بھارتی ٹی وی چینلز پر ان دنوں کینیڈا میں ہردیپ سنگھ نجر کے قتل پر کینیڈن حکومت کے سخت ردِ عمل‘ کینیڈین وزیراعظم جسٹن ٹروڈو کی عالمی رہنمائوں کو اس قتل کی مکمل سازش اور اس کے کرداروں کے تمام نا قابلِ تردید ثبوت دینے کے بعد امریکہ‘ برطانیہ اور آسٹریلیا کی طرف سے مودی حکومت پر سخت تنقیداور بھارتی پنجاب کے سکھوں میں خالصتان کے لیے ہمدردی کی اُٹھنے والی نئی لہر کے خلاف دلائل کے انبار لگانے اور خالصتان کے قیام کی صورت میں اس کے دفاع اور معیشت کے لیے وسائل کی کمیابی کے سوالات اٹھائے جا رہے ہیں۔بالخصوص خالصتان کے سمندر سے محروم ہونے کے مدعے کا اٹھایا جا رہا ہے۔ اینکر پرسنز‘ پروفیسر حضرات اور بھارت کے سابق آرمی افسران کی ایک لمبی قطار ہے جو خالصتانی لیڈران سے ٹی وی چینلز پر یہ سوال پوچھ رہی ہے۔ اُن کے ان سوالات کا مقصد صرف یہ پروپیگنڈا کرنا ہے کہ کسی نہ کسی طرح سکھ نوجوانوں کے ذہن میں یہ بات ڈالی جائے کہ اگر وسائل سے محروم ٹنڈ منڈ خالصتان بن بھی گیا ہے تو وہ پھر جئیں گے کیسے۔ اس ضمن میں وہ پاکستان پر بھی انحصار نہیں کر سکتے کیونکہ پاکستان خود معاشی اور سیاسی عدم استحکام کا شکار ہے۔ اوٹاوا کینیڈا میں بھارتی ہائی کمیشن میں تعینات چیف آف سٹیشن نجر سنگھ کے قتل میں براہِ راست ملوث تھا۔ اسی لیے اسے ناپسندیدہ شخصیت قرار دے کر کینیڈا سے نکال دیا گیا ہے۔ اُسے اجیت ڈوول نے خصوصی طو رپر کینیڈا میں تعینات کرایا تھا۔
خالصتان کی حامی کچھ سکھ تنظیموں کی جانب سے بھی یہ سوال اٹھایا جا رہا ہے کہ فرض کریں اگر ہم خالصتان بنانے میں کامیاب ہو جاتے ہیں لیکن بغیر سمندر کے ہم کس طرح اپنی معیشت کو کامیاب بنا سکتے ہیں؟ اور یہ سوال کانگریس اور بھارتیہ جنتا پارٹی سے وابستہ بہت سے سکھ لیڈران‘ ہندو دانشور‘ پروفیسر اور تجزیہ کار بھی خالصتان تحریک سے الگ تھلگ سکھ نوجوانوں کے ذہنوں میں اکثر ڈالتے رہتے ہیں کہ جگجیت سنگھ چوہان اور خالصتان کے دوسرے سکھ لیڈران سے کبھی یہ بھی تو پوچھو کہ خالصتان کا آئین کیا ہوگا‘ اس کانقشہ کیا ہے‘ سمندر کے بغیر کیا کرو گے؟ لایعنی قسم کے ان اعتراضات کا اس کے سوا کوئی مقصد نہیں کہ سکھوں میں خالصتان کے مستقبل کے حوالے سے بے یقینی کی فضا پیدا کی جائے۔ دیکھا جائے تو اس فضول قسم کے پروپیگنڈا کی آج کی دنیا میں کوئی اہمیت نہیں کیونکہ اگردنیا کے چاروں جانب نظریں دوڑائیں تو اس وقت کرۂ ارض پر 45 کے قریب ممالک ایسے ہیں جن کے چاروں جانب صرف زمین ہے اور وہ سمندر سے مکمل طور پر محروم ہیں۔ دنیا کے دو سب سے مشہور اور خوشحال ممالک سوئٹزر لینڈ اور آسٹریا سمندر کی سہولتوں سے کوسوں دور ہیں۔ پاکستان کے ہمسایہ میں افغانستان اور اس کے ساتھ ازبکستان اور قازقستان کی مثال تو سب کے سامنے ہے جو دنیا کے ان 45ممالک میں شمار ہوتے ہیں جنہیں Landlocked Countries کہا جاتا ہے۔ قازقستان تو دنیا کا 9 واں سب سے بڑا ملک ہے جو 27لاکھ مربع کلومیٹر پر محیط ہے۔ افریقہ کے 15‘ یورپ کے 15‘ جنوبی امریکہ کے دو اور ایشیا کے 12ممالک کا شمار لینڈ لاکڈ ممالک میں ہوتا ہے اور خالصتان کو ان میں شامل کیا جائے تو ایشیائی ممالک کی یہ تعداد 13تک پہنچتی ہے۔ اگر خالصتان وجود میں آ جاتا ہے تو یہ دنیا کا اکیسواں بڑا ملک ہوگا جو 58ہزار مربع میل یعنی ایک لاکھ 50ہزار 300 مر بع کلو میٹر پر محیط ہوگا۔
15اگست 1947ء کو پنجاب کی علیحدہ سکھ ریاست کو بننے سے روکنے کے لیے ماسٹر تارا سنگھ جیسے جہاندیدہ آدمی کو دولت کے لالچ اور اقتدار کی بندر بانٹ کے دلفریب وعدوں سے بیوقوف بنا کر جواہر لال نہرو نے سکھوں کو ان کی اصل پہچان سے محروم کیا تو 1966ء میں اس کی بیٹی اندرا گاندھی نے پنجاب کو ٹکڑوں میں کاٹ کر سکھوں کو ایک تہائی اکثریت سے محروم کر دیا۔ اس وقت سکھ بہت روئے‘ پیٹے کہ ہمارا ایک بار پھر بٹوارا کیا جا رہا ہے لیکن اندرا گاندھی نے ان کی ایک نہ سنی اور چند بڑے بڑے سکھ لیڈران کو اہم ترین عہدے دے کر رام کر لیا۔ ماسٹر تارا سنگھ اپنی زندگی کے آخری ایام میں صرف یہی دکھ لیے رخصت ہو گئے کہ مجھ سے غلطی ہو گئی کہ میں جناح اور نہرو میں فرق محسوس نہ کر سکا اور اب اپنی سکھ قوم کو ایک براہمن کی غلامی میں جکڑ کر جا رہا ہوں اور میری سکھ قوم کو براہمن کے اس شکنجے سے نکلنے کے لیے بہت قربانیاں دینا پڑیں گی لیکن وہ یہ کہتے ہوئے رخصت ہو ئے کہ خالصہ آزادی لے کر رہے گا اور اس کے لیے میری روح بابا گرونانک جی کے دربار میں پرارتھنا کرتی رہے گی۔ ماسٹر تارا سنگھ نے اپنی زندگی کے آخری دن چندی گڑھ میں جس سکھ پروفیسر کے پاس گزارے‘ اس سکھ پروفیسر سے راقم کو دو تین مرتبہ ملنے کا اتفاق ہوا۔ ان کا کہنا تھا کہ بستر مرگ پر ماسٹر تارا سنگھ ایک ہی بات کہتے رہے کہ ان کی آتما کو اس وقت چین ملے گا جب سکھ مذہب کی اپنی ریاست ہو گی‘ اپنا راج ہو گا اور ہم جو کہتے ہیں کہ راج کرے گا خالصہ تو صحیح معنوں میں اسی دن یہ نعرہ حقیقت بنے گا۔ خالصہ کو اپنی نگری‘ اپنے دیس میں رہنے اور راج کرنے کے تصور سے دور کرنے والوں کا یہ کہنا کہ خالصتان اگر معرضِ وجود میں آ بھی جاتا ہے تو بغیر بندر گاہ کے یہ کیسے اپنا وجود برقرار رکھ سکے گا‘ صرف ایک پروپیگنڈا ہے۔ لینڈ لاکڈ ممالک کو ان کے بندر گاہ والے ہمسایہ ممالک کی جانب سے مکمل سہولتیں فراہم کی جاتی ہیں جس کے لیے وہ باقاعدہ ٹیکس وصول کرتے ہیں‘ اس لیے خالصتان کو دنیا کے کسی بھی ملک کے ساتھ تجارتی تعلقات کے لیے کسی بھی قسم کی دشواری نہیں کیونکہ پاکستان اور ایران اس کے مدد گار ہوں گے۔ سکھ قوم جب اپنا حق لینے میں کامیاب ہو گی تو افغانستان کی طرح اس کی بھی تمام تجارت پاکستان کے سمندروں سے ہو گی اور پھر جلد ہی سب دیکھیں گے کہ چند سال بعد بھارت کی جانب سے ہی خالصتان کو اس کی سمندری حدود کے استعمال کی درخواستیں شروع ہو جائیں گی۔
سکھ ہمیشہ سے با اختیار رہے ہیں۔ ہندوستان اور اس کے باہر کہیں بھی موجود سکھوں کا یہ دیرینہ خواب ہے کہ ان کا اپنا ملک ہو۔ سکھوں کی نئی نسل جیسے جیسے اپنے آباؤ اجداد کے شاندار ماضی اور سکھوں کی زبوں حالی سے آگاہ ہو رہی ہے‘ اس کے اثرات سوشل میڈیا پر بھی بھر پور انداز میں دیکھنے کو مل رہے ہیں۔ گولڈن ٹمپل میں خالصتانیوں کو‘ براہمن کے تنخواہ دار شرو منی کمیونٹی کے سکھوں کی جانب سے چند دن ہوئے مخالفت کا سامنا کرنا پڑا لیکن یہ ان کے لیے براہمن اور بھارتی فوج کی عارضی رکا وٹیں ہیں‘ بالکل اسی طرح جیسے قیامِ پاکستان کی تحریک میں قائداعظم اور مسلم لیگ کو چند مسلم مذہبی جماعتوں کی مخالفت کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ دنیا کا وہ کون سا مذہب ہے جس کا اپنا ملک نہیں ہے حتیٰ کہ کسی مذہب کو نہ ماننے والے کمیونسٹوں کے بھی اپنے ملک ہیں اور یہودی جو دنیا بھر میں بکھرے ہوئے تھے‘ انہیں امریکہ اور برطانیہ نے فلسطین میں آباد کرتے ہوئے اسرائیل بنا دیا۔ بدھ مت کو ماننے والوں کے کئی ممالک ہیں لیکن اگر نہیں ہے تو صرف سکھ مذہب کا کوئی وطن نہیں اور اگر اس حقیقت کو وہ خالصتان کی شکل میں پانے میں کامیاب ہو جاتے ہیں تو سکھ ریاست کا شمار تیسری دنیا کے ممالک میں نہیں ہو گا کیونکہ خالصتان خوراک میں خود کفیل ہونے کے علاوہ دنیا کو اناج بھی بر آمد کر سکے گا۔ سکھ اپنے گرو صاحبان کی طرح اس قدر محنتی اور جفا کش ہیں کہ ان کا ملک دن رات ترقی کرنے لگے گا اور سب سے بڑھ کر یہ کہ دنیا بھر میں پھیلے ہوئے کھرب پتی سکھ جب اپنا سرمایہ اور صنعتیں خالصتان منتقل کریں گے تو چند سالوں میں ہی اس کا شمار دنیا کے خوش حال ممالک کی صف میں ہو جائے گا۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved