کبھی کبھی ماضی میں جھانکنے کے بعد آج پر نگاہ ڈالیں‘ تو یہ دیکھ کرہول آتا ہے کہ ہم نے کیا کیا گنوا دیا؟ محلے داروں اور اہل شہر کی وہ عزت‘ جو بطور انسان انہیں حاصل تھی‘ اسے ہم گنوا چکے ہیں۔ کسی محلے کو وہ بزرگ نصیب نہیں‘ جو سڑک پر یا گلی میں نظر آتا‘ تو سب چھوٹے بڑے ‘ اسے جھک کر سلام کرتے۔ شاید اب بھی کہیں کہیں بزرگی کا احترام باقی ہو۔ مگر لوگوں کے پاس اظہار کا وقت نہیں۔ رک کر سلام کرنے کو دل بھی چاہے‘ تو ہم رک نہیں سکتے۔ بزرگی ‘ تنہائی کا آسان شکار ہوتی ہے۔ لیکن پہلے یہ صرف اوقات کار کے دوران ‘ گھروں میں ہوا کرتا تھا۔ جب سب اپنے اپنے کام پر چلے جاتے ۔ عورتیں اپنی گھریلو مصروفیات میں لگ جاتیں اور خاندان کا بزرگ تنہا رہ جاتا۔ ایسی صورت میں وہ بزرگ گلی میں یا سڑک پر آتا تو اسے سلام دعا کرنے والے اور حال پوچھنے والے مل جاتے۔ تھوڑی دیر حالات حاضرہ پر گفتگو بھی ہو جاتی اور وہ بزرگ تنہائی کے احساس سے باہر آ جاتا۔ مگر بدلے ہوئے زمانے میں‘ بزرگوں کے لئے گنجائش نہیں رہ گئی۔ اب اسے یا ٹی وی کی صحبت ملتی ہے یا اخبار اور کتاب کی۔ ہمارے مشرقی تہذیب کے نام نہاد مداح‘ یورپ کا ذکر استہزائی انداز میں کرتے ہیں کہ وہاں بزرگوں کو کیئرہومز میں چھوڑ دیا جاتا ہے اور پھر اس کے بعد تنہائیوں میں پھینکے ہوئے‘ اپنے بزرگوں کے بارے میں فخر سے بتاتے ہیں کہ ہم‘ انہیں اپنے گھروں میں رکھتے ہیں۔ یہ نہیں بتاتے کہ گھر کے کس کونے کھدرے میں پھینکتے ہیں؟ اور نہ انہیں پتہ ہوتا ہے کہ جس کیئرہوم کا وہ تمسخر اڑاتے ہیں‘ وہ اصل میں کیا ہے؟ ان ہومز کے بارے میں کچھ عرض کر دوں۔ یہ نہایت شاندار ‘ آرام دہ اور ہر طرح کی سہولتوں سے آراستہ قیام گاہیں ہوتی ہیں۔ جن میں بہترین رہائشی کمرے‘ ٹی وی لائونج‘ ان ڈور گیمز کے انتظامات‘ گپ شپ کے لئے چائے خانہ‘ ناشتے‘ لنچ اور ڈنر کے بہترین انتظامات۔ علاج معالجے کی ان ہائوس سہولتیں۔ نرسنگ کی خدمات ہمہ وقت میسر ہوتی ہیں۔ کیونکہ سب بزرگ ایک ہی چھت کے تلے قیام پذیر ہوتے ہیں‘ اس لئے سب کو اپنی اپنی پسند کے ساتھی مل جاتے ہیں۔ وہ ان کے ساتھ گپ شپ کرتے ہیں۔ اپنی اپنی مرضی کے کھیل میں حصہ لیتے ہیں۔ مطالعہ کرتے ہیں اور پھر انتظامیہ کی طرف سے انہیں ہفتے میں ایک آئوٹ ڈور تفریحی سیرکی سہولت ملتی ہے۔ بزرگ چاہیںتو کسی پارک میں جا کر بیٹھ جائیں۔ کشتی کی سیر کر لیں۔ ٹینس یا کرکٹ کا میچ دیکھنے چلے جائیں۔ یہ ان کی مرضی پر ہوتا ہے۔ وہ خود ہی آپس میں فیصلہ کرتے ہیں۔ انتظامیہ کی فراہم کردہ ٹرانسپورٹ ان کے احکامات کی تعمیل کرتی ہے۔ گھر والوں سے بھی ان کا رابطہ مسلسل رہتا ہے۔ اتوار کی چھٹی کے علاوہ بھی جو چھٹیاں آتی ہیں‘ ان میں ہر کسی کا بیٹا‘ بیٹی‘ پوتا‘ پوتی یا بیٹے بیٹیاں اور پوتے پوتیاں اپنے اپنے بزرگ سے ملاقات کے لئے آتے ہیں۔ ان کے پسندیدہ پھل‘ آئس کریمیں یا مٹھائیاں لاتے ہیں۔ اگر کوئی لانڈری کا خرچ نہیں اٹھا سکتا یا نہیں اٹھانا چاہتا‘ تو بہوبیٹیاں میلے کپڑے ساتھ لے جاتی ہیں اور دھلے ہوئے اپنے بزرگ کے پاس چھوڑ دیتی ہیں۔ بستر کی چادریں بدلتی ہیں۔ حسب ضرورت جوتے صاف یا پالش کرتی ہیں اور دوچار گھنٹے ان کے ساتھ گزار کے اہل خاندان واپس چلے جاتے ہیں۔ سال یا چھ مہینے میں‘ ان بزرگوں کو انتخاب کا موقع دیا جاتا ہے کہ وہ بیرونی دنیا کی سیروسیاحت کو جانا چاہتے ہیں یا نہیں؟ جو سیر و سیاحت کا انتخاب کرتے ہیں‘ انہیں مرضی کا پیکج دے کر‘ یہ سہولت فراہم کر دی جاتی ہے۔ مگر اس کے اخراجات یا تو بچے ادا کرتے ہیں یا متعلقہ بزرگ کو حکومت کی طرف سے نیشنل سکیورٹی کی جو رقم ملتی ہے‘ وہ خود اسے سال بھر جمع کر کے سیروسیاحت کے اخراجات پورے کر لیتا ہے۔ ہوم میں رہنے کے اخراجات عام طور پر اہل خاندان ادا کرتے ہیں ‘ جو 500 سے 1000 پونڈ ماہانہ تک ہوتے ہیں۔ خاندان کی جتنی استطاعت ہو‘اس کے مطابق ہوم کا انتخاب کر لیا جاتا ہے اور جس مشرقی تہذیب پر ہمارے نام نہاد شرفا فخر کرتے ہیں‘ اس کے نمونے دیکھنا ہوں تو لاہور کے بازاروں اور چوراہوں میں کھڑے ہوئے بزرگوں کو دیکھ لیں۔ اگر باتیں کرنے کا موقع ملے‘ تو آپ کو پتہ چلے گا کہ ان میں سے نصف سے زیادہ مرد عورتیں‘ وہ مظلوم بزرگ ہوتے ہیں‘ جنہیں ان کی اولادوں نے گھروں سے نکال دیا ہے اور وہ بھیک مانگ کے اپنا پیٹ بھرتے ہیں۔ میں چونکہ خود بھی پیرانہ سالی کے دائرے میں آ چکا ہوں‘ اس لئے شاید میری توجہ بزرگوں کی طرف زیادہ ہو گئی۔ لیکن میں عمررسیدہ نہ بھی ہوتا‘ تو مشرقی معاشرے میں بزرگوں کا جو خاندانی اور سماجی کردار ہوا کرتا تھا‘ یا مغرب کے معاشرے میں انہیں جو سہولتیں اور آسودگی حاصل ہے‘ اس کا موازنہ ضرور کرتا۔ ہم نے جو کچھ گنوایا ہے‘ یہ تو اس کی ایک چھوٹی سی جھلک تھی۔ ہم نے ملنا جلنا گنوا دیا ہے۔ شام کے وقت یا چھٹی کے دن‘ گلی محلے میں ‘ جو مجلسیں جما کرتی تھیں‘ اور جن میں گھریلو معاملات سے لے کر‘ محلے‘ شہر اور ملک کے معاملات تک ہر موضوع پر بات ہوا کرتی تھی اور اس بات چیت کے ذریعے انسان ایک دوسرے سے منسلک رہتے تھے۔ قربتوں کو قائم رکھنے والی وہ ڈوریاں ٹوٹ چکی ہیں۔ انسانی ہمدردی کے جو مناظر ‘ روزمرہ دیکھنے میں آتے تھے‘ اب ہفتوں‘ مہینوں گزر جاتے ہیں‘ دکھائی نہیں دیتے۔ پہلے کوئی حادثے کا شکار ہوتا‘ چوٹ کھانے اور زخمی ہونے والے کی مدد کے لئے چاروں طرف سے لوگ لپک کر اس کی مدد کو آتے۔ کسی کی حالت زیادہ خراب ہوتی‘ تو اسے ہسپتال لے کر جاتے اور اگر اسے ہوش نہ ہوتا یا اس کے پاس کسی وجہ سے علاج پر خرچ کرنے کے پیسے نہ ہوتے‘ تو اس کے مددگار اپنی جیب سے خرچ پورا کر دیتے اور بعض اوقات تو اسے گھر تک پہنچا کے آتے۔ مگر آج کوئی حادثے کا شکار ہو کے سڑک پر گر جائے‘ تو لوگ رکنے کی بجائے اپنی رفتار تیز کر کے‘ موقع سے جلد ازجلد دور ہونے کی کوشش کرتے ہیں۔ ایسا نہیں کہ ہمدردیاں ختم ہو گئی ہیں۔ وہ آج بھی ہیں۔ لیکن انسانی ہمدردی کی سزا ناقابل برداشت ہے۔ کیونکہ پولیس سب سے پہلے خبردینے والوں کو دھر لیتی ہے یا مدد کے لئے قریب آنے والا مصیبت میں پڑ جاتا ہے۔ پولیس حادثے کی جو رپورٹ بناتی ہے‘ اس میں مددگاروں کو بھی دھر لیا جاتا ہے اور پھر انہیں تھانوں اور عدالتوں میں حاضریاں دیتے دیتے‘ ایسا سبق ملتا ہے کہ وہ آئندہ انسانی ہمدردی سے توبہ کر لیتے ہیں۔ اب کوئی مظلوم‘ قانون کی مدد لینے کے لئے تھانے کچہری جانے سے ڈرتا ہے۔ لوگ ناانصافیاں برداشت کر جاتے ہیں مگر قانون کے محافظوں کے پاس جانے سے گھبراتے ہیں۔ آج سے بیس پچیس سال پہلے تک یہ صورتحال نہیں تھی۔ تھانوں اور عدالتوں میں انصاف ملنے کا اوسط بہت زیادہ تھا۔ آج یہ چیز برائے نام بھی نہیں رہ گئی۔ قانون اس کا ہے‘ جو اسے خرید سکے۔ ریاست ‘ جسے ہم محبت سے وطن کہتے ہیں‘ انسان کی وفاداری کا نقطہ عروج ہوتی ہے۔ 1965ء تک صورتحال یہ تھی کہ جب لاہور اور سیالکوٹ پر بھارتی حملے کی خبر ملی‘ تو شہری بے تاب ہو کر گھروں سے نکل آئے۔ محاذ کی طرف جاتے فوجیوں پر پھول پھینکے۔ ان کے ٹرکوں میں کھانوں سے بھرے ہوئے برتن اور دیگیں رکھ کر لوگ ساتھ بیٹھ گئے اور خود کھانا کھلانے کے بعد برتنوں کے ساتھ واپس آئے۔ خواتین اپنے زیور لئے‘ وہ مراکز ڈھونڈتی پھرتی تھیں‘ جہاں وہ انہیں دفاعی فنڈ میں جمع کرا سکیں۔ حب الوطنی کے جذبات کا جو حسن ان دنوں دیکھنے میں آیا‘ پھر نصیب نہیں ہوا۔ آپ کو یہ اندوہناک خبر دیتے ہوئے میرا کلیجہ منہ کو آ رہا ہے کہ شہریوں کو وطن سے اب وہ محبت نہیں رہی‘ جو وطن کا حق ہوتی ہے۔ جب قانون سے یقین اٹھ جائے‘ تو آپ کا اعتماد مجروح ہوتا ہے۔ جب انسانیت سے یقین اٹھ جائے‘ تو زندگی سے نفرت ہو جاتی ہے۔ لیکن جب وطن سے یقین اٹھ جائے‘ تو انسان صرف ایک زندہ لاش رہ جاتا ہے۔ جس طرح کے حکمران آج ہم پر مسلط ہو چکے ہیں یا آئندہ ہونے والے ہیں‘ ان کی پسندیدہ چیز صرف ایک ہے۔ زندہ لاشیں۔حکمران انہیں ٹھوکریں ماریں۔ ان کا پیسہ اور ان کی عزت چھین لیں۔ انسانی وقار سے محروم کر دیں۔ دنیا میں بے آبرو کر کے پھینک دیں۔ یہ ان کی مرضی ہوتی ہے۔ ایسے حکمرانوں کو آزادی پسند ‘ باضمیر اور انسانیت پر یقین رکھنے والے شہریوں کی نہیں‘ زندہ لاشوں کی ضرورت ہوتی ہے۔ ان کے اندر جھانک کر ضمیر‘ انسانیت اور ایمان تلاش کرنے کی کوشش کی جائے‘ تو پتہ چلتا ہے کہ وہ خود بھی زندہ لاشیں ہیں۔ان کے پاس محض سونے چاندی کی طاقت ہوتی ہے۔ مگر کفن انہیں وہی نصیب ہوتا ہے‘ جو ہمیں پہنایا جاتا ہے۔کیونکہ سونے چاندی سے کفن نہیں بنائے جاسکتے۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved