دنیا کے امیر ترین انسان کا اعزاز پانے والے بل گیٹس کے حوالے سے ایک جملہ بہت مشہور ہے کہ کوئی غریب پیدا ہوا ہے تو اِس میں اُس کا کوئی قصور نہیں لیکن اگر وہ غریب مرا تو قصور وار وہی ہوگا۔ بات سولہ آنے درست ہے۔ انسان کسی بھی ماحول میں پیدا ہوسکتا ہے۔ اس معاملے میں وہ مجبورِ محض ہے؛ البتہ اُس ماحول کو سمجھنے کے بعد اُسے اپنائے رہنا یا ٹھکرانا مکمل طور پر انسان کے اپنے بس میں ہوتا ہے۔ اس معاملے میں انسان یہ بہانہ نہیں گھڑ سکتا کہ قدرت نے اُسے کسی بھی نوع کا اختیار بخشا ہی نہیں۔ کوئی بھی انسان اپنے حالات بدل سکتا ہے۔ ہاں‘ اِس میں وقت بھی لگتا ہے اور محنت بھی بہت کرنا پڑتی ہے۔ قدرت کسی کی محنت ضائع نہیں کرتی۔ اگر کوئی اپنے کاز یعنی بنیادی مقصد سے مخلص ہو اور کسی کی حق تلفی نہ کرتا ہو تو جاں فشانی کا صلہ یوں ملتا ہے کہ کبھی کبھی تو اپنی آنکھوں پر یقین نہیں آتا۔
انسان ہمیشہ خوش حال نہیں رہتا۔ حالات پلٹ جائیں یعنی ناموافق ہو جائیں تو مالی مشکلات بھی درپیش ہوتی ہیں اور انسان افلاس کے گڑھے میں گر سکتا ہے۔ افلاس ایسی کیفیت ہے جو سوچنے، سمجھنے کی صلاحیت پر بہت بُری طرح اثر انداز ہوتی ہے۔ افلاس انسان سے اعتماد بھی چھین لیتا ہے۔ جب جیب خالی ہو تو انسان کو ذہن بھی خالی خالی سا محسوس ہوتا ہے۔ یہ بالکل فطری امر ہے۔ ہاں‘ افلاس کے شدید مضر اثرات سے اپنے آپ کو بچانا انسان پر لازم ہے۔ اس فرض سے بطریقِ احسن سبکدوش ہونے کی صورت ہی میں انسان اپنی نظر میں بلند ہوتا ہے اور دنیا کی نظروں میں بھی قابلِ احترام ٹھہرتا ہے۔
افلاس چونکہ عالم گیر معاملہ ہے اس لیے اِس کے حوالے سے ہر قوم، ہر معاشرے میں مختلف تصورات پائے جاتے ہیں۔ افلاس بھلا کس کو پسند ہوسکتا ہے؟ کوئی بھی انسان افلاس کو کسی حال میں پسند نہیں کرتا۔ یہ فطری امر ہے۔ ہر انسان چاہتا ہے کہ اُس کے پاس اِتنا ہو کہ کچھ سوچنا نہ پڑے۔ افلاس کے گرداب میں پھنسنے کے بعد انسان اپنی قابلیت اور توانائی دونوں کو بروئے کار لانے کے معاملے میں شدید بے اعتمادی کا مظاہرہ کرتا رہتا ہے اور اس معاملے میں اُس کا بُودا پن بھی نمایاں ہوتا ہے۔ اِس بُودے پن ہی پر تو قابو پانا ہوتا ہے۔ افلاس کے چنگل میں پھنسا ہوا انسان بہت کچھ ہوتے ہوئے بھی کچھ نہیں ہوتا۔ وہ بہت کچھ کرنا چاہتا ہے مگر کر نہیں پاتا۔ اُسے قدم قدم پر مختلف حوالوں سے خوف لاحق رہتا ہے۔ افلاس کے ساتھ خوف نہ ہو‘ ایسا ہو ہی نہیں سکتا۔ ہر طبقے، سطح اور درجے کا انسان افلاس سے ڈرتا ہے۔
کیا مفلس ہونا جرم ہے؟ کسی بھی طور نہیں مگر کچھ لوگ اپنی طرزِ فکر و عمل کے ہاتھوں اپنے مفلس ہونے کو جرم کے زمرے میں داخل کردیتے ہیں۔ پس ماندہ اور ترقی پذیر معاشروں میں انتہائی افلاس سے دوچار افراد عمر کا بڑا حصہ افلاس سے نجات پانے کی کوشش میں کھپادیتے ہیں۔ افلاس سے لڑنا اور اُس پر فتح پانا کسی بھی اعتبار سے ناممکن نہیں مگر یہ سب کچھ محض کہنے سے نہیں ہو جاتا۔ اِس کے لیے سوچنا پڑتا ہے، منصوبہ سازی کرنا پڑتی ہے اور اِس سے بھی بڑھ کر ذہن کو لڑنے کے لیے تیار کرنا پڑتا ہے۔ افلاس سے محض نپٹنا نہیں ہوتا بلکہ بھرپور قوت کے ساتھ اُس سے لڑ کر اُس پر فتح حاصل کرنا پڑتی ہے۔ افلاس سے نجات پانے کا اور کوئی طریقہ نہیں۔
افلاس کے بارے میں بہت سے ایسے تصورات پائے جاتے ہیں جنہیں کسی بھی اعتبار سے پسندیدہ قرار نہیں دیا جاسکتا۔ جو افلاس کو بھگت رہا ہو وہی جانتا ہے کہ یہ کیا بلا ہے۔ بہت سوں کو دوسروں کی پریشانی دیکھ کر محض خوش ہونے اور تبصرے کرنے کی عادت سی پڑ جاتی ہے۔ مشورے دینے کے نام پر وہ محض طنز کر رہے ہوتے ہیں اور اُن کی کوشش بنیادی طور پر یہ ہوتی ہے کہ کسی نہ کسی طور فریقِ ثانی کا حوصلہ ٹوٹ جائے اور وہ مشکلات میں مزید گھر جائے۔ یہ عادت پختہ ہو جائے تو انسان سفاکی کی حد تک دوسروں کا بُرا چاہنے لگتا ہے۔ ہم بھی ایک ایسے معاشرے کا حصہ ہیں جس میں دوسروں کو پریشان دیکھ کر ہمدردی کے نام پر مزے لینے والوں کی کمی نہیں۔ دوسروں کو پریشان دیکھ کر خوش ہونے والوں کی تعداد اِتنی زیادہ ہے کہ اُنہیں شناخت کرنا کچھ دشوار نہیں۔ افلاس کو شکست دینے کیلئے انسان کو بہت کچھ کرنا پڑتا ہے۔ ابتدائی مرحلے میں عزم درکار ہوتا ہے۔ پھر اپنے آپ کو مطلوبہ قابلیت اور سکت کا حامل بنانا پڑتا ہے۔ افلاس کی شدت انسان کی فکری ساخت پر بُری طرح اثر انداز ہوتی ہے اس لیے ذہن کو مستحکم رکھنا لازم ہے۔ اگر کسی کو زندگی کے مختلف مراحل اور آزمائشوں کے لیے ذہنی طور پر تیار نہ کیا گیا ہو تو کسی بھی پریشانی کے آگے ہتھیار ڈالنے میں زیادہ دیر نہیں لگتی۔ افلاس کے چنگل میں پھنسے ہوئے انسان کا ذہن بہت تیزی سے ہتھیار ڈالتا ہے۔ اگر بچپن سے معقول تربیت کا اہتمام نہ کیا گیا یعنی زندگی کے مختلف مراحل سے کامیاب گزرنے کی تحریک نہ دی گئی ہو، ذہن سازی نہ کی گئی ہو تو انسان افلاس کے سامنے خود کو اِتنا بے بس محسوس کرتا ہے کہ پھر وہ سب کچھ بھی نہیں کرسکتا جو وہ کرسکتا ہے۔ یہ ہے افلاس کی مجموعی کیفیت اور افلاس زدہ ذہنیت کا سب سے بڑا نقصان۔
افلاس کے حوالے سے ہماری طرزِ فکر میں بہت سی عجیب باتیں پائی جاتی ہیں۔ بیشتر کا یہ حال ہے کہ کسی کو شدید مالی مشکلات میں گھرا ہوا دیکھ کر اُس کی مدد کرنے سے کتراتے ہیں۔ اگر کسی کی مدد کی جاسکتی ہو تو ضرور کی جانی چاہیے۔ محض مشورے دینے یا نصیحت جھاڑنے سے کچھ نہیں ہوتا۔ جو مشکل میں گِھرا ہوا ہو وہ چاہتا ہے کہ کوئی اُسے مشکل سے نکلنے میں مدد دے۔ معاشرے اِسی لیے تو ہوتے ہیں۔ اگر پریشانی کی حالت میں کسی کی طرف سے کسی بھی طرح کی مدد نہ مل سکتی ہو تو پھر بہتر یہ ہے کہ انسان آبادیوں سے دور، پہاڑوں پر جا بسے۔ کسی بھی پس ماندہ معاشرے میں افلاس زدہ لوگوں کے حوالے سے جو سوچ پائی جاتی ہے وہ ہمارے ہاں بھی چلن میں ہے۔ جو لوگ تھوڑی بہت خوش خالی یقینی بنانے میں کامیاب ہوجائیں وہ افلاس زدہ افراد کو عجیب نظروں سے دیکھنے لگتے ہیں۔ بعض لوگوں کی نفسی ساخت ہی ایسی ہوتی ہے کہ اپنی مضبوط مالی پوزیشن کو بہت کچھ گردانتے ہوئے ہر پریشان حال انسان کے بارے میں یہ سوچنے لگتے ہیں کہ وہ کچھ نہ کچھ مانگنا چاہتا ہے۔ ہر مفلس انسان ہاتھ پھیلانے کی ذہنیت کا حامل نہیں ہوتا۔ حالات کے ستائے ہوئے بہت سے انسان اپنے بل پر بہت کچھ کرنا چاہتے ہیں۔ وہ حالات کو شکست دینے کے لیے اپنے زورِ بازو کو بروئے کار لانے کے خواہش مند ہوتے ہیں۔ وہ صرف یہ چاہتے ہیں کہ کوئی تھوڑی سی مدد کردے‘ ان کا ہاتھ پکڑ لے۔ اِس سے زیادہ کی اُنہیں ضرورت نہیں ہوتی۔ جنہیں قدرت نے تھوڑی سی بھی حیثیت دی ہے اُن پر کمزور مالی حیثیت کے حامل افراد کی مدد کرنا فرض ہے۔ یہ محض دینی معاملہ نہیں، خالص دُنیوی، معاشرتی اور اخلاقی معاملہ بھی ہے۔ جو لوگ زندگی کی دوڑ میں پیچھے رہ گئے ہیں اُنہیں اپنی صلاحیت و سکت کو بروئے کار لانے کے قابل بننے میں مدد دینا معاشرے کی خدمت ہی کی ایک شکل ہے۔ کسی کو مشکل حالات کے چنگل سے نکال کر بہتر معاشی و معاشرتی جدوجہد کے قابل بنانا معاشرے کی خدمت نہیں تو پھر اور کیا ہے؟
پاکستان جیسے معاشرے میں کسی بھی افلاس زدہ انسان کو معقول معاشی جدوجہد کے قابل بنانا واقعی ایسی خدمت ہے جسے ہر حال میں سراہا جانا چاہیے۔ محض تھوڑی سی مالی مدد کرنے سے کہیں بہتر یہ ہے کہ کسی کو ڈھنگ سے معاشی جدوجہد کے قابل بنایا جائے۔ ایسی حالت میں معاشرہ متوازن رہتا ہے۔ حالات کی خرابی سے بہت پیچھے رہ جانے والوں کا باقی معاشرے پر حق ہوتا ہے کہ اُن کا ہاتھ تھاما جائے، انہیں آگے لایا جائے۔ ہمارے ہاں افلاس زدہ انسانوں کی مدد کرنے کا رجحان تو کسی حد تک موجود ہے؛ تاہم اُنہیں ڈھنگ سے کمانے اور معقول طریقے سے جینے کے قابل بنانے میں دلچسپی لینے والوں کی کمی ہے۔ یہ کمی اُسی وقت دور ہوسکتی ہے جب افلاس کو جرم اور مفلس کو مجرم سمجھنے سے گریز کیا جائے۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved