خواجہ آصف صاحب جو ہماری سولہ ماہی حکومت میں وزیر دفاع تھے‘ سے کئی دلچسپ فقرے منسوب ہیں۔ کچھ تو ایسے تھے کہ پاکستان کی نصف سے زیادہ آبادی سراپا احتجاج بن گئی۔ کئی تقاریر‘ بیانات اور ٹی وی شوز میں ان کی شیریں کلامی کی گھن گرج سنائی دیتی رہی۔ ہماری سیاست آزاد‘ لوگ آزاد منش‘ معاشرہ بے مہار ہے‘ تو ہم کسی بڑے سیاست دان کے طرزِ تکلم کے بارے میں کیا کہہ سکتے ہیں۔ موصوف کا ایک فقرہ مجھے پسند ہے جو دہرا دیتا ہوں: ''کوئی شرم ہوتی ہے‘ کوئی حیا ہوتی ہے‘‘۔
موج میلوں کی سیاست میں ہم نے بار ہا دیکھا کہ یہ دونوں انسانی رویے ہوا میں تحلیل ہو کر غائب ہو جاتے ہیں۔ آپ نے بھی دنیا دیکھی ہے‘ پاکستان میں رہتے ہیں‘ گزشتہ پانچ برسوں کے اندر آپ تیسری حکومت کو پھلتا پھولتا دیکھ رہے ہیں اور انہیں بھی جو ایک دور میں ایک سیاسی جماعت کے بااعتماد اور پھرتیلے کل پرزے تھے۔ ان کی پھرتیوں اور کچھ میدانوں میں وسیع تجربے کی بنیاد پر کمپنیوں اور محکموں کی سربراہی سے ترقی دے کر وفاقی کابینہ کا رکن بنا دیا گیا ہے۔ موج میلوں کا سامان ایسے ہی کیا جاتا ہے۔ دیکھ لیں کہ ان کی قومی خدمت کے پرانے تجربے کی بنیاد پر کون سی ذمہ داریاں سونپی جارہی ہیں۔ اب کہانیاں سامنے آئیں یا نہ آئیں‘ بنیں یا نہ بنیں لیکن ماضی کے تناظر میں سب دیکھ سکتے ہیں۔ موج میلے والوں کو دکھائی دے یا نہ دے۔
بات موج میلوں کی ہو رہی ہے تو سوچیں کہ ملک کن شدید بحرانوں سے گزر رہا ہے اور ہمارے نگران وزیراعظم صاحب اپنے لاؤ لشکر کے ہمراہ اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی سے خطاب فرما رہے ہیں۔ جب حیثیت غیر نمائندہ ہو‘ فقط نگرانی کی ذمہ داری ہو اور مسائل کا انبار سامنے ہو تو ایسے میں یہ دورے فضول خرچی کے زمرے میں آتے ہیں۔ ہمارا خیال تھا کہ محترم انوار الحق کاکٹر صاحب اقتدار کے گھوڑے پر سوار ہوں گے تو شاید ہماری سمت تبدیل ہو جائے گی۔ ہم بھی عجیب و غریب سوچ کی قید میں رہتے ہیں۔ ہر آنے والے سے بہتری کی امیدیں باندھ لیتے ہیں۔ پھر مایوسی کے گہرے سائے اپنی دبیز چادر پوری قوم پر تان دیتے ہیں۔
مایوسی گزشتہ چند دنوں سے ہمیں تو اندر سے کرچی کرچی کر رہی ہے۔ زخم ہی زخم ہیں۔ آہوں کے سوا کچھ نہیں۔ عمار فاروق کے بارے میں پڑھا تو ایسے لگا جیسے دل کی دھڑکن تھم گئی ہے۔ ایک دفعہ خیال آیا کہ اب دل رک ہی جائے تو بہتر ہے۔ ظلم کے ساتھ سمجھوتا کیسے کیا جا سکتا ہے۔ رات کی تاریکی میں گھر کے اندر گھس کر کسی بھی بچے کے سامنے اس کے والدین کو گرفتار کرنا‘ اس روتے بلکتے بچے پر بہت بھاری گزرے گا۔ والدین جیل میں اور وہ بچہ ایک ہسپتال سے دوسرے ہسپتال میں مہینوں زیر علاج رہا اور آخر یہ ننھی جان موج میلوں کی اس ظالم دنیا سے کسی اور دنیا کی طرف پرواز کر گئی۔ سوچتا ہوں کہ اس ماں پر کیا گزری ہوگی‘ اور نہ جانے کب تک گزرتی رہے گی۔ دعا اور صبر کے علاوہ وہ کر ہی کیا سکتی ہے‘ اور ہم تو اس قابل بھی نہیں کہ ان المیوں کے حوالے سے خواجہ آصف کا دانشمندانہ فقرہ بھی دہرا سکیں۔
مایوسی تو اس لیے بھی ہے کہ اگر کسی زندہ معاشرے اور زندہ سیاست کے دور میں ایسے المیے رونما ہوتے جو آج تواتر سے ہو رہے ہیں تو لوگ سراپا احتجاج باہر نکل آتے۔ ہمارے ضمیر زندہ ہوتے تو کچھ بیانات ہی سامنے آجاتے۔ خاموشی ہی خاموشی ہر طرف چھائی ہوئی ہے۔ ہزاروں سوگواروں نے رات کی تاریکی میں آنسوؤں اور سسکیوں میں ننھے عمار کو رخصت کیا۔ کاش ہم بھی وہاں ہوتے۔ سوچتا ہوں کہ زمانہ کتنا بدل گیا ہے کہ عدل و انصاف کے دروازے جو کبھی آدھی رات کو کھلے تھے اب بند تو نہیں ہوئے مگر ہو سکتا ہے کہ ترجیحات بدل گئی ہوں۔ ہمیں موج میلے کے رسیا سیاست دانوں اور ان کے گماشتوں سے نہ کبھی کوئی امید تھی اور نہ اب ہے مگر انصاف کے اداروں کی طرف تو ہماری نظریں اٹھتی رہیں گی کہ ظلم کی تاریکیوں میں قومیں انصاف کے لیے ہی پکارتی ہیں۔
موج میلے جو ہم نے شہباز شریف دور میں دیکھے ہیں‘ شاید ہی پھر کبھی دیکھنا نصیب ہوں۔ اس لیے ہم خوشی خوشی ایک طویل عرصے تک اپنی یادوں کی دنیا بسائے رکھیں گے۔ وہ بھی کیا زمانہ تھا‘ لوگ بھوکے مر رہے تھے‘ قرض دار خود کشیوں پر مجبور‘ کسان اجڑا ہوا‘ مزدور بیکار‘ مہنگائی تاریخ کی بلندترین سطح پر‘ بجلی اور گیس کی قیمتوں کی ایسی اُڑان کہ سب پرانے زمانے ہم بھول گئے‘ قرضوں کی قسطیں دینے اور روپے کو سہارا دیے رکھنے کے لیے عرب دوستوں کے سامنے کشکول لیے‘ ہاتھ جوڑے کھڑے رہے مگر وزیراعظم صاحب کی کابینہ دنیا کی سب سے بڑی کابینہ تھی۔ تعداد میں متواتر اضافہ ہوتا رہا جس میں تقریباً 80کے قریب وزیر‘ مشیر اور پھر مشیروں کے مشیر شامل تھے۔ خواجہ آصف صاحب کا فقرہ دہرانے کی ضرورت نہیں مگر دل پرچوٹ لگتی ہے تو بے ساختہ زبان پر آہی جاتا ہے۔
دوسروں کے بارے میں کیا کہیں‘ اعدادوشمار سب کے سامنے ہیں۔ سابق وزیر خارجہ نے سولہ ماہ میں 55 مرتبہ سرکاری جہاز میں دنیا کے مختلف ممالک کی طرف اُڑان بھری۔ ہو سکتاہے کہ یہ اعداد و شمار کم یا زیادہ ہوں کہ وزارتِ خارجہ دوسری وزارتوں کی طرح ان دوروں کو ریاستی راز سمجھ کر شکی مزاج عوام کو کچھ بتانا نہیں چاہتی۔ خود شہباز شریف صاحب نے کتنے دورے فرمائے۔ تعزیت کے لیے بھی سرکاری جہاز اور پروٹوکول کے ساتھ گئے۔ دنیا میں کہیں ایسا ہوتا ہے کہ کسی گئے گزرے ملک کا وزیراعظم بھی سرکاری لبادے میں تعزیت کے لیے جاتا ہو۔ موج میلے تھے۔ اور پھر جاتے جاتے وہ کئی تحفے وطنِ عزیز کو دے کر گئے ہیں۔ دروغ بر گردنِ راوی‘ مگر راوی خود ان کی جماعت سے ہیں کہ ہر ایک اپنے ایم این اے کو ایک ایک ارب روپے اپنے حلقوں میں ترقیاتی منصوبوں کے لیے دے کر گئے ہیں۔ ہم ابھی تک نجی بجلی گھروں کے ساتھ معاہدوں کا رونا روتے رہے۔ اس بارے میں رؤف کلاسرا صاحب نے جس محنت اور جان کاری سے ہوش ربا انکشافات کا انبار ہمارے سامنے رکھا ہے‘ وہ بھی ذہن میں رکھیں۔ آخری مہینوں میں دو ایسے اور معاہدے وہ نجی کمپنیوں کے ساتھ کرکے رخصت ہوئے ہیں۔ رخصت ہوئے ہیں؟ یہ میں نے کیا کہہ دیا؟ بس جناب چھٹی پر ہیں اور اپنے بااعتماد ساتھیوں کو قومی مفادات کا تحفظ کرنے کے لیے وقتی طور پر اقتدار کی کنجیاں دے گئے ہیں۔
حکمرانوں کے موج میلے دیکھتے ہوئے ہماری زندگیاں گزر گئی ہیں۔ اب یہ نظارے دیکھ کر عوام تھک چکے ہیں‘ وہ بے حال نظر آتے ہیں۔ اس گھمنڈ میں پانی کہیں سر سے نہ گزر جائے۔ یہ سوچتے ہوئے میرا دھیان عمار کی طرف لوٹ جاتا ہے۔ بچپن میں بیمارہوتا تو ماں کو بہت یاد کرتا تھا۔ اب اس عمر میں کبھی کوئی پریشانی لاحق ہو جائے تو ماں کو یاد کرتا ہوں کہ دکھوں میں ان کی یاد مرہم ثابت ہوتی ہے۔ کاش ایسا ہی ہوتا کہ عمار کے آخری لمحات میں اس کے والدین اس کے ساتھ ہوتے۔ مجھے یقین ہے کہ اس نے آوازیں تو دی ہوں گی۔ عمار کی والدہ میرے حقیر آنسوؤں کا نذرانہ قبول فرمائیں۔ اللہ آپ کو ہمت اور صبر دے ۔ ہمیں صرف اس دن کا انتظار ہے جب انصاف ہوگا۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved