بجلی کا مسئلہ گمبھیر ہونے کی وجہ سے وزیراعظم میاں نواز شریف پر دباؤ بڑھ رہا تھا۔ بالآخر بڑی منتوں ترلوں کے بعد کابینہ اجلاس بلانے پر رضا مندی ظاہر کی گئی۔ میاں نواز شریف کو کابینہ اجلاسوں سے کبھی دلچسپی نہیں رہی۔ چوہدری نثار علی خان نے ایک دفعہ مجھے بتایا تھا کہ بہت عرصہ گزر گیا تھا کابینہ اجلاس کو منعقد ہوئے کہ ان کے پاس چند وزیر آئے اور کہا کہ بہت اہم ایجنڈے کابینہ کے پاس پڑے ہیں‘ اہم فیصلے رکے ہوئے ہیں کیونکہ میاں نواز شریف کابینہ اجلاس نہیں بلا رہے۔ آپ سینئر وزیر ہیں‘ آپ میاں صاحب سے بات کریں اور اجلاس بلوائیں تاکہ ہم اپنی وزارتوں کے رُکے ہوئے فیصلے کرا سکیں۔ چوہدری نثار علی خاں کے پاس یکے بعد دیگرے آنے والے وزیر اپنی مایوسی اور غصے کا اظہار کرتے رہے کہ ہم کیسے ملک چلا رہے ہیں‘ چھ چھ ماہ تک کابینہ کا اجلاس ہی نہیں ہو رہا۔ وزرا کا غصہ دیکھ کر چوہدری نثار نے نواز شریف صاحب سے کہا کہ کابینہ اجلاس رکھ لیں۔ نواز شریف راضی ہو گئے کہ چلیں چوہدری صاحب آپ کہتے ہیں تو کابینہ اجلاس بلا لیتے ہیں۔ خیر جس دن اجلاس ہوا اس دن چوہدری نثار کو لگا آج کابینہ اجلاس میں بڑا فائر ورک ہوگا۔ آج سب وزیر کھل کر غصے کا اظہار کریں گے اور نواز شریف صاحب کو کھری کھری سنائیں گے لیکن اُس وقت چوہدری نثار کی حیرانی کی کوئی انتہا نہ رہی جب وہی وزیر جو غصے سے بھرے ان کے پاس آئے تھے‘ وہی اب بڑھ چڑھ کر میاں نواز شریف کی خوشامد کر رہے تھے۔ چوہدری نثار سے صبر نہ ہوا اور وہ بول پڑے کہ جتنی خوشامد وزیراعظم کی ہورہی ہے‘ بہتر ہے ایک قانون پاس کر کے آج سے خوشامد کو قانونی درجہ دے دیا جائے۔
اس فقرے پر کابینہ اجلاس میں سناٹا چھا گیا۔ میاں نواز شریف کو چوہدری نثار علی خاں کی یہ بات بہت بری لگی کہ جب ان کی تعریفوں کے پل باندھے جارہے تھے تو وہ کیوں درمیان میں بول پڑے اور اتنا سخت جملہ خوشامدیوں بارے کہہ دیا۔ بعد میں نواز شریف نے گلہ کیا کہ چوہدری صاحب آپ یہ بات مجھے بعد میں بھی کہہ سکتے تھے‘ اجلاس میں کہنے کی کیا ضرورت تھی۔ لیکن چوہدری نثار کو زیادہ غصہ ان وزیروں پر تھا جنہوں نے پہلے ان کے پاس آکر کابینہ اجلاس نہ ہونے پر غصہ کیا اور اجلاس بلوانے کی درخواست کی۔ اب جب ان کی کوشش سے اجلاس ہورہاتھا تو وہی وزیر نواز شریف سے یہ پوچھنے کے بجائے کہ اتنے ماہ وہ کیوں کابینہ اجلاس نہیں بلاتے‘ الٹا خوشامدوں میں لگ گئے تھے۔ چوہدری نثار کو لگا شاید انہیں ان وزیروں نے استعمال کر کے وہ کابینہ اجلاس بلوا لیا جس کا مقصد سمریاں یا فیصلوں کی منظوری لینا نہیں بلکہ خوشامد کر کے نواز شریف کے قریب ہونا اور خود کو ذاتی وفادار ثابت کرنا تھا۔
خیر اب وہی صورتحال تھی۔ جب سب وزیر بجلی کے مسائل پر واٹر اینڈ پاور کے وزیر پر گولہ باری کر رہے تھے اور سب کا رُخ خواجہ آصف کی طرف تھا۔ جب میاں نواز شریف نے بھی اپنا رخ خواجہ آصف کی طرف کیا کہ جواب دیں ان سوالات کے۔ خواجہ آصف نے خود پر قابو پانے کی کوشش تو کی لیکن وہ ہمیشہ جارحانہ مزاج کے انسان رہے ہیں جو زیادہ دیر تک کسی کا رعب برداشت نہیں کر سکتے‘ اس لیے وہ سیدھے ہو گئے۔ انہوں نے کابینہ اجلاس میں کہا کہ جناب وزیراعظم سب سوالات کا جواب مجھ اکیلے سے مانگا جارہا ہے کیونکہ میں وزیر پانی و بجلی ہوں۔ سب وزیروں کی تنقید کا رخ میری طرف ہے لیکن میں اکیلا تو وزارتِ پانی و بجلی نہیں چلا رہا۔ اگر میں اکیلا چلا رہا ہوتا تو پھر آپ لوگوں کا مجھ سے پوچھنا بنتا تھا۔ پانچ طاقتور لوگ اور بھی ہیں جو میری وزارت چلا رہے ہیں اور ان کے کارناموں کا جواب بھی مجھ سے مانگا جارہا ہے۔ کابینہ میں خاموشی چھا گئی کہ وزرا سمجھتے تھے کہ شاید خواجہ آصف ہی اپنی وزارت چلا رہے ہیں لیکن یہاں تو کہانی کچھ اور نکلی۔
سب کی آنکھیں خواجہ آصف پر لگی ہوئی تھیں کہ وہ کون سے پانچ نام بتاتے ہیں جنہوں نے خواجہ آصف جیسے تگڑے وزیر کی وزارت پر قبضہ جما لیا تھا اور وہ بے بسی کی تصویر بنے بیٹھے تھے۔ خواجہ صاحب نے کہا کہ جناب میری وزارت اس وقت سب سے پہلے تو پنجاب کے وزیراعلیٰ میاں شہباز شریف چلا رہے ہیں۔ ان کے بعد میری وزارت کا کنٹرول ان کے صاحبزادے حمزہ شہباز کے پاس ہے۔ تیسرے نمبر پر جناب مصدق ملک صاحب ہیں‘ وہ بھی میری وزارت پر ہاتھ صاف کرتے رہتے ہیں۔ خواجہ صاحب نے بولنا جاری رکھا۔ کابینہ اراکین حیرانی سے خواجہ صاحب کو سن رہے تھے کیونکہ جن لوگوں کے وہ نام لے رہے تھے وہ عام نہیں تھے۔ خواجہ آصف نے کہا کہ بات انہی تین لوگوں پر ختم نہیں ہوتی‘ ان تین کے علاوہ دو لوگ اور بھی ہیں جو ان کی وزارت کے کرتا دھرتا ہیں۔ چوتھے نمبر پر ان کے وزیر مملکت عابد شیر علی ہیں۔ وہ بھی صاف ظاہر ہیں وزیر مملکت ہونے کی وجہ سے وزارت پر جائز حق رکھتے ہیں۔ اب سب انتظار کررہے تھے کہ خواجہ آصف پانچواں نام کون سا بتائیں گے۔ خواجہ صاحب نے آخر وہ نام لے دیا اور کہا کہ جناب ایک اور صاحب بھی ہیں جن کا میری وزارت پر حکم چلتا ہے اور وہ ہیں لاہور کے ایک بینک کے مالک جن کے اپنے پاور پلانٹس بھی ہیں۔ خواجہ صاحب بولے اب بتائیں جب پانچ لوگ وہ اور چھٹا میں ایک وزارت کو چلائیں گے تو وزارت میں کیا کیا ہڑبونگ مچے گی۔ اس کا اندازہ لگانا کوئی مشکل نہیں ہونا چاہیے۔ وزارتِ پانی و بجلی چلاتے چھ لوگ ہیں کو لیکن اس وقت جواب طلبی مجھ اکیلے سے کی جارہی ہے اور سب لوگ مجھ سے ناراض ہیں۔ میں یہ بات اب باہر میڈیا یا اسمبلی میں نہیں کہہ سکتا کہ وزارت میں نہیں چلا رہا۔
خواجہ آصف کی کھری کھری باتیں سن کر سب خاموش ہو گئے۔ نواز شریف نے کچھ دیر سوچا اور پھر خواجہ آصف کو دیکھ کر بولے کہ خواجہ صاحب سوال یہ بھی تو ہے کہ آپ اتنے سارے لوگوں کو اپنی وزارت میں مداخلت کا موقع کیوں دے رہے ہیں۔ میں نے وزیر آپ کو بنایا ہے تو یہ آپ کی وزارت ہے‘ اسے آپ چلائیں اور اس کی ذمہ داری لیں‘ آپ کسی کو مداخلت نہ کرنے دیں۔ اگرچہ بات تو وزیراعظم میاں نواز شریف کی ٹھیک تھی کہ خواجہ آصف نے کیوں پانچ لوگوں کو اجازت دے رکھی تھی کہ وہ ان کی وزارت کا کنٹرول سنبھال لیں اور وہ ڈمی بن کر خاموشی سے ایک طرف بیٹھ کر تماشا دیکھتے رہیں۔ لیکن خواجہ آصف کیسے وزیراعظم کے بھائی کو‘ جو پنجاب کا وزیراعلیٰ بھی تھا‘ روک سکتے تھے یا وزیراعظم کے سگے بھتیجا حمزہ شہباز کو... اوپر سے تگڑا لاہوری بزنس مین مداخلت کررہا تھا اور چین سے بجلی کے منصوبوں میں پیش پیش تھا جس کے بارے مشہور تھا کہ وہ شریف خاندان کا کاروباری پارٹنر اور ان سب کا بہت لاڈلا تھا۔ خواجہ آصف سے بہتر کون جانتا تھا کہ ان صاحب سے پنگا لینا مناسب نہیں تھا۔
یہ لاہور کے بزنس مین وہی صاحب تھے جنہیں وزیراعظم میاں نواز شریف جولائی 2013ء میں چین کے پہلے دورے پر اپنے ساتھ لے گئے تھے اور آنے والے دنوں میں سی پیک کے تحت جو پاور یا کوئلے کے پلانٹس لگنے تھے‘ اس میں ان کا اہم رول ہونا تھا۔ یہ سوال بھی اہم تھا کہ آخر شہباز شریف اور حمزہ شہباز کو کوئلے کے پلانٹس میں کیا دلچسپی تھی کہ انہوں نے چینیوں سے براہِ راست ڈیل کرنے کے لیے خواجہ آصف کی وزارت پر بھی قبضہ کر لیا تھا۔ یہ راز اس وقت کھلا جب ساہیوال اور کراچی میں کوئلے کے پلانٹس لگنے کا منصوبہ سامنے آیا جس میں شریف خاندان کے بچوں‘ نیپرا افسران کے علاوہ دو بیوروکریٹس کا بھی اہم رول تھا۔ ساہیوال اور کراچی کے کوئلہ پاور پلانٹس پر لمبے کھیل کی تیاری شروع ہو چکی تھی۔ خواجہ آصف کو سب کھیل کا علم تھا لیکن وہ چپ تھے۔ (جاری)
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved