جسٹس قاضی فائز عیسیٰ پاکستان کے29ویں چیف جسٹس کے طور پر منصب سنبھال چکے ہیں۔اُن کا راستہ روکنے کے لیے جو کچھ کیا گیا وہ اب تاریخ کا حصہ بن چکا ہے۔اسلامی جمہوریہ پاکستان کے جن صدرِ مملکت نے اُن کے خلاف ریفرنس بھیجا تھا وہ بدستور اپنے منصب پر فائز ہیں‘انہی کو اُن سے حلف لینے کی سعادت نصیب ہوئی لیکن جس وزیراعظم کی ایڈوائس پر یہ حرکت ہوئی تھی وہ اٹک جیل میں ہیں اور قیدی نمبر804 کے طور پر زندگی کے دن گزار رہے ہیں۔آئی ایس آئی کے جو سربراہ (لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید) اُن کا تعاقب کر رہے تھے‘ ریٹائرمنٹ کے بعد اُن کا گھر ہی اُن کیلئے قید خانہ بن چکا ہے۔ اُس وقت کے چیف آف آرمی سٹاف جنرل قمر جاوید باجوہ بھی سبکدوش ہونے کے بعد غیر یقینی صورتحال کا سامنا کر رہے ہیں۔اُن کے سامنے کورنش بجا لانے والے اب اُن کے در پے ہیں‘ اور کچھ پتہ نہیں کہ اُن کے ساتھ کسی بھی وقت کوئی بھی کیا کر گزرے۔ جنرل پرویز مشرف کو عدلیہ سے محفوظ رکھنے والے اُن کی حفاظت کس طرح اور کب تک کریں گے‘یہ ابھی تک واضح نہیں ہو رہا۔ قاضی فائز عیسیٰ اپنے منصب پر ایک سال فائز رہیں گے‘ اس کے بعد اُنہیں اسے جسٹس اعجاز الاحسن کے لیے خالی کر دینا ہے۔
پاکستان کے کئی چیف جسٹس صاحبان نے اس کی سیاست اور تاریخ پر گہرے اثرات مرتب کئے ہیں۔آج ہم جس پستی سے لطف اندوز ہو رہے ہیں‘اس میں اُن کا حصہ بھی نمایاں ہے۔قانون کو طاقت بنانے کے بجائے انہوں نے طاقت کو قانون سمجھااور سمجھایا ہے نتیجتاًپاکستان ایک ایسی سرزمین بن چکا ہے کہ آئین رکھنے کے باوجود بے آئین ہے۔اس کی زندگی کا بڑا حصہ تو آئین کے بغیر ہی گزر گیا لیکن جب آئین نصیب ہوا تو بھی‘ ہر چند کہیں کہ ہے یا نہیں ہے والی کیفیت ہی دیکھنے میں آتی رہی۔ انتخابات سر پر ہیں۔قومی اسمبلی اپنی مدت پوری کر کے رخصت ہو چکی‘ نگران حکومت نے اُس کی جگہ لے لی ہے‘ الیکشن کمیشن 90روز کے اندر انتخابات کرانے کا پابند ہے لیکن خدا خدا کر کے اعلان ہوا ہے‘ جنوری کے آخری دنوں میں ایسا ہو سکے گا۔اس وقت90 دن کو گزرے ہوئے بھی نوے دن(یا کچھ کم) ہو چکے ہوں گے۔الیکشن کمیشن کے اعلان کے باوجود اس سے حتمی تاریخ کا مطالبہ کیا جا رہا ہے‘ اہلِ سیاست اور دانش کہہ رہے ہیں کہ قطعی طور پر دن مقرر کر دو لیکن کمیشن کے فاضل ارکان تاریخ کے مطالعہ میں مصروف ہیں‘اس سے کوئی سبق حاصل کیا جا سکے گا یا نہیں‘اس بارے میں یقین سے کچھ نہیں کہا جا سکتا کہ جہاں کوئی بھی اُس پر تیار نہ ہو وہاں الیکشن کمیشن اکیلا چنا بن کر بھاڑ کیسے جھونکے اور کیونکر جھونکے؟
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے سامنے کئی اہم مقدمات ہیں اور اُن کے پیشرو جسٹس عمر عطا بندیال کو بھی اسی صورتحال کا سامنا تھا۔پورا ملک التجا کرتا رہا کہ جناب فل کورٹ بُلا لیجیے‘ اپنے سب برادر ججوں کو بھی برابر کا جج تسلیم کر لیجیے‘اہم مقدمات کی سماعت کے لیے سب کو ساتھ بٹھا لیجیے لیکن انہوں نے ایک سن کر نہیں دی۔اگر‘مگر اور چونکہ‘ چنانچہ میں اپنا اور قوم کا وقت صرف کرتے رہے۔ قاضی فائز عیسیٰ نے منصب سنبھالنے کے فوراً بعد فل کورٹ کو قوم کے سامنے لا بٹھایا۔ تاریخ میں پہلی بار براہِ راست کوریج ہوئی‘ٹیلی ویژن کیمروں کے ذریعے اہلِ پاکستان نے اپنے گرامی قدر منصفوں کی نہ صرف زیارت کی بلکہ اُن کے سوالیہ خیالات سے بھی مستفید ہوئے۔ اس ایک اقدام نے پوری قوم کے اعصاب سے منوں بوجھ اُتار دیا۔ ہر شخص نے خود کو ہلکا پھلکا محسوس کیا کہ انصاف صرف کیا ہی نہیں جا رہا تھا‘ہوتا ہوا صاف نظر بھی آ رہا تھا ؎
عشق کی اک جست نے طے کر دیا قصہ تمام
اس زمین و آسماں کو بے کراں سمجھا تھا میں
قاضی صاحب نے دوسرا کام یہ کیا کہ ساٹھ ہزار کے لگ بھگ زیر التوا مقدمات کو نبٹانے کے لیے وکلا نمائندوں کے ساتھ سر جوڑ کر بیٹھ گئے۔تیسرا کام یہ ہوا کہ فیض آباد دھرنا کیس پر اُن کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے دو رکنی بینچ کے فیصلے کے خلاف نظرثانی کی درخواستیں سماعت کے لیے مقرر کر دیں۔ ان کے دو پیشرو انہیں دبا کر بیٹھے رہے‘ اس کی ایک وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے کہ نظرثانی کی درخواست وہی بینچ سنتا ہے جس نے فیصلہ صادر کیا ہوتا ہے‘سو یہ درخواستیں قاضی صاحب ہی کے بینچ کو سننا تھیں‘اُن کے فاضل پیشرو اس سے خوفزدہ تھے یا نہیں تھے اس سے قطع نظر‘ وہ قاضی صاحب کو حقِ سماعت دینے پر تیار نہ تھے۔ اب نظرثانی کس طرح ہو گی‘ یا نہیں ہو گی اور کس پر کیا زد پڑے گی یہ آنے والا وقت بتائے گا‘اس مقدمے کے فیصلے کے شدید اثرات مرتب ہو سکتے ہیں‘کسی کے لیے منفی اور کسی کے لیے مثبت۔
قاضی صاحب پاکستان کی الجھی ہوئی عدالتی تاریخ میں ایسی شخصیت کے طور پر سامنے آئے ہیں جو اپنے شخصی اختیارات میں اضافہ نہیں چاہتے‘ سپریم کورٹ کے ججوں کے ساتھ برابری کا سلوک کرنا چاہتے ہیں اور سپریم کورٹ پر چیف جسٹس کی مسلط کردہ آمریت کو ختم کرنے کے در پے ہیں۔
قاضی صاحب کے عہدِ عدالت میں سابق وزیراعظم نواز شریف بھی وطن واپس تشریف لا رہے ہیں۔اُن کے ساتھ جو کچھ ہوا‘وہ بھی تاریخ کا حصہ بن چکا ہے۔انصاف کے ایوانوں سے اُن کو تاحیات نااہلی ملی‘اُن پر سیاست کے دروازے بند کر دیے گئے‘سپریم کورٹ نے ابتدائی عدالت بن کر انتہائی فیصلہ سنا دیا‘انہیں اپیل کا حق بھی نہیں تھا۔اُن کے دل میں اس سب کچھ کے خلاف شدید غم و غصہ موجود ہے‘جو بھی شخص غیر جانبداری سے واقعات کا جائزہ لے گا‘اس غم و غصے میں شریک ہوئے بغیر نہیں ر ہ سکے گا۔نواز شریف کو واپس آ کر اپنی سیاست کی بحالی کے لیے ہنوز کئی امتحانوں سے گزرنا پڑے گا۔ایک طرف تو وہ عوام اور قانون کی عدالت میں پیش ہوں گے تو دوسری طرف اپنے ''ملزموں‘‘ سے دو دو ہاتھ کرنے کی کوشش بھی کریں گے۔اس کا اعلان بھی اُن کی طرف سے ہو چکا ہے۔اُن کے مداحوں میں جہاں جوش و خروش پیدا ہو رہا ہے‘ وہاں تشویش کی لہر بھی دوڑ رہی ہے کہ کہیں کوئی ایسی جنگ نہ چھڑ جائے جس کے نتیجے میں ایک بار پھر ہاتھ ملتے رہ جائیں۔ نواز شریف صاحب کو معلوم ہونا چاہیے کہ اُن کے ساتھ جو کچھ ہوا‘ وہ آئین اور قانون کے نام پر ہوا‘اب اُنہیں جو جواب دینا ہے وہ بھی اسی دائرے میں دینا ہو گا۔ آئین اور قانون کے اکھاڑے میں ر ہ کر ہی طاقت آزمائی کرنا ہو گی‘ اکھاڑے سے باہر دائو پیچ لڑانے سے کشتی نہیں جیتی جا سکے گی۔اس لیے افراد کو نشانہ بنانے کے بجائے ادارہ جاتی اصلاحات پر زور دیجیے۔ پارلیمنٹ میں دو تہائی اکثریت حاصل کر کے ہی یہ معرکہ سرانجام دیا جا سکتا ہے۔اِس کے لیے وسیع تر (سیاسی اور غیر سیاسی) اتفاق رائے کی ضرورت ہو گی‘شخصی جھگڑوں میں اُلجھ کر وقت ضائع تو کیا جا سکتا ہے‘اِسے تبدیل نہیں کیا جا سکتا؎
اسی روز و شب میں اُلجھ کر نہ رہ جا
کہ تیرے زمان و مکاں اور بھی ہیں
(یہ کالم روزنامہ ''پاکستان‘‘ اور روزنامہ ''دنیا‘‘ میں بیک وقت شائع ہوتا ہے)
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved