آذربائیجان کا ایک خوبصورت پہاڑی شہر قبا Qubaہے جسے گُبا بھی کہتے ہیں۔ باکو سے کم و بیش ڈھائی گھنٹے کی مسافت پر‘ جس کا بڑا حصہ بحیرۂ قزوین کے کنارے کنارے ہے۔ قبا شہر بھی خوش منظر ہے اور ارد گرد سرسبز مدوّر ڈھلانوں والی پہاڑیاں بھی۔ قبا سے دس منٹ کے فاصلے پر مجارا جھیل اور پہاڑی جنگل ہے جسے مقامی لوگ Macara Lake Park کہتے ہیں۔ آج 20ستمبر کو یہیں جھیل کنارے خوبصورت‘ پُرسکون اور آرام دہ ہوٹل نے اپنے خاموش سے گوشے میں مجھے بھی پناہ دی ہوئی ہے۔ تازہ ترین خبریں یہ ہیں کہ کل آذر بائیجان نے ''نگورنو کارا باخ ‘‘پر فوجی حملہ کیا ہے اور آرمینیائی نسل پرستوں کو یہ علاقہ خالی کرنے کا الٹی میٹم دیا ہے۔ علاقے کے دارالحکومت سٹیپنا کرٹ پر فضائی حملے کیے گئے ہیں۔ آرمینیا نے اپنی مدد کے لیے روس کو آواز دی ہے۔ یاد ہوگا کہ تین سال قبل آذر بائیجان اور آرمینیا کے بیچ اسی دیرینہ متنازع علاقے پر جنگ چھڑی تھی جس میں پاکستان نے اصولی مؤقف پر آذر بائیجان کا ساتھ دیا تھا۔ ترکی بھی آذر بائیجان کے ساتھ رہا۔ 2020ء کی جنگ میں آرمینیا سے کافی علاقہ چھینا گیا تھا اور آذر بائیجان غالب رہا تھا۔ بڑی طاقتیں خاص طور پر روس کا ردِ عمل تو فی الحال یہ ہے کہ لڑائی فوری بند کی جائے۔ فرانس اور دیگر عالمی طاقتوں نے بھی یہی کہا ہے لیکن یہ وہ سب باتیں ہیں جو بڑی طاقتیں ہمیشہ ایسے معاملات میں اختیار کرتی ہیں۔ نگورنو کارا باخ عالمی طور پر آذر بائیجان کا علاقہ ہے۔ پھر اس میں کوئی خود مختار حکومت کیسے قائم ہو سکتی ہے لیکن بڑی طاقتیں یہ جانتی ہیں کہ اس خطے میں عمل دخل کا یہ ایک راستہ ہے جو بند نہیں ہونا چاہیے۔ چنانچہ مسئلہ اصولی طور پر سلجھانے کے بجائے عارضی جنگ بندی ہی کی تجویز دی جاتی ہے۔ دوسری طرف آرمینیا میں حکومت کے خلاف پُر تشدد مظاہرے شروع ہو چکے ہیں اور حکومت پر سخت دباؤ ہے چنانچہ یہ ایک بڑی لڑائی کا آغاز بھی ہو سکتا ہے۔
گبالہ جسے قبالہ بھی کہا جاتا ہے‘ توفن داگ پہاڑ کے دامن میں ایک نہایت خوبصورت شہر ہے۔ ترکی میں ''داگ‘‘ پہاڑ کو کہتے ہیں اور آذر بائیجانی میں بھی اس لفظ کا یہی مطلب ہے۔ میں تین دن پہلے وہاں ایک روایتی ریستوران میں روایتی آذر بائیجانی کھانوں کے لیے گیا۔ ماحول سے ایسا لگتا تھا کہ الف لیلوی سرائے اور مطعم میں آگئے ہیں۔ وہاں بہروز نامی ایک ویٹر کو معلوم ہوا کہ میں پاکستان سے ہوں تو وہ نہایت خوش نظر آیا۔ مجھے حیرت ہوئی کہ اسے نہ صرف پاکستانی مؤقف کا علم تھا جو نگورنو کارا باخ کے معاملے میں پاکستان نے اپنایا ہے بلکہ وہ یہ بھی جانتا تھا کہ یہی معاملہ کشمیر کا بھی ہے۔ اس نے اپنے موبائل میں اپنے نوجوان کزن کی تصویر دکھائی جو تین سال پہلے آرمینیا سے جنگ میں شہید ہوا تھا۔ بہروز نے بتایا کہ اس کزن نے پاکستان میں اسلام آباد میں کافی وقت پاکستانی فوج کے ساتھ گزارا تھا اور وہ پاکستان کو نہایت پسند کرتا تھا۔
آذر بائیجان کوہ قاف کے ملکوں میں ایک عجیب اور مختلف ملک ہے۔ اگر روس کے بکھرنے کا عمل نہ ہوا ہوتا تو 1994ء کے بعد بھی آذر بائیجان روسی فیڈریشن ہی کا ایک حصہ ہوتا۔ روس سے علیحدگی کا فائدہ یقینا آذر بائیجان کو ہوا اور اس نے بعد میں کافی ترقی کی۔ روس کو اس علاقے کی تیل کی دولت کا بڑا فائدہ تھا جس سے وہ محروم ہو گیا۔ علیحدگی کے بعد بھی آذربائیجان نے کئی فوجی اور سیاسی انقلابات دیکھے۔ جو گھرانہ اس وقت حاکم ہے اس کی دوسری نسل اب ملک چلا رہی ہے اور ائیر پورٹ سے لے کر کئی اہم عمارتیں انہی کے ناموں سے منسوب ہیں۔
کہتے ہیں آتش پرستی اور زرتشتی مذہب نے آذر بائیجان میں جنم لیا تھا۔ اہور مزدا اس مذہب کی سب سے بڑی آسمانی طاقت ہے۔ یزداں نیکی کا خالق اور اہرمن شر کا‘ برائی کا خالق ہے۔ میں بہت اچھی طرح تو نہیں جانتا لیکن شاید اس مذہب میں تین خدا پوری کائنات کو چلانے والے ہیں۔ زرتشت سے منسوب مقدس کتاب ''آوستا‘‘ اور زرتشتی تعلیمات تو اب تاریخ کا حصہ ہیں لیکن وہ آتش کدے جنہیں معبد کی حیثیت حاصل رہی ہے‘ اب عجائب گھروں کی صورت میں موجود ہیں۔ اگر ان جگہوں کی بات نہ کی جائے جو مصنوعی طریقے سے آتش گاہیں بنائی گئی ہیں اور دراصل سیاحوں کو بیوقوف بنانے اور پیسے اینٹھنے کے ذریعے ہیں تو اصل آتش گاہیں کم کم ہی رہ جاتی ہیں۔ ایسا ہی معبد باکو کے قریب موجود ہے۔ یہ اصل میں تو آتش گاہی معبد ہے لیکن اس میں گھومتے ہوئے میں نے حیرت سے دیکھا کہ ایک حجرے میں ہندو دیوتا گنیش کی مورتی اور مندر بھی موجود تھا۔ اس میں کیا ربط ہے‘ سمجھ نہیں آیا لیکن یہ تو علم ہے کہ ہندو مذہب میں بھی آگ کو تقدیس حاصل ہے اور جنوبی ہند میں کچھ دراوڑی قومیں اب تک آگ کی پوجا کرتی ہیں۔
تین زبانوں نے مل کر آذر بائیجان کا لسانی منظر نامہ تخلیق کیا ہے۔ ترکی‘ فارسی اور روسی۔ یہی تینوں طاقتیں آذر بائیجان کی تاریخ میں حاکم رہی ہیں۔ انگریزی زبان یہاں بڑا مسئلہ ہے اور یہ مسئلہ چھوٹے بڑے سب شہروں میں ہے۔ اگر آپ سیاحت کے لیے آذر بائیجان آنا چاہتے ہیں تو یہ جان لیجیے کہ ہر اس ملک کی طرح جہاں سیاحت آمدنی کا بڑا ذریعہ ہے‘ یہاں بھی سیاحوں سے پیسے ٹھگنے کے نت نئے طریقے ہیں۔ رینٹ اے کار والے عام طو رپر یہ دھوکہ دیتے ہیں کہ انگریزی جاننے والا ڈرائیور دیا جائے گا لیکن ان ڈرائیوروں کو یس اور نو سے زیادہ انگریزی نہیں آتی‘ آ پ ان کی بات نہ سمجھ سکتے ہیں‘ نہ انہیں کچھ سمجھا سکتے ہیں۔ ہمیں بھی ایک سفر میں جس ڈرائیور سے واسطہ پڑا وہ نہ صرف انگریزی نہیں جانتا تھا بلکہ اتنا چالاک بھی تھا کہ کسی کے ذریعے آذربائیجانی میں کہی گئی بات کو سمجھنے سے انکار کر دے۔ ان لوگوں کو اس سے کوئی غرض نہیں ہوتی کہ آپ مہینوں پروگرام بنا کر چند دن کے لیے آذر بائیجان آئے ہیں اور اہم چیزیں دیکھنا چاہتے ہیں۔ آپ کچھ بھی کہتے رہیں‘ یہ اپنے حربے اختیار کرکے ہی دم لیتے ہیں۔ مجھے بھی بے شمار ملک اور شہر گھومنے کا موقع ملتا رہا ہے اور مجھے اندازہ ہے کہ ان جگہوں پر مقامیوں کی نظریں سیاحوں کی جیبوں پر ہوتی ہیں۔ آذر بائیجان اگرچہ تیل اور گیس سے مالا مال ملک ہے اور اس کی کرنسی منات بھی خاصی مضبوط ہے یعنی آج کی تاریخ میں 175پاکستانی روپے کا ایک منات۔ لیکن بڑے شہروں اور سیاحتی مراکز سے نکل کر خاصی غربت نظر آتی ہے۔ چھوٹے چھوٹے گھر اور فلیٹ۔ ہوٹلوں‘ ریستورانوں میں کام کرتی جوان اور ادھیڑ عمر عورتیں اور مرد۔ شہروں سے باہر نکل کر تیل اور گیس فیلڈز بھی بکھرے ہوئے نظر آتے ہیں۔ لوگ نہ صرف یہ کہ خوبصورت اور صحت مند ہیں بلکہ ان کے چہروں پر غربت بھی نظر نہیں آتی۔ سیاحت پر بہت زور دیا گیا ہے اور ایسی اکثر سہولیات فراہم کی گئی ہیں جو سیاحوں کی ضرورت ہوا کرتی ہیں۔ لیکن مجھے حیرت ہوئی کہ ملک میں ٹرین اور پبلک ٹرانسپورٹ کا نظام یا تو ہے ہی نہیں یا بے حد ناقص ہے۔ شہروں کے اندر ہو یا دیگر شہروں کے بیچ‘ پبلک ٹرانسپورٹ ایک نہایت مشکل کام ہے جسے اختیار کرنا جان جوکھوں کا کام ہے۔
اس ملک کی لیکن جو نہایت اچھی باتیں نظر آئیں ان میں ایک صفائی کا نہایت اچھا نظام ہے۔ کسی شہر‘ کسی قصبے‘ کسی سڑک‘ کسی ریستوران میں گندگی اور کوڑے کے ڈھیر نظر نہیں آتے۔ مجھے تو آذر بائیجان میں گھومتے ہوئے یہی لگتا رہا کہ نظامی‘ گنجوی‘ سعدی‘ حافظ اور خیام کی نفاست‘ خوشبو اور سلیقہ اس ملک کی روح میں ہے۔ اور ہوتا بھی کیوں نہیں۔ ایران اور آذر بائیجان کی موجودہ سرحدیں اس مشترکہ مہک کو مٹا تھوڑی سکتی ہیں جو صدیوں تک اس خطے کی ہواؤں میں شامل رہی ہے اور اب تک ہے۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved