آج کی زندگی نے انسان کو گھن چکر بنا ڈالا ہے۔ اچھا خاصا انسان دیکھتے ہی دیکھتے اپنی ذہنی رَو میں کہیں سے کہیں جا نکلتا ہے اور پھر واپسی محض دشوار نہیں، کبھی کبھی ناممکن بھی ہو جاتی ہے۔ زندگی کی تیزی رفتاری اور ماحول کی ہماہمی نے انسان کو سکون سے نہ جینے دینے کی شاید قسم کھا رکھی ہے۔ ہر انسان کسی نہ کسی حوالے سے شدید نوعیت کی الجھنوں کا شکار ہے اور بہت کوشش کرنے پر بھی اِن الجھنوں سے نجات کی راہ دکھائی نہیں دیتی۔
کون نارمل (یعنی ذہنی سطح پر معقول حد تک متوازن) ہے اور کون انبارمل‘ یہ طے کرنا اب بہت دشوار ہے۔ نارمل کا تصور نسبتی نوعیت کا ہے۔ ہر انسان کے نزدیک نارمل کا تصور مختلف ہے۔ سادہ لفظوں میں کہیے تو جو کچھ بہت ہو رہا ہو وہ نارمل ہے۔ مثلاً کسی کے گھر میں روزانہ یا ہفتے میں چار پانچ دن مٹن پکتا ہو تو یہ اُس کے لیے نارمل بات ہے۔ اگر کوئی سال میں دو بار بیرونِ ملک سیر سپاٹا کرکے آتا ہو تو یہ اُس کے لیے نارمل بات ہوئی۔ بالکل اِسی طور اگر کسی کے گھر میں دو وقت کی روٹی کا اہتمام بھی مشکل سے ہو پاتا ہو تو اُس کے اور اُس کے گھرانے کے لیے نارمل بات ہوئی۔
کیا آج کوئی نارمل ہے؟ ہر اعتبار سے خالص نارمل ہونا ایسی کیفیت ہے جو ہوتی ہی نہیں۔ ہر انسان کسی نہ کسی حوالے سے غیر معمولی کیفیت کا حامل یا اُس سے دوچار ہوتا ہے۔ ایسے میں کوئی یہ دعویٰ کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہے کہ وہ ہر اعتبار سے نارمل ہے اور نارمل زندگی بسر کر رہا ہے۔ سب کچھ سیاق و سباق یا تناظر میں دیکھا جاتا ہے۔ آج کا انسان ہر طرف سے اِس قدر دباؤ میں ہے کہ اُس کے بارے میں یہ تصور انتہائی دشوار ہے کہ وہ تمام معاملات میں معمول کی زندگی بسر کرسکتا ہے۔ ایسا ممکن ہی نہیں! کسی کے لیے معاشی دباؤ تباہ کن ہے تو کسی کے لیے معاشرتی الجھنوں کے بطن سے ظاہر ہونے والی پریشانیاں دردِ سر بنی ہوئی ہیں۔ کوئی ملازمت کے ماحول میں الجھن محسوس کرتا ہے تو کوئی رشتہ داروں یا حلقۂ احباب کے ہاتھوں پریشان رہتا ہے۔ ہر انسان مختلف معاملات میں شدید ذہنی دباؤ کا سامنا کرتے کرتے وہاں پہنچ چکا ہے جہاں اُس کے لیے صرف پریشانیاں رہ گئی ہیں اور وہ اِس دلدل سے نکلنے کی کوئی راہ نہیں پارہا۔ آج کوئی بھی شعبہ الجھنوں سے مبرّا نہیں۔ جو انسان جہاں ہے وہاں کسی نہ کسی پریشانی کا سامنا کرنے پر مجبور ہے۔ عمومی سطح پر طرزِ فکر و عمل اِتنی پیچیدہ ہوچکی ہے کہ کون کب کیا کر بیٹھے کچھ نہیں کہا جاسکتا۔ فکر و نظر کی گہرائی کب کی ہوا ہوئی۔ سوچنے کے نام پر لوگ صرف پریشان ہوتے رہتے ہیں۔ کسی بھی معاملے میں فوری ردِعمل کو بھی لوگ سوچ کا نام دے لیتے ہیں یہ سب کچھ اس قدر الجھن پیدا کرنے والا ہے کہ عام آدمی کے لیے ہر اعتبار سے متوازن ذہن کا حامل رہنا جُوئے شیر لانے کے مترادف ہوچکا ہے۔ اضافی مشکل یہ ہے کہ لوگ اپنے حالات کو درست کرنے کے بارے میں کچھ کرنے کو تیار بھی نہیں۔
ہم اکیسویں صدی کے تیسرے عشرے میں جی رہے ہیں۔ یہ عہد صرف اور صرف الجھنوں سے عبارت ہے۔ مادّی سطح پر دماغ کو چکرادینے والی ترقی نے انسان کو بیشتر معاملات میں ایسی طرزِ فکر و عمل کا عادی بنادیا ہے جو اُس کے مسائل حل کرنے کے بجائے اُنہیں مزید پیچیدہ بنانے پر تُلی ہوئی ہے۔ کوئی کتنے ہی دعوے کرے، حقیقت یہ ہے کہ ذہن کی الجھنیں ختم ہونے کا نام نہیں لیتیں۔ ماحول کا مجموعی تاثر اور اثر یہ ہے کہ انسان اپنے بیشتر معاملات میں‘ بظاہر کسی جواز کے بغیر‘ الجھا رہتا ہے کیونکہ ذہن کے الجھنے کی رفتار میں کمی نہیں آتی۔
معاشی اور معاشرتی دونوں ہی طرح کی الجھنوں نے عام آدمی کو اِس قدر پریشان کر رکھا ہے کہ بعض معاملات میں طرزِ فکر و عمل بہت کوشش کرنے پر بھی سمجھ میں نہیں آتی۔ لوگ سوچتے کچھ ہیں‘ کرنا کچھ چاہتے ہیں اور ہو کچھ جاتا ہے۔ بیشتر معاملات میں فکر و نظر کی گہرائی کا فقدان انسان کو معقول ترین طرزِ فکر و عمل کے اپنانے سے دور رکھتا ہے۔ پس ماندہ معاشروں میں ذہنی الجھنیں زیادہ ہیں۔ سب سے بڑا معاملہ معاش کا ہے۔ مالی الجھنیں انسان کو ڈھنگ سے جینے کے قابل نہیں چھوڑتیں۔ معاشی الجھنوں ہی کے بطن سے خالص نفسی اور معاشرتی پیچیدگیاں ظاہر ہوتی ہیں۔ انسان تنگ دست ہو تو زندگی کے بہت سے پہلو تشنہ رہ جاتے ہیں۔ پھر وہ بہت کوشش کرنے پر بھی اپنے ذہن کو متوازن رکھنے میں زیادہ کامیاب نہیں ہو پاتا۔ ہمارے ہاں بھی مالی پریشانیوں کے ہاتھوں دوسری بہت سی الجھنیں بھی پیدا ہوتی اور حواس پر طاری ہو جاتی ہیں۔
بے روزگاری، مہنگائی، عدم برداشت اور دیگر عوامل نے لوگوں کے ذہن اس قدر الجھا دیے ہیں کہ وہ بیشتر معاملات میں چلتے پھرتے پاگل خانوں جیسی حیثیت کے حامل دکھائی دیتے ہیں۔ کسی کے ذہن کو تفکرات اور خدشات سے پاک کرکے توازن و استحکام بخشنے کی کوشش اُسی وقت بارآور ثابت ہوسکتی ہے جب وہ تسلیم کرے کہ ذہن غیر مستحکم اور غیر متوازن ہے۔ ہر عہد میں ایک بڑی مشکل یہ رہی ہے کہ لوگ کبھی یہ تسلیم نہیں کرتے کہ اُن کے ذہن میں کوئی پیچیدگی ہے اور یہ کہ اُنہیں نفسی اصلاح کے حوالے سے مدد کی ضرورت ہے۔ آج بھی کسی سے کہیے کہ اپنی زندگی کا معیار بلند کرنے کے لیے نفسی امور کے کسی ماہر اور اس معاملے کے کسی مشّاق ہنر مند (سائیکاٹرسٹ) سے رابطہ کرے، اپنی مشکلات اُس کے سامنے رکھے اور اُس کے مشوروں کی روشنی میں اپنے لیے کوئی لائحۂ عمل مرتب کرے تو بُرا مان جاتا ہے اور اُس کی زبان پر فوراً یہ بات آجاتی ہے کہ ''میں پاگل تھوڑی ہوں!‘‘ لوگ اپنی نفسی الجھنوں سے نجات پانے کے لیے کسی بھی پریکٹسنگ سائیکاٹرسٹ کے پاس جانے کے لیے تیار نہیں ہوتے کیونکہ اُنہیں یہ خدشہ لاحق ہوتا ہے کہ لوگ اُنہیں پاگل سمجھیں گے! ترقی یافتہ ممالک میں یہ معمول کی بات ہے کہ لوگ اپنے ذہن کو الجھنوں سے پاک کرنے کے لیے نفسی امور کے ماہرین سے گفتگو کرتے ہیں اور اُن کے مشوروں کی روشنی میں اپنی اصلاح پر مائل ہوتے ہیں۔ وہاں لوگ اس بات کو اچھی طرح سمجھتے ہیں کہ ذہن زیادہ الجھا ہوا ہو تو نفسی امور کے ماہر سے مشاورت میں کوئی قباحت نہیں۔ یہ مصدقہ ماہرین لوگوں کو بہتر زندگی کی طرف رواں کرنے میں کلیدی کردار ادا کرتے ہیں۔ اپنے شعبے کے معیاری اداروں سے فارغ التحصیل ہونے والے یہ ماہرین معاشرے کو نفسی الجھنوں سے پاک کرنے کے حوالے سے خصوصی تربیت اور مہارت کے حامل ہوتے ہیں۔ ہمارے ہاں نفسی امور کے ماہرین سے مشاورت کے ذریعے زندگی کا معیار بلند کرنے کا چلن تاحال عام نہیں ہوا۔ لوگ اِس خوف میں مبتلا رہتے ہیں کہ کہیں اُن پر ''نفسیاتی‘‘ ہونے کا ٹیگ نہ لگ جائے۔
ہمارے معاشرے کو مختلف النوع ذہنی الجھنوں نے شدید بحران سے دوچار کر رکھا ہے۔ عام آدمی مالی الجھنوں کے باعث شدید ذہنی پیچیدگیوں کا شکار ہے۔ یہ کیفیت اُس کے معاشرتی معاملات پر بھی بُری طرح اثر انداز ہو رہی ہے۔ گھروں میں خرابیاں بڑھتی جارہی ہیں۔ تعلقات میں دراڑیں پڑ رہی ہیں۔ انسان ڈھنگ سے سو بھی نہیں پاتا۔ ذہن الجھا ہوا ہو تو نیند بھی آسانی سے کہاں آتی ہے؟ اور پُرسکون نیند؟ اُسے تو بھول ہی جائیے۔ یہ سب کسی بھی معاشرے کے لیے زہر کی مانند ہے۔ کوئی بھی معاشرہ ایسی الجھنوں کے ہوتے ہوئے ڈھنگ سے پنپ نہیں سکتا۔ ذہن عدم توازن کا شکار ہو تو منصوبہ سازی ہو پاتی ہے نہ عمل کی لگن ہی پیدا ہوتی ہے۔ ایسے میں انسان صرف الجھا رہتا ہے اور لاکھ کوشش کرنے پر بھی اپنے آپ کو بہتر زندگی کے لیے تیار نہیں کر پاتا۔ سب سے بڑی مصیبت یہ ہے کہ ذہن الجھا ہوا ہو تو انسان اپنے لیے مفید ہوتا ہے نہ دوسروں کے کام کا رہتا ہے۔ ایسے میں مزاج چڑچڑے پن کا شکار ہو جاتا ہے۔ آج اپنے اردگرد ذرا غور سے دیکھیے تو بہت سے لوگ مجموعی طور پر چلتے پھرتے پاگل خانوں جیسے دکھائی دیں گے۔ وہ کسی بھی بات پر اور کسی بھی وقت پھٹ پڑتے ہیں اور پھر اُن پر قابو پانا ممکن نہیں رہتا۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved