اپنے ذاتی گھر کا خواب ہر شہری دیکھتا ہے مگر بہت ہی کم افراد ہوتے ہیں جو اس خواب کی تعبیر حاصل کر پاتے ہیں۔ دنیا بھر میں سیاسی جماعتوں کے منشور میں یہ بات شامل ہے کہ وہ شہریوں کو ذاتی گھر کا مالک بنائیں گی مگر یہ وعدہ ایک سیاسی وعدہ ہی ثابت ہوتا ہے۔ اگر پاکستان کی بات کی جائے تو یہاں بڑھتی آبادی کا مسئلہ خاصی شدت اختیار کر چکا ہے۔ اس وقت ملکی آبادی چوبیس کروڑ سے زائد ہے جبکہ آبادی میں 2.55 فیصد سالانہ کے تناسب سے اضافہ ہو رہا ہے۔ مطلب ہر سال 61 لاکھ نئے افراد معاشرے کا حصہ بنتے جا رہے ہیں۔ ظاہری بات ہے کہ ان 60 لاکھ سے زائد افراد کے لیے خوراک، تعلیم، رہائش اور صحت سمیت دیگر سہولتوں کی ضرورت بھی پڑتی ہے مگر حکومتی اور انتظامی سطح پر اس حوالے سے منصوبہ بندی نہ ہونے کے برابر ہے اور یہ خلا پرائیوٹ سیکٹر پورا کر رہا ہے مگر اس میں دھوکا اور فراڈبہت ہے۔ رہائشی منصوبوں سے متعلق بات کی جائے تو اگر سو نئی سکیمیں سامنے آتی ہیں تو ان میں کئی بوگس اور فراڈ نکلتی ہیں جن کے ہاتھوں لٹنے والے شہری عمر بھر روتے رہتے ہیں۔ اس کا واحد حل یہی تھا کہ برطانیہ اور دیگر یورپی ممالک کی کونسلز کی طرح گھر بنا کر بے گھروں کو باعزت چھت فراہم کی جائے۔ لیکن بدقسمتی سے یہ سوچ ہماری افسر شاہی اور سیاسی اشرافیہ میں پنپ ہی نہیں سکی۔
1849ء میں انگریزوں نے جب پنجاب کا اقتدار حاصل کیا تو اس وقت لاہور کی ساری آبادی شہر کی فصیل یعنی بارہ دروازوں کے اندر تھی۔ اس سے باہر جتنی آبادیاں بھی وجود میں آئیں وہ خالی زمین پر قبضے یا زرعی زمینوں کی وراثت کی بنا پر تھیں۔ پاکستان بننے کے بعد ضرورت محسوس ہوئی کہ شہروں کے باہر نئی بستیاں بسائی جائیں تو سب سے پہلے لاہور امپروومنٹ ٹرسٹ قائم ہوا جسے بعد میں لاہور ڈویلپمنٹ اتھارٹی کا نام دے کر نئی آبادیاں بسانے کا فریضہ سونپا گیا۔ لاہور میں سمن آباد، شادمان، اقبال ٹائون، گلبرگ، سبزہ زار، تاجپورہ، جوبلی ٹائون، ایل ڈی اے ایونیو، فیصل ٹائون اور جوہر ٹائون جیسی نئی بستیاں ہم سب کے سامنے ہیں۔ بعد میں اسی طرز پر دوسرے شہروں میں بھی ڈویلپمنٹ اتھارٹیز قائم کی گئیں مگر ان اتھارٹیز کا مقصد عوام کو سستی چھت مہیا کرنے کے بجائے زیادہ سے زیادہ منافع کا حصول رہا۔
زمین کس کی ملکیت ہے‘ اس بارے سورۃ الحشر‘ جو غزوہ بنی نضیرکے موقع پر نازل ہوئی‘ میں فرمان الٰہی ہے: ''جو غنیمت (زمین و جائیداد) خدا نے اپنے پیغمبر کو دیہات والوں سے دلوائی ہے، وہ خدا کے اور اس کے پیغمبر کے اور (پیغمبر کے) قرابت داروں کے، یتیموں کے، حاجت مندوں کے اور مسافروں کے لیے ہے، تاکہ تم میں جو لوگ دولت مند ہیں، (سرمایہ) ان کے ہی ہاتھ میں نہ پھرتا رہے‘‘۔ (الحشر: 7) آئین پاکستان بھی ریاست کو پابند کرتا ہے کہ وہ ہر شہری کو ذاتی چھت کا مالک بنانے کے لیے اقدامات کرے۔ سوال مگر یہ ہے کہ اگر ریاست ہی تمام لوگوں کو گھر بنا کر دے تو ان لاکھوں بلکہ کروڑوں گھروں کی تعمیر پر اٹھنے والابھاری سرمایہ کہاں سے آئے گا؟ اس حوالے سے پہلی بات یہ ہے کہ بے نظیر انکم سپورٹ جیسے بے مقصد پروگرام کیلئے ہر سال بجٹ میں 120 ارب روپے کہاں سے آتے ہیں۔ پچھلے کم از کم پندرہ برس سے یہ پروگرام چل رہا ہے، اب تک کتنے لوگوں کو اس کے ذریعے خطِ غربت سے نکالا گیا ہے؟ یہ پیسہ کیسے استعمال ہوتا ہے، اس بارے سب جانتے ہیں۔ نہیں جانتے تو دو‘ ڈھائی سال پہلے اس حوالے سے جو انکشافات سامنے آئے تھے‘ ان پر ایک نظر ڈال لیں۔ اسی طرح سستی روٹی منصوبے میں جھونکنے کیلئے 40 ارب روپے کہاں سے آئے تھے؟ لیپ ٹاپ سکیم کیلئے 140 ارب، سستے آٹے کے تھیلوں کیلئے 74 ارب اور ذوالفقار آباد کیلئے ایک کھرب سے زائد روپے کہاں سے آئے؟ سٹیٹ بینک کی ایک رپورٹ کے مطابق ہر سال تقریباً دس بلین ڈالر غیر قانونی طریقوں سے ملک سے باہر بھیجا جا رہا ہے۔ یہ پیسہ کہاں سے آتا ہے اور کہاں جاتا ہے؟
سرکاری ملازمین سمیت تمام بے گھر پاکستانیوں کو مستقل چھت دینے کے منصوبے کو عملی جامہ پہنانے کیلئے ایک ایسی تعمیرِ نو پبلک لمیٹڈ کمپنی بنائی جائے جسے مکمل آئینی تحفظ حاصل ہو۔ یہ تعمیر نو کمپنی ملک بھر میں نئے شہر، نئے دیہات، نئے قصبات اور نئے صنعتی شہر تعمیر کرے۔ بعد ازاں ان کی دائمی دیکھ بھال اور تعمیر و مرمت بھی اس کے ذمے ہو۔ یہ کمپنی بلامنافع ہو یعنی اپنا سارا منافع اپنے منصوبوں ہی پر خرچ کرے۔ سارے ملک کیلئے یہی ایک کمپنی یعنی اتھارٹی ہو، اس طرح پالیسی، طریق کار اور انتظامی امور میں یکسانیت رہے گی۔ اگر ایک سے زیادہ اتھارٹیز ہوں گی تو ایک ہی امر پر مختلف فیصلوں سے شکایات اور مسائل پیدا ہو سکتے ہیں۔ حکومت کا اس کمپنی پر کسی طرح کا بھی کنٹرول نہیں ہونا چاہئے۔ وہ نہ تو اس کے حصص خرید سکے اور نہ ہی اپنے بندے بھرتی کرا سکے۔ کمپنی کی انتظامیہ عام کمپنی جیسی نہیں ہونی چاہئے‘ جس کے انتظامی ڈھانچے میں تو تہ در تہ افسران کی اجارہ داری ہو۔ اس کا مقصد صرف خدمتِ خلق ہو۔ اس کمپنی کے الاٹیوں کو دوسری تعمیراتی کمپنیوں جیسی صورتحال کا سامنا نہیں ہونا چاہیے۔ ان کا قبضہ تاحیات ہو اور الاٹی کے بعد اس کے جانشین اس کی جگہ لیں۔ اس طرح الاٹی کبھی بھی بے گھر نہیں ہوں گے۔ کوئی الاٹی اپنا گھر‘ فلیٹ کمپنی کے علاوہ کسی اور کو نہ بیچ سکے۔ اگر فلیٹس تین منزلہ ہوں اور ان کا رقبہ 120 اور 250 مربع گز ہو تو ایک اندازے کے مطابق ایک فلیٹ کی لاگت پندرہ ہزار روپے فی مربع میٹر کے حساب سے لگ بھگ پچیس لاکھ روپے ہو گی۔ کمپنی ہر وہ طریقہ استعمال کرے جس سے تعمیری لاگت کم سے کم اور معیار انتہائی اعلیٰ ہو۔ اس مقصد کیلئے وہ تعمیرات کے تمام پہلوئوں میں سرکاری تجربہ گاہوں، تعلیمی اور فنی اداروں اور دوسرے ملکوں کی ریسرچز سے بھی فائدہ اٹھائے۔ کوئی ادارہ یا صوبائی حکومت اس کے کام میں رکاوٹ ڈالنے کی مجاز نہ ہو۔ کمپنی خود کوائف جمع کرے کہ وفاقی، صوبائی اور ضلعی حکومتوں کی کتنی زمین‘ کہاں کہاں پر خالی اور بے مقصد پڑی ہے۔ ساتھ ہی ملک گیر سروے کرایا جائے کہ مرکز اور صوبوں میں، ہر دیہات، قصبے، تحصیل اور شہر میں کتنے فیصد لوگوں کے پاس اپنے گھر ہیں، کتنے سرکاری‘ نیم سرکاری ملازمین گھر جیسی بنیادی سہولت سے محروم ہیں۔ ساتھ ہی وقت ضائع کیے بغیر سرکاری ملازمین کیلئے فلیٹس کی تعمیر بھی فوری شروع کر دی جائے جس کیلئے سارا سرمایہ وفاقی حکومت مہیا کرے اور صوبوں کو قومی مالیاتی کمیشن کے ذریعے دی جانے والی رقوم سے بھی یہ وضع کی جائے۔ بیرونِ ملک مقیم پاکستانیوں سے بہت سا سرمایہ قرض کے طور پر مل سکتا ہے۔
سٹیٹ بینک کی ایک رپورٹ کے مطابق اوور سیز پاکستانیوں نے 2007-08ء میں6.451 بلین ڈالر پاکستان بھیجے۔ 2018ء میں یہ رقم 21.19 بلین ڈالر تک پہنچ چکی تھی۔ اس کے بعد پی ٹی آئی حکومت میں اس میں مسلسل اضافہ ہوا اور 2021ء کے مالی سال میں یہ رقم 31.31 ارب ڈالر تھی۔ چند روز پہلے امریکہ میں پاکستانی ڈاکٹروں کی تنظیم نے ایک کھانے کی تقریب پر ایک ملین ڈالر خرچ کر ڈالے۔اسی تنظیم میں پاکستان میں اپنی پسندیدہ سیاسی جماعت کی حکومت بننے پر دس ارب ڈالر بھیجنے کا اعلان کیا تھا۔ بات صرف حکومت پر اعتماد کی ہے۔
ایک اندازے کے مطابق وفاقی حکومت کے ملازمین کی تعداد 3 لاکھ 90 ہزار کے لگ بھگ ہے۔ ان ملازمین کو حکومت مکان کے کرایہ کی مد میں ہر سال جو رقم ادا کرتی ہے اگر وہی انہیں گھر دینے کے منصوبوں پر لگائے تو چند ہی سال میں ہر ملازم کو ذاتی گھر مل سکتا ہے۔ ''اپنی رہائش سب کیلئے‘‘ کا آغاز کرتے ہوئے جرمنی کی طرز پر آبادی میں پانچ لاکھ سے زیادہ اضافے کی صورت میں نئے شہر اور نئے قصبے آباد کیے جائیں اور وہیں پر علاقائی سرکاری دفاتر ہوں۔ ایک رپورٹ کے مطابق ہر ضلعی حکومت کی پاس اس قدر اپنی اراضی‘ جسے نزول اراضی کہتے ہیں‘ موجود ہے کہ وہاں تمام سرکاری و نیم سرکاری ملازمین اور بے گھر افراد کو فلیٹس بنا کر دیے جا سکتے ہیں۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved