پاکستانی نظامِ تعلیم کا سب سے سنگین مسئلہ تعلیمی عصبیت (Education apartheid) ہے۔ امیروں اور غریبوں کے بچوں کی تعلیم میں ایک واضح تقسیم نظر آتی ہے۔ زبان اس تقسیم میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔پچھلے کئی عشروں سے نیو لبرل ماڈل (Neoliberal Model) ہمارے تعلیمی نظام میں رچ بس گیا ہے اور اب امیروں اور مڈل کلاس کے بچوں کے تعلیمی اداروں میں ایک وسیع خلیج حائل ہو گئی ہے۔ستم ظریفی یہ ہے کہ تعلیم‘ جس کا بنیادی مقصد ہی معاشرے میں معاشرتی اور معاشی امتیازات کو کم کرنا ہے‘ ان امتیازات کو مزید تقویت د ے رہی ہے۔سرکاری سکول اب اپنی کشش کھو بیٹھے ہیں۔ والدین اب اپنے بچوں کو انگلش میڈیم سکولز میں بھیجنے کو ترجیح دیتے ہیں ۔ دیگر وجوہات کے علاوہ اس کی ایک اہم وجہ انگریزی زبان ہے۔ والدین انگریزی زبان کو معیار کا پیمانہ سمجھتے ہیں‘ انگریزی زبان کی مقبولیت کو دیکھتے ہوئے گلی محلوں میں غیر معیاری سکول بھی وجود میں آ گئے ہیں جوانگلش میڈیم کا بورڈ لگا کر اپنے معیاری ہونے کا اعلان کر رہے ہیں۔والدین انگریزی کو ہی کیوں اچھے سکولوں کی علامت سمجھتے ہیں؟ اُردو میڈیم سکولوں سے بے اعتنائی کی وجہ کیا ہے؟ اس بظاہر سادہ سوال کا جواب اتنا آسان نہیں۔ اس کے لیے ہمیں زبان سے جڑے کچھ اور سوالوں کا جواب بھی تلاش کر نا ہو گا۔
زبانوں سے متعلق یہ اہم حقیقت ہے کہ کوئی بھی زبان اپنی اصل میں برتر یا کم تر نہیں ہوتی۔کسی بھی زبان بولنے والنے کا معاشرتی مرتبہ اس زبان کا سماجی مرتبہ متعین کرتا ہے‘ انگریزی زبان کیساتھ بھی یہی معاملہ ہے۔انگریزی اپنی عملیت (Pragmatic Value) کی وجہ سے ایک طاقتور زبان کے طور پر سامنے آئی ہے کیونکہ اس کا حصول اچھے روزگار کے راستے کھولنے میں مد د دیتا ہے۔اسی طرح انگریزی میں دسترس باہر کی یونیو رسٹیوں میں اعلیٰ تعلیم کیلئے ضروری سمجھی جاتی ہے۔پاکستان میںآج کل ملٹی نیشنل کمپنیوں میں روزگار کے حوالے سے اشتہارات دیکھیں تو ان میں دو اوصاف کا ذکر تسلسل سے کیا جاتا ہے ایک تو کمیونیکیشن سکلز (Communication Skills) اور دوسرا انٹر پرسنل سکلز (Interpersonal Skills)۔ انگریزی میں مہارت اور پھر اس پر ایک خاص لہجہ امیدواروں کو نوکری کے حصول کیلئے ہونیوالے انٹرویوز میں بہت مدد دیتا ہے۔ یوں انگریزی زبان صرف خیالات اور معلومات کی ترسیل (Communication) کا ذریعہ ہی نہیں بلکہ یہ اس سے بڑھ کر ایک سیاسی تصور ہے جس کا تعلق طاقت سے جڑا ہوا ہے۔
فرانسیسی ماہر ِعمرانیات بورڈیو (Bourdieu)کا طاقت کا تصور اس کی کیپٹل تھیوری کے ساتھ جڑا ہوا ہے۔ اس کے خیال میں اکنامک کیپٹل‘ سوشل کیپٹل اور کلچرل کیپٹل طاقت کے استعارے ہیں۔ کلچرل کیپٹل کا ایک اہم جز لسانی سرمایہ بھی ہے۔ Bourdieu کے خیال میں یہ Capitals کسی بھی معاشرے میں پاورکی تعمیر اور تشکیل کرتے ہیں۔ Bourdieu زبان کو محض خیالات اور معلومات کی ترسیل کا ذریعہ نہیں سمجھتا بلکہ اسے طاقت کا آلہ قرار دیتا ہے۔ اس کے خیال میں کوئی فرد جب بولتا ہے تو اس کا مدعا محض دوسروں کو اپنا مطلب سمجھانا نہیں ہوتا بلکہ وہ چاہتا ہے کہ اس پر یقین کیا جائے‘اس کی تعمیل کی جائے‘اس کی تکریم کی جائے اور اسے دوسروں سے ممتاز سمجھا جائے۔زبان کے اس معاشرتی مرتبے کو سکولوں میں مزید جواز فراہم کیا جاتا ہے‘ یوں سکول معاشروں میں طاقت کے محوروں کو آگے بڑھانے میں مددگار ثابت ہوتے ہیں۔
برطانیہ کا برنسٹین (Bernstein) جو زبان کی عمرانیات کا ماہر ہے‘ لسانی سرمائے (Linguistic Capital)کی غیر مساوی تقسیم کی طرف اشارہ کرتا ہے۔ اپنے معروف تحقیقی مضمون: Elaborated and Restricted Codes میں وہ بتاتا ہے کہ کیسے ورکنگ کلاس کی زبان سکول کے تعلیمی ٹاسک اور اسائنمنٹس کے حوالے سے زیادہ مددگار نہیں ہوتی۔ انگلش میڈیم سکول والدین کی توجہ کا دامن اپنی طرف اس لیے کھینچ لیتے ہیں کہ ان کا دعویٰ ہوتا ہے کہ وہ بچوںکو انگریزی بول چال میں طاق کر دیں گے۔جو لسانی سرمایہ بچے اپنے گھروں سے حاصل کرتے ہیں وہ سکول میں ان کی تعلیمی کارکردگی میں نمایاں کردار ادا کرتا ہے۔وہ بچے جن کے خاندان معاشی اور معاشرتی طور پر بلند درجے پر ہوتے ہیں ان کا لسانی سرمایہ بھی زیادہ ہوتا ہے اور وہ معاشرے میں ان ایلیٹ سکولوں میں جاتے ہیں جہاں نصاب‘درسی کتب‘اساتذہ کی کوالٹی‘طریقۂ تدریس اور امتحانات کا معیار خاصا بہتر ہوتا ہے۔ اس کے برعکس وہ بچے جن کا تعلق ایسے خاندانوں سے ہوتا ہے جن کے معاشی ذرائع محدود ہوتے ہیں وہ زیادہ تر ان سکولوں میں جاتے ہیں جہاں نصاب‘ درسی کتب‘اساتذہ کی کوالٹی‘امتحان کا نظام نسبتاً کم درجے کا ہوتا ہے۔ ایسے سکولوں میں اساتذہ کی اکثریت روانی سے انگریزی بولنے میں مہارت نہیں رکھتی۔ یوں امرا کے بچے جو پہلے سے انگریزی کے حوالے سے لسانی سرمایہ رکھتے ہیں وہ ان ایلیٹ سکولوں میں چلے جاتے ہیں جہاں اس سرمائے میں مزید اضافہ ہوتا ہے۔ اس کے برعکس غریبوں کے بچے‘ جن کے پاس انگریزی حوالے سے کم لسانی سرمایہ ہوتا ہے وہ معاشی وسائل کی کمی کے باعث صرف ایسے سکولوں تک رسائی حاصل کر سکتے ہیں جہاں انگریزی زبان کے حوالے سے ان کے لسانی سرمائے میں خاطر خواہ اضافہ نہیں ہوتا۔ خاص کر انگریزی بول چال میں ان کی کارکردگی میں کوئی نمایاں بہتری نہیں آتی۔ اس کے نتیجے میں طلبا کے درمیان تفریق کی لکیر اور گہری اور نمایاں ہو جاتی ہے۔انگریزی میں یہ لسانی سرمایہ طلبا کے حصول ِروزگار کے عمل میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔ وہ طلبا جن کی انگریزی پر دسترس ہوتی ہے انہیں بہتر روزگار ملنے کے زیادہ مواقع ہوتے ہیں۔یوں معاشرے میں سماجی تفریق و تفاوت کو ہمارا غیر مساوی نظام تعلیم بڑھاوا دے رہا ہے۔ اس سلسلے میں انگریزی زبان اہم کردار ادا کر رہی ہے۔
انگریزی زبان کو پاکستان میں اہم مقام ملنے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ ہم نے قومی زبان اُردو کے حوالے سے محض بلند بانگ دعوے کیے اور اس سلسلے میں کوئی کام نہیں کیا۔1947ء میں ہونے والی پہلی ایجوکیشنل کانفرنس میں بتدریج اُردو کے نفاذ کا ذکر کیا گیا تھا۔ 1959ء میں بننے والے کمیشن کی رپورٹ میں پندرہ سال میں اُردو کے نفاذ کی بات کی گئی تھی۔ 1973ء کے آئین میں اُردو کو انگریزی کی جگہ سرکاری زبان بنانے کے لیے مزیدپندرہ سال کا وقت دیا گیالیکن عملی طور پر کوئی ٹھوس قدم نہیں اٹھایا گیا۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ ملکی سطح پر اس بات کا اہتمام کیا جاتا کہ دنیا بھر میں شائع ہونے والی جدید کتابوں اور تحقیقی مقالوں کو سرعت کے ساتھ اُردو میں ترجمہ کیا جاتا جس طرح کئی ایسے ممالک میں کیا جاتا ہے جہاں ملکی زبان پر فخر کیا جاتا ہے۔ اُردو اور علاقائی زبانوں سے بے اعتنائی کے نتیجے میں پاکستان میںانگریزی زبان کا معاشرتی درجہ رفتہ رفتہ بلند ہوتا گیا۔ یہ بات اہم ہے کہ پاکستان میں بننے والی کسی تعلیمی پالیسی میں زبان کے مسئلے پر خاطر خواہ توجہ نہیں دی گئی۔ضرورت اس بات کی ہے کہ ملکی سطح پر ایک جامع لسانی پالیسی تشکیل دی جائے جس میں انگریزی‘اُردو اور پاکستان کی علاقائی زبانوں کے بارے میں تفصیلی بحث کی جائے اور قابلِ عمل ٹھوس تجاویز دی جائیں۔امیروں اور غریبوں کے سکولوں کے درمیان تفاوت میں انگریزی زبان ایک اہم کردار ادا کرتی ہے۔ یکساں نصاب اور سہولیات کا خواب اس وقت تک پورا نہیں ہو سکتا جب تک طلبا کو لسانی سرمایے کے حصول کے مسادی مواقع فراہم نہ کیے جائیں۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved