ایک خبر کے مطابق نگران وزیراعظم کی ہدایت پر پی آئی اے کے اثاثوں کی نجکاری کا عمل شروع ہو گیا ہے۔ امریکہ میں پی آئی اے کے روزویلٹ ہوٹل کی فروخت کے لیے بھی اقدامات تیز کر دیے گئے ہیں۔ یہ بھی بتایا گیا ہے کہ نجکاری کمیشن نے روز ویلٹ ہوٹل کی نیلامی سے متعلق فنانشل ایڈوائز کے تقرر کے لیے دلچسپی رکھنے والی فرموں سے 9 اکتوبر تک پیشکش طلب کر لی ہیں۔ روز ویلٹ ہوٹل اس وقت ایک معمہ بنا ہوا ہے۔ قبل ازیں جنوری میں اس وقت کے وفاقی وزیر ریلوے اور ہوا بازی خواجہ سعد رفیق نے اعلان کیا تھا کہ روز ویلٹ ہوٹل لیز پر دینے کیلئے نیویارک سٹی ایڈ منسٹریشن کے ساتھ معاہدہ طے پا گیا ہے اور یہ معاہدہ ہونے سے دو سو بیس ملین ڈالر کی آمدنی ہو گی۔ ان کا کہنا تھا کہ تین سال کیلئے ہونے والا معاہدہ پاکستان کے مفاد میں ہے، تین سال بعد معاہدہ ختم ہونے پر ہوٹل واپس پاکستان کو مل جائے گا جبکہ معاہدے سے سول ایوی ایشن کا کوئی ملازم بیروزگار نہیں ہو گا۔
اس کے بعد اپریل میں اقتصادی رابطہ کمیٹی (ای سی سی) نے وزیر خزانہ اسحاق ڈار کی زیر صدرت روز ویلٹ ہوٹل کو لیز پر دینے کیلئے چار رکنی مذاکراتی کمیٹی قائم کی تھی جبکہ اس وقت بھی یہی کہا گیا تھا کہ نیویارک سٹی حکومت تین سال کیلئے فی کمرہ 200 ڈالر یومیہ پر کرائے پر لینا چاہتی ہے۔ ای سی سی کے اعلامیے میں یہ بھی بتایا گیا کہ ای سی سی نے پی آئی اے کو تعمیرات و تزئین و آرائش کا کام شروع کرنے کیلئے 11 لاکھ ڈالر سے زائد رقم استعمال کرنے کہ بھی منظوری دی گئی ہے۔ بعض ذرائع کی جانب سے بتایا جا رہا ہے کہ ان سب کے پس پردہ سودے مبینہ طور پر پہلے سے طے پا چکے ہیں لیکن کل تک چونکہ سیاسی حکومتیں برسر اقتدار تھیں اور انہیں پی آئی اے کی مختلف یونینز کی جانب سے مزاحمت کا ڈر تھا‘ اس وجہ سے ان کاموں کو التوا کا شکار کر دیا گیا اور اب چونکہ نگران حکومت ہے‘ اس لیے اب کسی کو اس کے فیصلوں کے خلاف احتجاج کرنے کی ہمت نہیں ہو گی۔ بعض ذرائع کا یہ بھی دعویٰ ہے کہ محض روزویلٹ ہوٹل نہیں بلکہ اور بھی بہت کچھ فروخت کیا جا رہا ہے، اس حوالے سے وہ جناح کنونشن سنٹر اسلام آباد، وفاقی حکومت کی ملکیتی جائیدادیں، پاکستان سٹیل مل کراچی، بلوکی پاور پلانٹ، حویلی بہادر پاور پلانٹ، گدو تھرمل پاور سٹیشن، نندی پور پاور پلانٹ، بجلی کی ترسیلی کمپنیاں اور سکھر پاور پلانٹ سمیت متعدد دیگر اداروں اور عمارتوں کا نام لیتے ہیں۔ اندر کی خبر رکھنے کا دعویٰ کرنے والے بعض احباب کا دعویٰ ہے کہ یہ فہرست بہت طویل ہے اور چند روز پہلے کابینہ میں ایک اضافہ خصوصی طور پر اسی مقصد کے لیے کیا گیا ہے۔
جب کاروبار میں نقصان ہو جائے اور قرض خواہ ہر وقت دروزے پر کھڑے رہیں تو پھر گھر کی ہر چیز بیچنا پڑتی ہے۔ کچھ فلموں اور ڈراموں میں نیلامی سے متعلق اکثر ایسے مناظر دیکھنے کو ملتے ہیں کہ عالیشان محل کی نیلامی کے بعد ایک معصوم سی بچی جب گھر خالی کرتے ہوئے اپنی گڑیا ساتھ لے جانے کی کوشش کرتی ہے تو نیلامی کرنے والی اتھارٹی بچی سے وہ گڑیا بھی رکھوا لیتی ہے‘ کہ اب یہ بھی اس کی ملکیت نہیں رہی۔ نجانے پاکستانیوں کی قسمت میں کیا کیا بیچ دینا لکھا ہوا ہے۔ اب جب بدقسمتی سے وہ وقت آ ہی چکا ہے کہ نیلام گھر سج چکے ہیں اور ایک ایک چیز فروخت کیلئے نیلام گھر میں سجائی جانے لگی ہے تو ایک گزارش ہے کہ جب بکنا ہی مقدر ٹھہرا تو کم از کم یہ کوشش ضرور کی جائے کہ قیمت پوری ملے کیونکہ یہ ملکی اثاثے لاکھوں شہدا کی امانت ہیں۔
اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ نیویارک کے روزویلٹ ہوٹل پر نجانے کب سے منظور نظر افراد اپنی نظریں ٹکائے بیٹھے ہیں۔ امریکی صدر تھیوڈر روزویلٹ کے نام پر یہ ہوٹل 1924ء میں تعمیر ہوا تھا اور اس کی تعمیر میں دنیا کی بیش قیمت اور نایاب مہاگنی لکڑی استعمال کی گئی تھی۔ اس ہوٹل کی تعمیر پر ایک صدی قبل لگ بھگ ایک کروڑ بیس لاکھ ڈالر رقم خرچ ہوئی تھی۔ یہ ہوٹل ایک خفیہ زیرِ زمین راستے سے نیویارک کے گرینڈ سینٹرل سٹیشن سے بھی جڑا ہوا تھا۔ واضح رہے کہ یہ نیویارک کے مرکز مین ہٹن کی 45ویں اور 46ویں سٹریٹ کے درمیان واقع ہے اور یہاں سے ٹائمز سکوائر اور براڈ وے جانے میں صرف پانچ منٹ لگتے ہیں۔ روزویلٹ ہوٹل کا ایک اعزاز یہ ہے کہ یہ دنیا بھر میں وہ پہلا ہوٹل تھا جس نے چائلڈ کیئر اور پالتو جانوروں کے لیے خصوصی سروسز مہیا کرنا شروع کی تھیں۔ اس کے علاوہ 1947ء میں روزویلٹ وہ پہلا ہوٹل تھا جس نے مہمانوں کو کمروں میں علیحدہ ٹیلی وژن سیٹ مہیا کیے تھے۔
1943ء میں کونریڈ ہلٹن نے یہ ہوٹل خریدا تھا۔ بعد میں وہ والڈورف ایسٹوریا اور دی پلازہ جیسے سیون سٹار ہوٹلوں کے مالک بھی بن گئے لیکن انہوں نے اپنا قیام روزویلٹ ہوٹل کے صدارتی سویٹ میں ہی رکھا۔ نیویارک کے اس مشہور زمانہ ہوٹل کے قرب و جوار میں ہوٹل انڈسٹری میں سرمایہ کاری اس وقت اپنے عروج پر ہے۔ امریکہ کے پراپرٹی امور کے ماہرین کا کہنا ہے کہ نیویارک‘ مین ہٹن کے علاقے میں گزشتہ چند سال کے دوران جو ہوٹل بیچے گئے‘ ان کی اوسط قیمت فی کمرہ ڈیڑھ سے دو ملین ڈالر تھی۔ اگر ہوٹل روزویلٹ کی نئی تزئین و آرائش کو سامنے رکھیں اور اس کے 1015 ڈیلکس کمروں اور 52 لگژری سویٹس کی قیمت کا اندازہ لگائیں تو یہ کسی طور بھی تین بلین ڈالر سے کم مالیت کا نہیں ہے۔ یہ ہوٹل پی آئی اے کی ملکیت کیسے بنا‘ یہ ایک دلچسپ داستان ہے۔ ہوا یہ کہ 1970ء کی دہائی کے اواخر میں امریکہ کی معاشی حالت خاصی دگرگوں تھی۔ اس وقت ہوٹل انڈسٹری شدید خسارے کا شکار تھی۔ مسلسل خسارے سے تنگ آ کر ہوٹل کی انتظامیہ نے اس تاریخی ہوٹل کو بیچنے کا فیصلہ کیا اور اس کیلئے عرب شہزادوں سے رابطے شروع کر دیے گئے۔ خوش قسمتی سے ہوٹل بیچنے کی یہ آفر ایک سعودی شہزادے کے توسط سے پاکستان تک بھی پہنچی اور پی آئی اے کی انتظامیہ نے سعودی شہزادے کی مدد سے اس ہوٹل کو لیز پر لینے کی خواہش کر اظہار کر دیا۔ اس وقت جہازوں کی آمد و رفت میں ممکنہ تاخیر کے پیش نظر پی آئی اے کو نیویارک میں ایک اچھے اور معیاری ہوٹل کی ضرورت تھی، سو حکومت پاکستان کی اجا زت سے 1979ء میں روز ویلٹ ہوٹل کو سعودی شہزادے فیصل بن خالد بن عبدالعزیز السعود کے ساتھ مل کر لیز پر حاصل کر لیا گیا۔ لیز کی شرائط میں ایک شق یہ بھی شامل تھی کہ بیس برس بعد اگر پی آئی اے چاہے تو اس ہوٹل کی عمارت کو خرید سکتی ہے۔
1997ء میں جب نیویارک کے اس ہوٹل کی لیز کی بیس سالہ مدت ختم ہوئی تومعاشی حالات بہتر ہو چکے تھے، لہٰذا اس کے مالک کی نیت میں فتور آ گیا اور اس نے اس ہوٹل کو بیچنے سے انکار کر دیا۔ عذر یہ تراشا گیا کہ معاہدے کے مطابق اس کی جو قیمت لگائی گئی ہے وہ آج کی مارکیٹ ویلیو کے حساب سے بہت کم ہے۔ اس سلسلے میں اس نے امریکی عدالت میں مقدمہ بھی دائر کر دیا۔ مقدمے کا مقابلہ کرنے اور بیس سال قبل کیے گئے معاہدے پر عملدرآمد کرانے کیلئے پاکستانی حکومت بھی میدان میں آ گئی۔ چونکہ پی آئی اے کا موقف درست اور معاہدے کے عین مطابق تھا لہٰذا ایک طویل قانونی جنگ کے بعد پاکستان اس مقدمے کو جیتنے میں کامیاب ہو گیا جس کے نتیجے میں 1999ء میں پاکستان انٹرنیشنل ایئر لائن کو امریکہ کا یہ تاریخی ہوٹل 36 ملین (تین کروڑ ساٹھ لاکھ) ڈالر کے عوض مل گیا۔ بعد ازاں سعودی شہزادے سے اس ہوٹل کے 99 فیصد شیئرز خرید لیے گئے۔2009ء میں بھی روزویلٹ کو بیچنے کی تیاریاں کی گئی تھیں اور اس وقت مارکیٹ ویلیو کے حساب سے جب اس کی قیمت لگوائی گئی تو پہلی آفر ایک بلین ڈالر کی ملی۔ اس وقت اسے بیچنے کا حتمی فیصلہ کر لیا گیا تھا لیکن اسے خوش قسمتی سمجھئے کہ ابھی یہ ہوٹل بیچے جانے کے ابتدائی مراحل ہی تھا کہ امریکہ کی معاشی حالت اور ہائوسنگ کی صنعت میں شدید مندی دیکھی جانے لگی جس کی وجہ سے اس اقیمتی اثاثے کی نیلامی روکنا پڑ گئی۔
پاکستان میں وقفے وقفے سے مختلف حکومتیں آتی رہیں اور اس ہوٹل کی دیکھ بھال کی جانب دھیان کم سے کم ہوتا رہا۔ سیاسی حکومتوں نے اپنے اراکین اسمبلی اور ان کے خاندانوں کو کئی ہفتوں یا مہینوں نہیں بلکہ بہت سوں کو اس میں کئی سالوں تک مفت رہائش دیے رکھی۔ کسی نے بھی ان سے کچھ پوچھنے یا جواب طلبی کرنے کی ضرورت تک محسوس نہیں کی، نتیجہ یہ نکلا کہ ایک لمبا خسارہ اس کے کھاتوں میں جھانکنا شروع ہو گیا۔ جب بھی کسی سرکاری ادارے یا ملکی اثاثے کی بربادی کی داستان ٹٹولی جائے‘ نیچے سے جمہوری ادوار کی چنگاریاں ہی برآمد ہوتی ہیں۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved