پچھلے کچھ دنوں سے چین کے دورے پر ہیں‘ بیجنگ کے بعد ہمارا قیام ہانگ کانگ اور مکاؤ سے ملحق سرحدی علاقہ گوانگ ڈونگ کے شہر شین جین میں ہے جو چین کا تجارتی مرکز ہے۔ فائیو جی سے آپریٹ ہونے والی دنیا کی پہلی سمارٹ بندرگاہ یہاں پر ہے۔ اسے الیکٹرانکس اور جدید ٹیکنالوجی کا Hub تصور کیا جاتا ہے۔یہاں کی ترقی اور خوشحالی کو دیکھ کر اپنے اکنامک زونز کی حالتِ زار پر رونے کو جی چاہتا ہے۔ چین کے جس علاقے میں ہمارا قیام ہے یہاں سے ہانگ کانگ کو قریب سے دیکھا جا سکتا ہے۔چینی قیادت نے جغرافیائی اور سرحدی معاملات کا احساس کیا اور انویسٹمنٹ کی آزادیاں مہیا کیں‘ اس کے برعکس ہم دہائیوں کے بعد بھی سرحدی معاملات سے نجات حاصل نہیں کر سکے ہیں۔ دنیا آگے بڑھ رہی ہے جبکہ ہم پیچھے جا رہے ہیں۔ ڈینگ ژیاؤ پنگ مشہور کامریڈ لیڈر تھے‘ یہ ماؤ زے تنگ کے دوست تھے‘ انہیں چین میں سوشلزم کا بانی کہا جاتا ہے۔ انہوں نے شین جین کے بارے کہا تھا کہ اس ریجن میں کیپٹل ازم نظام نہیں چلے گا بلکہ یہاں سوشلزم نظام مفید ثابت ہو گا‘ یعنی ترقی کے سفر میں عوام کو شامل کیا جائے۔ یہیں سے چین نے ترقی کی سپیڈ پکڑی‘ اسی لئے اس شہر کو شین جین سپیڈ کے نام سے بھی پکارا جاتا ہے۔ ڈینگ ژیاؤ پنگ جب شین جین میں آئے تو انہوں نے وہاں کے لوگوں سے کہا کہ چین کی مرکزی حکومت آپ کو کیش کی صورت پیسے تو نہیں دے سکتی البتہ خود مختاری دے سکتی ہے‘ جس کے تحت آپ خود کمائیں اور ترقی کریں۔ یوں پالیسی اور گائیڈ لائن کے ذریعے مرکزی حکومت نے لوگوں کو ترقی کے مواقع فراہم کئے۔ پالیسی ملنے کے بعد شین جین کے لوگوں نے فنڈز نہ ملنے کا رونا نہیں رویا‘ محنت سے پیسہ کمایا خود بھی خوشحال ہوئے اور وفاق کی ترقی میں بھی حصہ ڈالا۔ ہمارے ہاں پالیسی کا تسلسل‘ گائیڈ لائن اور حکومتی سرپرستی و رہنمائی کا اندازہ لگانے کیلئے یہی کافی ہے کہ ایک حکومت کے منصوبوں کو اگلی حکومت ختم کر دیتی ہے۔ کبھی بلوچستان پیکج کا فیصلہ نہیں ہو پاتا‘ کبھی صوبوں کو وفاق سے شکایت ہوتی ہے اور کبھی وفاق صوبوں سے شکوہ کناں ہوتا ہے۔ چار دہائیاں پہلے تک ماہی گیروں اور مچھیروں کی ایک خاموش بستی سمجھا جانے والا شہر شین جین آج تیز ترین شہری ترقی کا ماڈل سمجھا جاتا ہے۔یہ شہر چین کا اولین اکنامک زون ہے جس نے دنیا بھر کے انویسٹرز کیلئے چین میں سرمایہ کاری کے دروازے کھول دیئے۔ شین جین کو معجزوں کو شہر بھی کہا جاتا ہے۔ اس کا محل وقوع‘ ٹیلنٹ کی کشش‘ مضبوط معاشی نظام اور جدید ٹیکنالوجی کا فروغ اس کی پہچان بن چکی ہے۔ چار دہائیاں قبل شین جین محض تین لاکھ آبادی کا شہر تھا‘ تاہم اب اس کی آبادی ایک کروڑ 70 لاکھ تک پہنچ چکی ہے۔ اس کی آبادی میں 60 گنا کا حیران کن اضافہ ہوا ہے۔ چین کی آبادی میں سالانہ0.9 فیصد اضافہ ہوا مگر شین جین کی آبادی سالانہ 10.3 فیصد کے حساب سے بڑھی کیونکہ شین جین کی تعمیر و ترقی‘ معاشی مواقع اور بہتر زندگی کا خواب لے کر لاکھوں افراد نے شین جین کو اپنا مسکن بنانے کو ترجیح دی۔ اس کے برعکس ہمارے ہاں لاکھوں لوگ روزگار نہ ہونے کی وجہ سے ملک چھوڑنے پر مجبور ہیں۔
شین جین ہانگ کانگ سے ملحق ہے‘ چین نے اس کے پرکشش محل وقوقع سے فائدہ اٹھایا اور غیر ملکی سرمایہ کاری کیلئے خصوصی اقتصادی زونز قائم کئے۔ کوریا‘ تائیوان‘ ہانگ کانگ اور سنگاپور جیسے ممالک نے قریب ترین ہونے کی وجہ سے شین جین میں سرمایہ کاری کو ترجیح دی۔ جب شین جین میں مختلف رنگ و نسل اور مزاج کے باشندے آنا شروع ہوئے اور آبادی کے مسائل پیدا ہوئے تو شین جین نے اس چیلنج کو احسن طریقے سے حل کیا۔ مختلف ممالک کے باشندوں کو نہ صرف قبول کیا بلکہ جدید کمیونٹیز کا تصور پیش کر کے سرمایہ کاروں کو سستی رہائش کی فراہمی اور دیگر مراعات فراہم کیں۔ اس کے برعکس ہم گوادر کا جائزہ لیں تو اب بھی باہر کے لوگوں کو قبول نہ کرنے کی سوچ موجود ہے۔ غیر ملکی تو درکنار بلوچستان کے علاوہ پاکستان کے دیگر لوگوں کو علاقہ چھوڑنے پر مجبور کیا جاتا ہے۔
شین جین الیکٹرک گاڑیاں بنانے میں شہرت رکھتا ہے‘ جس کی پروڈکشن دنیا کی معروف کمپنیوں سے کہیں زیادہ ہے۔ چینی لوگوں میں دنیا سے آگے رہنے کا تصور پایا جاتا ہے۔ چینی کہتے ہیں کہ پٹرول کی جنگ دنیا کی سب سے بڑی جنگ تھی ‘چین نے اس جنگ کے اثرات سے بچنے کیلئے متبادل ذرائع تلاش کئے اور چانگ وانگ فو نامی شخص نے گرین ارتھ کا تصور پیش کیا جس کے تحت سیل بنا کر دنیا کو دیئے اب چین الیکٹرک گاڑیوں پر شفٹ ہو چکا ہے۔ شین جین کی ترقی کے ماڈل میں دوسرے شہروں کے لیے سیکھنے اور آگے بڑھنے کا سامان موجود ہے کیونکہ عالمگیریت کو اپنانا‘ اختراع کو پروان چڑھانا اور ہنر مند افرادکو راغب کرنا‘ یہ وہ اصول ہیں جن کا اطلاق دنیا بھر کے شہروں میں معاشی و شہری ترقی کی حوصلہ افزائی کے لیے کیا جا سکتا ہے۔ معروف چینی کمپنی ''ہوا وے‘‘ کا شین جین میں بہت بڑا سیٹ اَپ ہے۔ہوا وے کو گرین انرجی‘ انرجی کے متبادل ذرائع اور فائیو جی ٹیکنالوجی کا بانی مانا جاتا ہے۔ ہمیں اس کمپنی کو دیکھنے کا موقع ملا۔ ہوا وے ایک عرصے سے الیکٹرک گاڑیوں کی تیاری میں مصروف ہے اور اب عالمی مارکیٹ میں اپنی جگہ بنانے میں کامیاب ہو چکی ہے۔ پاکستانی وفد کو دیکھ کر چینی انجینئرز کی خوشی دیدنی تھی ۔انہوں نے اس عزم کا اظہار کیا کہ وہ توانائی کے متبادل اور قابلِ تجدید ذرائع سے فائدہ اٹھانے کیلئے پاکستان کے ساتھ ہر ممکن تعاون کرنے کیلئے تیار ہیں۔ اسی طرح چائنہ مرچنٹس گروپ کو پورٹ انرجی میں بانی سمجھا جاتا ہے‘ یہ گروپ پورٹ اینڈ شپنگ‘ ٹرانسپورٹ‘ فنانس اور رئیل اسٹیٹ سمیت متعدد شعبوں سے منسلک ہے۔ چین کی مجموعی ترقی میں اعلیٰ سطح پر اس گروپ کی خدمات کا اعتراف کیا جاتا ہے۔ چائنہ مرچنٹس گروپ گوادر بندرگاہ میں انویسٹمنٹ اور تعاون کیلئے تیار ہے۔ دنیا جہاں شین جین کے ترقی کے ماڈل کو اپنانے کیلئے تیار ہے وہاں شین جین اپنے مستقبل کے خطرات سے بے خبر نہیں‘ محدود زمینی وسائل‘ ناکافی تعلیمی ادارے اور ماحولیاتی خدشات جیسے مسائل کو سامنے رکھ کر پلاننگ کی جا رہی ہے تاکہ شین جین کے تیز ترین ترقی کے سفر کو جاری رکھا جا سکے۔
محض چار دہائیوں میں ایک چھوٹے سے سرحدی شہر سے ایک عالمی شہر بننے تک کے سفر میں اصلاحات‘ جدت طرازی اور عالمگیریت جیسے اقدامات نمایاں دکھائی دیتے ہیں۔ اب یہ شہر چین اور گلوبل ساؤتھ دونوں میں تیزی سے شہری ترقی کے لیے ایک منفرد ماڈل کی حیثیت رکھتا ہے جو مخصوص تاریخی حالات کے مطابق تشکیل دیا گیا ہے۔ عالمی سرمایہ کاروں کو کیسے متوجہ کرنا ہے‘ شہری اور اقتصادی ترقی کیلئے ہنر سے کیسے فائدہ اٹھانا ہے‘ جب سرمایہ کار متوجہ ہوں تو انہیں کیا مراعات فراہم کرنی ہیں‘ ان سوالوں کے جواب شین جین کے ارتقائی سفر میں موجود ہیں۔ یہ دنیا بھر کے ان تمام شہروں کے لیے ایک متاثر کن ماڈل ہے جو پائیدار شہری ترقی اور خوشحالی کا خواب دیکھ رہے ہیں۔ شین جین کی معاشی ترقی جہاں دنیا بھر کیلئے ایک ماڈل کی حیثیت اختیار چکی ہے وہاں ہم ابھی تک نیب ترامیم کی بحث میں پھنسے ہوئے ہیں۔ عدالت عظمیٰ کے چیف جسٹس نے رخصت ہونے سے ایک روز قبل نیا محاذ کھول دیا۔ کیا اس طرح کے ماحول میں خوشحالی اور ترقی کا خواب دیکھا جا سکتا ہے؟
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved