سیاسی آزادی‘جمہوری آزادی جو اصولی طور پر تو قانون اور آئین کی پابند ہے۔کسی معاشرے کو میسر ہو تو سیاسی جماعتوں کا پیدا ہونا فطری بات ہے۔ ہم نے اپنی تاریخ اور کئی ملکوں کی تاریخ میں دیکھا ہے کہ طاقتور لوگوں کو سیاسی جماعتوں کا ابھرنا اور پھر کچھ جگہ اور مقام بنانے کے بعد نئے منشوروں کی بات کرنا اکثر نا گوار گزرتا ہے۔ جمہوریت ہو یا کوئی اور نظام‘ اصل مسئلہ تو طاقت کا ہوتا ہے۔کس کے پاس یہ خزانہ ہوگا ؟کون کسی کو کیا اور کب دے گا؟ وسیع تر معنوں میں طاقت کن ہاتھوں میں ہوگی؟ اور سب سے بڑی بات کہ اس جمہوری قوت کے وجود میں آنے کا عمل کیا ہوگا اور کون اس کا حامل اور مالک ہوگا؟ جمہوریت کے فیصلے اور اس کی عملی تعمیر میں ان سب سوالوں کا جواب موجود ہے۔ آزادی صرف ووٹ دینے کی آزادی پر موقوف نہیں بلکہ اس کا اصل مظہر نمائندگی ہے۔ دیکھنا ہے کہ نمائندگی کون کر رہا ہے اور کس کی کررہا ہے۔
عملی طور پر نمائندگی ممکن نہیں جب تک کہ سیاسی جماعتیں میدان میں نہ ہوں۔ ہمیشہ یہ خیال لوگوں کے ذہن میں رہا ہے کہ جماعتیں ہوں گی تو ملک اور قوم سیاسی اور نظریاتی طور پر تقسیم ہو جائیں گے۔ظاہر ہے کہ ہر جماعت لوگوں کو اپنی طرف متوجہ کرنے کے لیے منفرد پروگرام سامنے رکھے گی‘سیاسی شناخت بنائے گی‘کئی نعرے ترتیب دے گی اور عوام کو اپنے قریب کرنے کے لیے ان کے دل کی بات کرے گی۔ لوگوں کو تقسیم کرنے اور آپس میں سیاسی جنگیں لڑنے کا حل ہم نے تاریخی اور دستوری جمہوریت میں انتخابات کرانے میں بہت دیکھا ہے۔مگر عوام کے پاس حکومت بنانے اور اسے تبدیل کرنے کی طاقت رہے تو جس طرح ہم اپنے چمن کو خوبصورت اور توانا رکھنے کے لیے درختوں کی چھانٹی کرتے رہتے ہیں‘ جماعتوں کی بھی صفائی ہوتی رہتی ہے۔
ہمارے ہاں اصل مسئلہ چمن کو سنوارنے کے انتظامات کا ہے۔ وہ کون کرے گا؟ ہماری سیاسی تاریخ اور سیاسی جماعتوں کے عروج و زوال کی داستان مختصر نہیں رہی۔ چار سیاسی جماعتیں ہیں۔ ایک ملک کی آزادی سے پہلے اسی تحریک کے عمل اور گزشتہ صدی کی شناخت کی سیاست سے بنی۔تین ہماری آنکھوں کے سامنے ملکی حالات کے تناظر میں وجود میں آئیں۔ ان کے بننے کی حد تک تو ہم یقین کے ساتھ‘ کسی شک و شبہ کو دل میں لائے بغیر کہہ سکتے ہیں کہ عوام کا جذبہ ان کے ساتھ ہے‘ اور وہ اس لیے کہ ان کی نظر میں گزشتہ سیاسی جماعت والے ان کی جیبوں‘ملک کے خزانے اور ہمارے حال اور مستقبل کے احکامات کے لیے کافی بھاری گزرے تھے۔بالکل یہی طریقہ ہے کہ عوامی نمائندگان اور وہ سیاسی جماعت جس کا وہ حصہ ہوں‘ ہر پانچ سال بعد عوام کے سامنے جائیں اور اپنی کارکردگی کا حساب دیں۔ اچھا کام کریں گے تو لوگ کہیں گے شاباش کام جاری رکھو۔ اگر وہ وہی کریں گے جو سولہ ماہ براجمان رہنے والے اور اس سے پہلے چالیس سال تک مسلط رہنے والے کرتے رہے تو متبادل تلاش کر لیں گے۔ سیاست میں اگر حقیقی آزادی ہو تو کوئی زمینی خدا نہیں بن سکتا۔ پرانی قیادت مال پانی بنانے میں لگی ہو اور داستانیں پیرس‘ لندن اور نیویارک تک پھیلی ہوں اور وہاں سیاسی جماعتیں‘ دانشور اور صحافی ہم پاکستانیوں کی حالتِ زار پر ترس کھا رہے ہوں‘ تو نئی قیادت ابھرے گی۔ یہ ایک الگ بات ہے کہ وہ نئی اور پرانی کا ایسا انوکھا امتزاج بن جاتا ہے کہ عوام کو پتا ہی کم چلتا ہے کہ پرانی کہاں ختم ہوتی ہے اور نئی کہاں سے شروع ہورہی ہے۔
ہر انتخابی حلقے سے امیدوار تو وہی تھے جن کا کسی رد کردہ جماعت سے تعلق تھا مگر کسی نئے رہنما کے ہو گئے۔ یہ لکھنے کو جی تو نہیں چاہتا کہ انتخابی صلاحیتیں مفقود تھیں مگر کیا کریں کہ ہم گہرے پانیوں میں غرق کرنے والوں کو سیاسی رہنما ہی کہتے ہیں۔ آپ دیکھتے نہیں کہ کس طمطراق سے روزانہ تر و تازہ بیانات اور نئے فرمودات کے ساتھ دکھائے جاتے ہیں۔ کیسی کیسی معنی خیز مسکراہٹیں اور کس تربیت سے بکھرتی پارٹیوں سے اگلے انتخابات کی بھرپور تیاری کے لیے اہل امیدواروں کو اکٹھا کر رہے ہیں۔ وہی امیدوار پارٹی نمبر ایک میں تھے‘پھر دو میں گئے پھر تیسری‘ چوتھی اور پھر واپس پہلی میں۔ چند سو خاندانوں کی صرف ایک ہی جماعت ہے جو گزشتہ سات دہائیوں سے تبدیل نہیں ہوئی۔ باقی ناموں میں کیا رکھا ہے اور گدی نشینی کسی کی بھی ہو جائے سب بانٹ کے اپنا حصہ وصول کرتے رہیں تو آزادی اور جمہوریت کے ہمارے تقاضے بھرپور طریقے سے پورے ہو جاتے ہیں۔
سیاسی موسم بدل چکا ہے تو سیاسی پرندے اپنی سمتوں کا تعین کرنے لگے ہیں۔ ہم تو اب جنگلوں میں رہنے کو ترجیح دیتے ہیں مگر کیا کریں تلاشِ روزگار لاہور کھینچ لاتی ہے۔ وہاں ہم دیکھتے ہیں کہ موسموں کے بدلنے سے کئی پرندے غائب اور کئی ادھر اُدھر کا رخ کر لیتے ہیں۔ یہ ان کی بقا کا مسئلہ ہے۔ ہمارے عوامی نمائندگان بھی اس سے مختلف نہیں۔ ہمارے قبائلی اور جاگیردار معاشرے میں سیاسی گھرانوں کی بقا انہیں اقتدار کے قریب رہنے پر مجبور کرتی ہے اور یہ بھی وقار اور روایتی طنطنے کی اساس بغیر سہارے کے ریت کے قلعے کی طرح زمین بوس ہوجاتی ہے۔ ہمارے حکمران طبقے کی فکری صلاحیت اور طرزِ زندگی وہ نہیں جومغرب کے مدبروں اور سیاسی رہنماؤں کا تھا کہ اقتدار میں ایک مخصوص مدت سے زیادہ نہ رہے۔دور ختم ہوا اور وہ اپنی زمین کی کاشتکاری‘عوامی خدمت فلاحی کاموں یا پھر کسی درس گاہ میں پڑھانے میں مشغول ہو گئے۔ آپ کو شاید حیرانی ہوکہ امریکی صدر جمی کارٹر جو اَب 99 سال کا ہو چکا ہے‘ 1961ء سے ایک چھوٹے سے شہر میں دو بیڈ روم کے گھر میں رہ رہا ہے۔ یہ ہوتے ہیں رہنما۔ اگلی فرصت میں ان کے بارے میں کچھ عرض کروں گا۔
ہمارے ویسے کئی المیے ہیں مگر سب سے بڑاغلامی ہے۔ ہمارے بڑے زمیندار ہوں یا عام آدمی‘ کچھ لینے کے لیے دستِ سوال دراز رکھتے ہیں۔ انہیں ایوانِ اقتدار تک رسائی کے لیے کچھ بھی کرنا پڑے وہ تیار ہیں۔ خودداری‘ قناعت‘ عزتِ نفس نکل جائے تو ہمارے پنجرے میں باقی کیا رہ جاتا ہے؟ بہت کم ہیں‘ لیکن یہ نہیں کہ عوامی نسل پاکستان سے مفقود ہو چکی ہے۔ جو اصول کی سیاست کرتے ہیں اور کسی کے سامنے جھکتے نہیں برُا وقت اُن پر آئے بھی تو وہ ہر مشکل میں ثابت قدم رہتے ہیں۔ بہرحال آج کل تعداد بہت زیادہ ان کی ہے جو قطار اندر قطار کسی بڑی حویلی کے باہر کے دروازے پر یا کسی سیاسی ڈیرے پر کھڑے اندر جانے کی اجازت طلب کر رہے ہیں۔ہم سب عوام اور نمائندگان ان فصلی بٹیروں سے محفوظ رہ سکتے تھے اگر سیاسی جماعتوں کی تطہیر کا بندوبست عوام کے پاس ہوتا۔ اگر آبادی کسانوں اور چھوٹے زمین داروں کی ہے تو وہ جانتے ہیں کہ کانٹ چھانٹ کیسے کرنی ہے۔ اصل میں یہ کسی اور کے ہاتھ میں آگیا ہے۔ ان کا یہ کام ہی نہیں۔ اس لیے سیاسی جماعتوں کے نام پر مفاد پرست گروہ پیدا ہو چکے ہیں جن کا محاسبہ کرنے کی عوام کو اجازت نہیں۔ ہم نے دیکھا ہے کہ جب یہ موقع انہیں ملا‘ ووٹ کی طاقت سے بڑے سے بڑے برج ہلا کر رکھ دیے۔ یہی تو خوف ہے جو مفاد پرستوں کو اندر سے کھا کر کھوکھلاکر چکا ہے کہ ووٹ کو آزادی مل گئی تو رہی سہی ساکھ بھی عوامی ریلے میں بہہ جائے گی۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved