشت گردی، خانہ جنگی اور موسموں کے ڈھانچے میں شدید نوعیت کے تغیرات نے فوڈ سکیورٹی کا معاملہ سنگین تر بنادیا ہے۔ ایسے میں زیادہ عطیات کا حصول ناگزیر ہے۔ گزشتہ برس ورلڈ فوڈ پروگرام نے دنیا بھر میں 16 کروڑ افراد کے لیے معقول حد تک خوراک کا بندوبست کیا۔ تب فنڈنگ بھی معقول تھی۔ اب چونکہ فنڈنگ کا معاملہ رُل چکا ہے اس لیے زیادہ لوگوں کو امداد دینا ممکن نہیں۔
ایک طرف قدرتی آفتیں ہیں اور دوسری طرف انسانوں کے پیدا کردہ انتہائی حالات۔ ایسے میں خوراک کی قلت سے دوچار افراد کی تعداد بڑھتی جا رہی ہے۔ عارف حسین بتاتے ہیں کہ اس وقت دنیا بھر میں کم و بیش 80 کروڑ افراد ایسے ہیں جنہیں روزانہ سوچنا پڑتا ہے کہ پیٹ بھرنے جتنی خوراک کا بندوبست کیسے کریں۔ ورلڈ فوڈ پروگرام کو ایسے لوگوں کی ضرورت ایک طرف ہٹاکر صرف اُن پر متوجہ ہونا پڑ رہا ہے جو فاقہ کشی کے ہاتھوں ہلاکت کے خطرے سے دوچار ہیں۔ ورلڈ فوڈ پروگرام کے لیے سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ ایک ہی گروپ کے لوگوں کو باربار بچانا پڑ رہا ہے۔ فنڈز کی کمی کے باعث بحرانی کیفیت ختم ہونے کا نام نہیں لے رہی۔ پاکستان بھی معاشی مشکلات میں گِھرا ہوا ہے، پھر بھی اللہ تعالیٰ کا جس قدر شکر ادا کیا جائے کم ہے کہ ہم خوراک کے معاملے میں شدید نوعیت کی صورتِ حال کا سامنا کرنے پر مجبور نہیں۔ بہر حال‘ فوڈ سکیورٹی کے حوالے سے تیار رہنا ناگزیر ہے۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved