کسی بھی ملک کے تمام معاملات کی تفہیم میں آبادی کے اعداد و شمار غیر معمولی اہمیت کے حامل ہوتے ہیں۔ آبادی کے اعداد و شمار ہی سے اندازہ ہوتا ہے کہ ملک کس سمت جارہا ہے، کیا کرسکتا ہے اور کیا نہیں کرسکتا۔ ہر ملک چاہتا ہے کہ اُس کی ورک فورس زیادہ سے زیادہ توانا رہے۔ ساتھ ہی ساتھ ہر ملک یہ بھی چاہتا ہے کہ صحتِ عامہ کا معیار اِس قدر بلند ہو کہ لوگ کم سے کم بیمار پڑیں اور اوسط عمر قابلِ رشک حد تک زیادہ ہو۔ آبادی کے اعداد و شمار پر نظر رکھنے والے ادارے اور ماہرین ملک کے لیے منصوبہ سازی میں آبادی سے متعلق ہر حقیقت کو عمدگی سے بروئے کار لانے کی کوشش کرتے ہیں۔ آبادی میں کہیں بھی عدم توازن دکھائی دے رہا ہو تو اُسے دور کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ کسی بھی ملک کے لیے شرحِ پیدائش بھی بہت اہم ہوتی ہے۔ یہ زیادہ ہو تو منصوبہ سازی گڑبڑا جاتی ہے۔ یہ کم ہو تو منصوبہ ساز مشکل میں پڑ جاتے ہیں کہ مستقبل میں ورک فورس کیلئے لوگ کہاں سے آئیں گے۔ اموات کی شرح بہت زیادہ ہو تو حکومتوں کو شدید نکتہ چینی کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور اگر بہت کم ہو تو؟ ایسی حالت میں حکومت کو تنقید کا سامنا تو نہیں کرنا پڑتا مگر ہاں‘ پالیسیاں اور منصوبے تیار کرنے والوں کے دماغ کی چُولیں ضرور ہل جاتی ہیں۔
پاکستان کی آبادی 24 کروڑ سے زائد ہے۔ رقبے کے لحاظ سے یہ آبادی بہت زیادہ ہے۔ بعض ممالک نے اپنی اچھی خاصی زیادہ آبادی کو بھی اچھی طرح بروئے کار لاتے ہوئے خاصے ناموافق عامل کو موافق بنانے میں کامیابی حاصل کی ہے۔ چین اِس معاملے میں سب سے اچھی مثال کا درجہ رکھتا ہے۔ دن رات محنت کرنے کی عادت نے چینیوں کو دنیا بھر میں سب سے ممتاز کر رکھا ہے۔ چینی دنیا بھر میں جہاں بھی جاتے ہیں، محنت اور نظم و ضبط کے حوالے سے الگ ہی شناخت کے حامل ٹھہرتے ہیں۔ پاکستان جیسے ممالک چین، جنوبی کوریا، جاپان اور ملائیشیا وغیرہ سے بہت کچھ سیکھ سکتے ہیں۔ جاپان نے ثابت کیا ہے کہ رقبہ کوئی چیز نہیں۔ اگر کوئی قوم خود کو جدید ترین علوم و فنون میں شاندار مہارت کا حامل بنائے تو معیشت کو بلند کرکے دنیا بھر سے اپنی مرضی کی چیزیں منگوائی جاسکتی ہیں۔
ہر ملک اس بات کا شدید خواہش مند ہوتا ہے کہ صحتِ عامہ کا معیار انتہائی بلند رہے تاکہ قوم سکون سے جیے اور بیمار نہ پڑے۔ جاپان میں صحتِ عامہ کا معیار اِس قدر بلند ہے کہ اوسط عمر 84 سال سے زیادہ ہے! یہ تو بہت اچھی بات ہے کہ لوگ بیمار بھی کم پڑتے ہیں اور جیتے بھی زیادہ ہیں مگر یہی خوش کُن حقیقت جاپانی حکومت کے لیے سوہانِ روح ہوچکی ہے۔ کیسے نہ بنتی؟ ایک طرف ملک میں معمر افراد کی تعداد بڑھتی جارہی ہے اور دوسری طرف قومی خزانے پر اُن لوگوں کا بوجھ بھی بڑھتا ہی جارہا ہے جو ورک فورس کا حصہ نہیں۔ ریٹائرمنٹ کے بعد لوگ تیس‘ تیس سال تک پنشن وصول کر رہے ہیں۔ جاپان کی آبادی کہاں کھڑی ہے، آئیے ذرا اعداد و شمار کی مدد سے جائزہ لیتے ہیں۔
جاپان بھر میں 65 سال سے زائد عمر والے افراد کی تعداد ملک کی آبادی کا 29.1 فیصد ہے۔ ملک کی آبادی میں 80 سال یا اِس سے زائد عمر والوں کا تناسب اس وقت بلند ترین سطح پر ہے۔ ہر دس میں ایک جاپانی 80 سال سے زیادہ کا ہے۔ 75 سال یا اِس سے زائد عمر والوں کی تعداد 2 کروڑ تک ہے۔ 80 سال یا اِس سے زائد عمر والے ایک کروڑ 25 لاکھ ہیں۔ بوڑھوں میں کام کرنے والوں کی تعداد 91 لاکھ 20 ہزار تک ہے۔ یہ ترقی یافتہ ممالک میں بلند ترین شرح ہے۔ معمر افراد کی بڑھتی ہوئی تعداد سے جاپانی حکومت پریشان ہے۔ 60 سال کا ہونے پر ریٹائر ہونے کی صورت میں عام جاپانی اچھی خاصی صحت کا حامل ہوتا ہے یعنی اچھی طرح کام کرسکتا ہے۔ یہی سبب ہے کہ اب بڑھاپے کے کیریئر بھی سامنے آ رہے ہیں۔ صحتِ عامہ کے حوالے سے حوصلہ افزا کیفیت نے بوڑھوں کو بھی زیادہ کام کرنے کی تحریک دی ہے۔ جاپانی حکومت کے لیے معمر افراد کی بڑھتی ہوئی تعداد ہی پریشان کن نہیں‘ متواتر کم ہوتی ہوئی شرحِ پیدائش بھی ایک بڑا دردِ سر ہے۔ حالیہ تحقیق سے معلوم ہوا ہے کہ جاپان میں 18 سال سے زائد عمر کی 33 فیصد خواتین بانجھ پن کا شکار ہیں۔ نیشنل انسٹیٹیوٹ آف پاپولیشن اینڈ سکیورٹی ریسرچ نے بتایا ہے کہ 2005ء میں پیدا ہونے والی خواتین میں سے 33.1 فیصد میں اولاد پیدا کرنے کی صلاحیت نہیں۔
جاپان میں گرتی ہوئی شرحِ پیدائش اِتنا بڑا مسئلہ ہے کہ حکومت کو اس طرف زیادہ جوش و خروش کے ساتھ متوجہ ہونا پڑا ہے۔ جون میں جاپانی وزیراعظم فومیو کشیدا نے آبادی میں کمی کا دردِ سر ختم کرنے کے لیے اعلان کیا تھا کہ جو گھرانے تین یا زیادہ بچے پیدا کریں گے اُن کے لیے حکومت کی طرف سے خصوصی مالی اعانت کا اہتمام ہوگا۔ کیوڈو نامی ادارے کے ایک حالیہ سروے سے معلوم ہوا ہے کہ دو تہائی جاپانی اپنے وزیر اعظم کی بات پر یقین کرنے کو تیار نہیں۔ اُن کا خیال ہے آبادی بڑھانے کے لیے دی جانے والی تحریک کی یہ پالیسی زیادہ کامیاب نہیں ہوسکے گی۔ تحقیق سے بھی ثابت ہوتا ہے کہ جاپان میں چالیس سال سے شرحِ پیدائش مستقل گراوٹ کا شکار ہے۔ آبادی میں اضافے کے لیے حکومت کی طرف سے دی جانے والی تحریک اب تک خاصی غیر مؤثر رہی ہے۔ فاکس نیوز نے بتایا ہے کہ انسٹیٹیوٹ آف پاپولیشن اینڈ سکیورٹی ریسرچ مستقبل میں شرحِ پیدائش کے تعین کے لیے شادی کی عمر اور دیگر عوامل کو ذہن نشین رکھتا ہے۔ ادارے کے ڈائریکٹر پاپولیشن ڈائنامکس ریسرچ میہو ایواساوا کہتے ہیں کہ جاپان میں شادی بیاہ کے معاملات کی نوعیت ہی آبادی میں اضافے پر اثر انداز ہو رہی ہے۔ لوگ دیر سے گھر بسانے پر یقین رکھتے ہیں۔ بڑے شہروں میں زندہ رہنے کی قیمت اِتنی زیادہ ہے کہ لوگ گھر بسانے جیسا اہم فیصلہ موخر کرتے رہنے پر مجبور ہیں۔ حکومت اس حوالے سے قابلِ ذکر اقدامات نہیں کر رہی۔ ایک فلاحی ریاست کی حیثیت سے لوگوں کو نارمل زندگی بسر کرنے کے قابل بنانے کے لیے جو کچھ کیا جانا چاہیے وہ نہیں کیا جا رہا۔ لوگ دیر سے شادی اس لیے کر رہے ہیں کہ کیریئر بنانے اور اپنے پیروں پر کھڑا ہونے میں خاصا وقت لگتا ہے۔ بڑے اور درمیانے حجم کے شہروں میں بچے پالنا جُوئے شیر لانے کے مترادف ہوچکا ہے۔ نجی جامعات کی فیسیں بہت زیادہ ہیں۔ سرکاری سکولوں سے ہٹ کر کوئی بچہ پڑھے تو والدین کو آمدنی کا معتدبہ حصہ اِس کام میں کھپانا پڑتا ہے۔ ایسے میں لوگ زیادہ بچے پیدا کرنے کو ترجیح نہیں دیتے۔ حد یہ ہے کہ حکومت کی طرف سے مالی اعانت کی یقین دہانی کے باوجود لوگ اِس طرف نہیں آ رہے۔ معقول عمر میں گھر بسانے پر بھی خاطر خواہ توجہ نہیں دی جارہی۔ جاپان کی آبادی اِس وقت 12 کروڑ 61 لاکھ ہے۔ اگر آبادی میں اضافے کی شرح میں گراوٹ کا سلسلہ یونہی جاری رہا تو ماہرین کے اندازوں کے مطابق‘ 2070ء میں جاپان کی آبادی 8 کروڑ 70 رہ جائے گی!
آبادی کے معاملے میں جاپان کا مخمصہ بھی وہی ہے جو یورپ کا ہے۔ وہاں بھی لوگ گھر بسانے اور خاندان بنانے کو ترجیح نہیں دے رہے۔ اُن کے نزدیک بچے بوجھ ہیں اور عمر کا بہترین حصہ اُن پر ضائع نہیں کیا جاسکتا! یورپ کے بیشتر ممالک میں شرحِ پیدائش خطرناک حد تک گرچکی ہے۔ ورک فورس کے لیے شدید مشکلات پیدا ہو رہی ہیں کیونکہ اُس میں نیا خون کماحقہٗ شامل نہیں ہو پارہا۔ یورپ کی طرزِ زندگی ایسی ہے کہ لوگ بچوں کو ترجیحات میں سرِفہرست نہیں رکھتے۔ بیشتر خواتین ماں بننے کو بوجھ گردانتی ہیں۔ اُن کے نزدیک بچے پالنا اپنے وجود کو خوا مخواہ دردِ سر سے دوچار کرنا ہے۔ اور پھر صحتِ عامہ کے بلند معیار کی بدولت اوسط عمر بھی بڑھتی جارہی ہے۔ معمر افراد کی تعداد میں اضافہ قومی خزانے پر بوجھ بڑھا رہا ہے۔ جاپان اور یورپ کے مخمصے سے ہم بہت کچھ سیکھ سکتے ہیں۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ آبادی کو ہر اعتبار سے متوازن رکھنے کے لیے کیا کرنا چاہیے۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved