تحریر : عمران یعقوب خان تاریخ اشاعت     17-09-2023

نیب شکنجہ ؟؟

جسٹس عمر عطا بندیال نے جاتے جاتے وہ فیصلہ سنا دیا جس کی توقع کی جارہی تھی۔ جمعہ کے روز اُنہوں نے نیب قوانین میں ترامیم کوکالعدم قرار دے دیا۔ تحریک انصاف کا ماننا ہے کہ پی ڈی ایم کاحکومت میں آنے کا مقصد ہی اپنے کیسز کا خاتمہ کرنا تھا اور نیب ترامیم اسی کا شاخسانہ تھا۔سپریم کورٹ نے نومبر 2022ء میں اس درخواست پر سماعت شروع کی تھی اور چیف جسٹس عمر عطابندیال‘ جسٹس اعجازالاحسن اور جسٹس منصور علی شاہ پرمشتمل تین رکنی بینچ نے 40 سے زیادہ سماعتوں کے بعد چھ ستمبر کو اس درخواست پر فیصلہ محفوظ کیا تھا۔نیب کے قانون میں 27 ترامیم سے متعلق بل قومی اسمبلی اور سینیٹ سے مئی 2022ء میں منظور کیا گیا۔ صدر عارف علوی نے اس بل پردستخط کرنے سے انکار کر دیا تھا جس کے بعد پی ڈی ایم کی حکومت نے جون 2022ء میں قومی اسمبلی اور سینیٹ کا مشترکہ اجلاس بلا کر اس کی منظوری دے دی۔
سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں ان ترامیم کو آئین میں مفاد عامہ سے متعلق بنائے گئے قوانین کے خلاف قرار دیا ہے۔اس فیصلے میں پلی بارگین سے متعلق ہونے والی ترمیم کو بھی کالعدم قرار دیا گیا ہے۔ فیصلے میں مختلف معاملات میں کی جانے والی انکوائری اور تفتیش کو بحال کردیا گیا ہے جس کے بعد سیاستدانوں کے 50 کروڑ سے کم مالیت کے کرپشن کیسز بھی نیب کو منتقل ہوگئے ہیں۔ سابق صدر آصف زرداری کے خلاف جعلی اکاؤنٹس کیس نیب کے پاس جائے گا‘ میاں شہبازشریف‘ راجہ پرویز اشرف اور اسحاق ڈار کے خلاف مقدمات بھی نیب کے پاس دوبارہ جائیں گے۔یعنی ان سب پر ایک بار پھر نااہلی کی تلوار لٹکنے لگی ہے۔
مسلم لیگی راہنما رانا ثنا اللہ نے اس فیصلے کو متنازع قراردیا ہے۔ تحریک انصاف کے وکیل شعیب شاہین نے اس فیصلے کو این آر او کا خاتمہ قرار دیا ہے‘ جبکہ پیپلز پارٹی کے چیئر مین بلاول بھٹو زرداری نے کہا ہے کہ نیب مقدمات پرانے قانون کے تحت ہوں یا نئے کے تحت سامنا کرنے کے لیے تیار ہیں۔ پیپلز پارٹی کے لیے نیب کوئی نئی چیز نہیں۔سینئر صحافی اور تجزیہ کارحامد میر بلاول بھٹو کی بات سے اتفاق کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ اس فیصلے کی توقع کی جارہی تھی‘ دو ججز کی کیا سوچ ہے اور ایک جج کیا سوچ رکھتے ہیں یہ سب کو پتہ تھا۔یہ بات طے ہے کہ نیب پولیٹیکل انجینئرنگ کیلئے بنایا گیا اور اگر سابق صدر سمیت چھ وزارئے اعظم کے کیس دوبارہ کھل گئے ہیں تو اس میں کوئی حیرت والی بات نہیں ۔ہر حکومت نیب کو اپنے مخالفین کے خلاف استعمال کرتی آئی ہے‘اس لیے آصف زرداری ہوں یا شہباز شریف‘ کسی کو کوئی بڑا خطرہ نہیںہوگاکیونکہ یہ ادارہ سلیکٹو احتساب کرتا ہے۔یہ ختم ہونا چاہیے تھا لیکن کسی نے اس کو ختم نہیں کیا۔الٹا بندیال صاحب نے مشرف کے قوانین کو بحال کردیاکیونکہ ان کا خیال ہے کہ نیب ترامیم بحال ہونے کے بعد ‘نوازشریف‘شہباز شریف اور آصف زرداری کیلئے کوئی مشکل کھڑی ہوجائے گی۔ درحقیقت انہوں نے ان فورسز کے ہاتھ مضبوط کئے ہیں جو تحریک انصاف کو مزہ چکھانا چاہتی ہیں۔حامد میر نے اس فیصلے کے خلاف نظر ثانی پٹیشن دائر کرنے کے حوالے سے بتایا کہ ن لیگ اور نگران حکومت اس معاملے پر ایک سوچ رکھتی ہے۔ دونوں کا خیال ہے کہ اس سے عمران خان اور ان کی جماعت مشکل میں آجائے گی لہٰذا ریویو میں جانے کی ضرورت نہیںجبکہ پیپلزپارٹی سمجھتی ہے کہ اگر ہم میں سے کوئی ریویو کے لیے نہیں گیا تو کوئی اور ریویو کیلئے چلا جائے گا‘لہٰذا ریویوپٹیشن دائر کرنی چاہیے تاکہ نیب قوانین کا خاتمہ ہو ۔
اب اس کی نظر ثانی کی اپیل نئے چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ سنیں گے اور ممکن ہے وہ اس فیصلے کو ریورس کردیں۔خبریہ بھی ہے کہ سپریم کورٹ میں پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کے خلاف درخواست آئندہ ہفتے سماعت کے لیے مقرر کردی گئی ہے۔سپریم کورٹ کا لارجر بینچ 18 ستمبر کو کیس کی سماعت کرے گا۔خبر کے مطابق جسٹس قاضی فائز عیسیٰ چیف جسٹس کا حلف اٹھانے کے بعدبینچ تشکیل دیں گے۔یاد رہے کہ چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں آٹھ رکنی لارجر بینچ نے اس کیس پر حکم امتناع دیا تھا۔اب ممکن ہے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ چیف جسٹس کا عہد ہ سنبھالنے کے بعد بہت سے فیصلے کالعدم قرار دے دیں۔
مسلم لیگ( ن) کے صدر میاں شہباز شریف نے میاں نواز شریف کی 21 اکتوبر کو وطن واپسی کا اعلان کیا ‘ جو یقینی طور پر( ن) لیگ کے سپوٹرز کیلئے اچھی خبرہے۔جہاں تک اس سوال کا تعلق ہے کہ میاں محمد نواز شریف کو واپسی پر جیل جانا پڑے گا یا نہیں تو اس پر قانونی ماہرین کی الگ الگ رائے ہے۔ کچھ ماہرین کے نزدیک نواز شریف کو وطن واپسی پر جیل جانا ہوگا اور اپنے مقدمات کا سامنا کرنا ہوگا اورنواز شریف کو اپنی نا اہلی سے متعلق سپریم کورٹ سے رجوع کرناپڑے گا۔نواز شریف کے کیسز کا مختصر جائزہ لیں تو 6 جولائی 2018ء کو احتساب عدالت نے ایون فیلڈ ریفرنس میں انہیں 11 سال قید کی سزا‘80 لاکھ پاؤنڈ جرمانہ اور ایون فیلڈاپارٹمنٹ کی ضبطی کا حکم دیا تھا۔پھر 19ستمبر 2018ء کواسلام آباد ہائی کورٹ نے ایون فیلڈ ریفرنس میں نواز شریف کی سزا معطل کردی۔24 دسمبر 2018ء کواحتساب عدالت نے نواز شریف کو العزیزیہ سٹیل ملز ریفرنس میں سات سال قیدکی سزا‘دس سال کیلئے کسی بھی عوامی عہدے پر فائز ہونے پر پابندی‘اورتقریباً پونے چار ارب روپے جرمانہ اور ان کے نام تمام جائیداد ضبط کرنے کا فیصلہ سنایا۔29 اکتوبر 2019 ء کو اسلام آباد ہائی کورٹ نے نواز شریف کی العزیزیہ سٹیل ملز کیس میں طبی بنیادوں پر آٹھ ہفتوں کیلئے ضمانت منظور اور سزا معطل کردی‘اس سے تین روزپہلے یعنی 26 اکتوبر 2019ء کو بھی اسی عدالت نے نواز شریف کی عبوری ضمانت کی تھی۔24 جون 2021ء کو اسلام آباد ہائی کورٹ نے ایون فیلڈ اور العزیزیہ ریفرنس میں سزاؤں کے خلاف نواز شریف کی اپیلیں خارج کیں اور سزا برقرار رکھی۔یعنی نواز شریف کو ہرصورت اپنے مقدمات کا سامنا کرنا پڑے گا۔اگر نواز شریف کو کیسز میں ریلیف مل جاتا ہے تو ان کے مخالفین یقینی طورپر یہ سوال اٹھائیں گے کہ ان کیلئے لیول پلیئنگ فیلڈ بنائی گئی۔اوراس کا شکوہ بلاول بھٹو کر رہے ہیں۔اور یہ خبریں بھی گرم ہیں کہ عنقریب سندھ میں پیپلزپارٹی کے گرد گھیراتنگ ہوسکتا ہے۔شاید اسی لیے بلاول بھٹو زرداری لیول پلیئنگ فیلڈ نہ ملنے کی بات کر رہے ہیں۔ بہرحال بعض سیاسی حلقوں کے نزدیک نواز شریف پر لگا کراس ابھی کلیئر نہیں ہوا اور وہ مقتدر حلقوں کیلئے فی الوقت بطور وزیراعظم قابلِ قبول نہیں۔ لیکن اگر ایسا ہے تو پھر نواز شریف واپس آنے کا رسک کیوں لے رہے ہیں ؟ خواجہ آصف تو پہلے ہی کہہ چکے ہیں کہ جب تک نواز شریف کی واپسی پر رسک زیرو نہیں ہوجاتا وہ وطن واپس نہیں آئیں گے۔ میاں نواز شریف کی واپسی کادوسرا پہلو دیکھیں تو میاں شہباز شریف کے اعلان کے بعد یوں محسوس ہوتا ہے کہ اُن کی سیاسی میدان میں پھر سے واپسی ہونے جارہی ہے۔ مسلم لیگ (ن) اپنے قائد کی سربراہی میں ووٹ کو عزت دو کا نعرہ لگاتے ہوئے اپنے پالیٹکل سرمائے کو بحال کرنا چاہتی ہے۔ سیاسی مبصرین کے مطابق ملک میں قائم بے چینی اور سیاسی بے یقینی کی فضا میں سیاستدانوں کو ایک دوسرے کے لتے لینے کی بجائے سب کیلئے لیول پلیئنگ فیلڈ کی بات کرنا ہوگی ورنہ شاید کسی کے حصے میں بھی کچھ نہ آئے۔ میاں نواز شریف کی وطن واپسی اور نئے چیف جسٹس کے منصب سنبھالنے کے بعد سیاسی منظرنامہ کیا ہوگا یہ جاننے کیلئے آئندہ تین ہفتے بہت اہمیت کے حامل ہیں۔ہم امیدکرسکتے ہیں کہ نئے چیف جسٹس سیاسی بحرانوں کے آگے بندباندھنے والے فیصلے کریں گے اور انکے کندکٹ سے یہ تاثر ملے گاکہ وہ کسی ایک فریق کے پسندیدہ جج نہیں بلکہ قانون و انصاف کے محافظ اور پاسبان ہیں۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved