بلتستان کا حسن بالکل اور طرح کا ہے جیسا کہ میں نے کہا‘ تضادات سے پُر۔ اور سب سے بڑا تضاد شاید بنجر پن اور ہریالی کا ہے۔ دونوں بھرپور موجودگی کا ثبوت دیتے ہوئے مسلسل ہم آغوش رہتے ہیں۔ جب میں نے ایک نظم میں لکھا تھا کہ:
ہریالی کے اتنے رنگ ہیں جتنے رنگ سمندر کے
روزگجردم اس وادی میں باغیچوں کا اک غالیچہ کھلتا ہے
کاہی سے انگوری تک کے
تیز اور ہلکے رنگ لغت میں اس وادی سے پہنچے ہیں
لیکن پھر بھی
سرخ اور زرد پہاڑوں کی ُر ہیبت عظمت
سبزے کی آرائش سے انکاری ہے
اس کہسار کی ہر اک چوٹی ہریالی سے عاری ہے
یوں لگتا ہے
ایک خط ِ سیراب سے اوپر
برگ و بار کی ہر اک خواہش پتھر ہوتی جاتی ہے
دیکھو‘اپنے دل میں دیکھو
ہریالی اک حد سے آگے بنجر ہوتی جاتی ہے
تو مجھے علم نہیں تھا کہ تضادات کے ایک دوسرے کے پہلو میں آ لیٹنے سے کیسے الگ طرح کا حسن جنم لیتا ہے۔ یہاں بھی بنجر پن کی ہریالی اسی طرح میرے سامنے تھی۔ اس وسیع فضا میں جا بجا یہ منظر دکھائی دیتا ہے کہ دو بنجر‘ سر بفلک نیم برف پوش پہاڑوں کے نقطۂ اتصال اور گھاٹی سے چاندی کی طرح ایک آبشار گرتی نظر آتی ہے اور یہ پہاڑی دریا اور نالہ اپنے ساتھ زرخیزی اور نمو لیے چلتا ہے۔ نیچے دریا میں گرنے سے پہلے وہ اپنے ارد گرد کو اتنا سرسبز اور شاداب کر چکا ہوتا ہے کہ دور سے وہ پوری وادی بنجر سمندر میں ایک ہرے جزیرے کی طرح دکھائی دیتی ہے۔ ہم سکردو سے خپلو جا رہے تھے اور انہی مناظر سے آنکھیں سیراب کر رہے تھے۔ خپلو سکردو سے تین گھنٹے کی مسافت پر بلتستان کا دوسرا بڑا شہر ہے اور بہت سے تاریخی آثار رکھتا ہے۔ راستے میں ایک وسیع وادی میں دریائے شیوک اور دریائے سندھ کا سنگم بھی آتا ہے۔ سیاچین کے قریب رامو گلیشیر سے پگھل بہنے والا شیوک‘ کیلاس پہاڑ تبت سے سفر آغاز کرنے والے سندھ سے اس نکتے پر ملتا ہے اور خود کو سندھ میں ضم کر دیتا ہے۔ سندھ‘ جو پاکستان میں داخل ہونے سے پہلے ایک ہزار کلو میٹر کا فاصلہ طے کر چکا ہوتا ہے اور پھر پاکستان میں ریڑھ کی ہڈی کی طرح اوپر سے نیچے تک لکیر کھینچتا ہوا سمندر میں جا گرتا ہے۔
خپلو دریائے شیوک کے کنارے پہاڑ سے دریا تک اترتی ایک ہری بھری وادی اور شہر ہے۔ گھانگ چھے نامی گلیشیر سے برفانی نالہ اس کے ساتھ اترتا اور دریا تک جاتا ہے۔ گھانگ یعنی برف اور چھے یعنی پانی۔ اور یہی اس پورے علاقے کا بھی نام ہے۔ اچھے وقتوں میں ٹورازم اتھارٹی نے بہت سے پُرفضا مقامات پر اپنے بہترین ہوٹل بنائے تھے۔ اگر ان کی دیکھ بھال کی جاتی تو بہت سے سیاح یہیں ٹھہرنا پسند کرتے۔ اچھی بات یہ ہے کہ خپلو کا موٹیل اچھی دیکھ بھال کی ایک مثال ہے۔ کمرے مناسب حالت میں ہیں اور صفائی کا انتظام بھی ٹھیک ہے۔ خپلو میں پہاڑ کی بلندی پر چق چن مسجد جس کی نسبت مشہور کشمیری بزرگ میر سید احمد علی ہمدانی کی طرف ہے‘ لکڑی کی پرانی طرزِ تعمیر‘ رنگا رنگ نقاشی اور کھدائی کے خوبصورت کام کی اپنی مثال آپ ہے۔ یہ الگ دنیا ہے اور خپلو کا قلعہ یعنی تھوری گھر ایک الگ جہاں۔ اس قلعے کو 2005ء میں از سر نو اسی طرح کشمیری‘ بلتی‘ تبتی اور لداخی مخلوط انداز میں تعمیر کرکے اس میں ہوٹل اور میوزیم بنا دیا گیا۔ پرانی فضا برقرار ہے اور گائیڈ دستیاب۔ داستانیں اس قلعے کے در و دیوار سے لپٹی ہوئی ہیں‘ جن کا آغاز اس روایت سے ہوتا ہے کہ 1840ء میں قلعہ موجودہ جگہ سے دور پہاڑ کی مزید بلندی پر تھا۔ راجہ دولت علی خان نے نیا قلعہ بنانے کا فیصلہ کیا تو پرانے قلعے سے چٹان لڑھکائی گئی۔ ڈوک سائی نامی گاؤں پر جہاں چٹان رک گئی وہیں نئی تعمیر شروع ہوئی۔ ایک روایتی داستان ختم ہو تو حقیقی داستان اس کا دامن تھام لیتی ہے۔ مارجرمی ہیل نامی انگریز دوشیزہ سکاٹ لینڈ سے ہندوستان نرسنگ کا کورس کرنے آئی۔ غیر منقسم ہندوستان میں نوجوان ولی عہد فتح علی خان کو دیکھا اور اسے دل دے بیٹھی۔ شہزادہ بھی دل ہار گیا۔ دونوں نے اپنے خاندانوں کی ناراضی کی پروا کیے بغیر شادی رچائی۔ برطانوی قوم ہرگز کھلے دل کی نہیں اور انگلینڈ‘ آئرلینڈ‘ سکاٹ لینڈ اور ویلز کے تمدن اور روایات میں بھی فرق ہے۔ بالکل اسی طرح جیسے پنجاب کی روایات سے پختون روایات مختلف ہیں۔ مارجری ہیل کے خاندان نے اسے زندگی بھر معاف نہ کیا۔ ہر قسم کا رابطہ توڑ لیا۔ ان کے لیے ان کی بیٹی مر گئی تھی۔ عشق کی ماری لڑکی تمام عمر انگلینڈ واپس نہ گئی۔ صغریٰ فاطمہ بن کر راجہ کا گھر بسایا۔ اولاد پیدا کی‘ بلتی رہن سہن اختیار کیا‘ زبان سیکھی اور اُنہی میں رچ بس گئی۔ اسلام آباد میں دفن ہوئی اور پیار کی داستانوں میں ایک اور داستان رقم ہو گئی۔
لکڑی اور پتھر کے محل میں جھروکوں‘ کھڑکیوں سے جھانکتے پتھر کی سیڑھیوں پر چڑھتے‘ چھوٹے دروازوں سے جھک کر کمروں میں داخل ہوتے‘ نکلتے اور ان زمانوں میں سانس لیتے ہم نے خود کو خوش نصیب سمجھا کہ ہم نہ مرصع خلعت کے لائق تھے، نہ تہ خانۂ زنداں کے سزا وار۔ شکر ہے کہ ہم وہ لوگ تھے جو نہ اس زمانے میں تھے نہ اس رعایا میں۔ ورنہ محل کی خوشبو سونگھنے کی بھی اجازت نہ ہوتی بلکہ ہم بھی ان خدام میں ہو سکتے تھے جو بقول نوجوان گائیڈ اس محل کی خدمت کرتے نسل درنسل عمریں گزار دیتے اور ساری عمر گزر جانے کے بعد بھی محل کی بالائی منزل تک بازیابی کی مجال نہ ہوتی جہاں راجہ اور اس کا گھرانہ رہتا تھا۔
محل کا شکوہ‘ خوبصورتی اور دل کشی اپنی جگہ۔ انسان کو یہ کیا خبطِ عظمت چلا آتا ہے کہ کمروں میں خدام‘ لشکریوں اور وزیروں کے داخلے کے لیے دروازے چھوٹے رکھواتا ہے تاکہ راجہ کے سامنے سرنگوں ہو کر حاضر ہوں۔ ایک انسان دوسرے کے سامنے دیوتا بن کر راج سنگھاسن پر بیٹھتا اور اپنی پرستش کرواتا ہے اور یہی اپنی عظمت جانتا ہے۔ وہ سب جاہ و حشم‘ لشکر‘ گھوڑے‘ چتر و علم خاک ہوئے‘ دور کھڑے تھرانے والے دندناتے پھرتے ہیں۔ راجہ زیر زمین جا سوئے اور جھک کر پیش ہونے والے ان کی مٹی پر پائوں دھر کر گزرتے ہیں۔
تھورسی کھر محل، خپلو کی سب سے اونچی منزل پر ''چوغور فتال‘‘ یعنی شاہی خاندان کی ملاقات کے کمرے میں شفاف سفید چاندنیوں اور گائو تکیوں کے ادھر منقش لکڑی کے جھروکوں سے جھانکتے ہوئے میں نے چار منزل نیچے خوبانی‘ ناشپاتی اور سیب سے لدے پیٹر دیکھے۔ وسیع باغیچے پر نظر جمائی۔ میٹھے پانی کے چشمے کی آواز سنی اور خود کو خوش نصیب سمجھا کہ میں اس عہد میں پیدا نہ ہوا۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved