کوئی اندازہ کر سکتا ہے اس کے زورِ بازو کا
نگاہِ مردِ مومن سے بدل جاتی ہیں تقدیریں!
سید مودودیؒ آج سے 44 سال قبل رحلت فرما گئے، مگر ان کی حسین یادیں آج بھی دل میں تازہ ہیں۔ ان کی کس خوبی کا ذکرکروں۔ مرحوم کے کارنامے ہمہ پہلو، ہمہ جہت اور جامع ہیں۔ آپ کا اصل کام فکری رہنمائی اور قلم و قرطاس کا صحیح استعمال ہے۔ جہاد قلم، زبان اور تلوار سبھی سے کیا جاتا ہے۔ دیرپا اثرات قلمی جہاد ہی کے ہوتے ہیں، جو سید مودودیؒ کی اصل پہچان ہے۔ مولانا مودودیؒ کی تمام تصانیف، مؤثر، دل و دماغ کو اپیل کرنے والی اور ایک مخلص داعیٔ حق کا دردِ دل لیے ہوئے ہیں۔ ان کتابوں نے بلاشبہ لاکھوں انسانوں کی زندگیوں کو تبدیل کیا ہے۔ ہر علاقے اور ہر زبان سے تعلق رکھنے والے غیر مسلم ان کی تحریریں پڑھ کر اسلام سے روشناس ہوئے۔ اسی طرح مولانا مودودیؒ کی کتب کے مطالعے کی بدولت خود بے شمار مسلمانوں کی زندگیوں میں انقلاب برپا ہوا۔
مولانا مودودیؒ کا کمال تھا کہ جن علاقوں کا کبھی سفر نہ کیا تھا، وہاں کے حالات سے بھی باخبر تھے۔ چند واقعات براعظم افریقہ کے تناظر میں پیش خدمت ہیں۔ 1974ء کے آغاز میں مولانا مودودیؒ کے حکم پر مجھے اسلامک فائونڈیشن نیروبی میں خدمات سر انجام دینے کے لیے کینیا جانے کا اتفاق ہوا اور12 برس تک وہاں رہا۔ اس دوران عموماً سال میں ایک یا دو مرتبہ مجھے پاکستان آنے کا موقع ملتا تھا۔1978ء تک ہر مرتبہ واپسی پر میں مولانا محترم کی خدمت میں حاضر ہوتا تھا۔ وہاں سے رہنمائی کے لیے کبھی کبھار خطوط بھی ارسال کیے جاتے تھے۔ مولانا مرحوم افریقہ کے بارے میں اس قدر معلومات رکھتے تھے کہ حیرانی ہوتی، حالانکہ مولانا نے کبھی افریقہ کا دورہ نہ کیا تھا۔
میں نے حبشہ کے ظالم شہنشاہ ہیل سلاسی کا تختہ الٹے جانے کے بعد اس کے مظالم کا تذکرہ کیا تو مولانا نے فرمایا: ''ہیل سلاسی بڑا ظالم اور متعصب عیسائی تھا۔ اس کے دل میں اسلام سے شدید بغض و عناد تھا، مگر نئے آنے والے کمیونسٹ فوجی افسران، مسلمانوں پر اس سے بھی زیادہ ظلم ڈھائیں گے کیونکہ سوویت یونین نے جہاں کہیں اپنے حامیوں کو کامیاب کرایا ہے، خوف و ہراس کی بدترین فضا پیدا کی ہے۔ اس کے باوجود ایک اچھا پہلو یہ ہے کہ اریٹیریا کے مسلمانوں کی تحریک اب مضبوط ہو جائے گی، کیونکہ ہیل سلاسی پورے ملک میں اتحاد کا مظہر سمجھا جاتا تھا۔ اس کے لیے پایا جانے والا نام نہاد تقدس موجودہ فوجی حکمرانوں کو حاصل نہ ہوگا‘‘۔ یہ بات مولانا مودودیؒ نے اکتوبر 1975ء کو فرمائی تھی۔ کس قدر درست تجزیہ اور کتنی سچی پیش بینی تھی۔ 1993ء میں مسلم علاقہ اریٹیریا حبشہ کی غلامی سے آزاد ہوگیا۔
1978ء میں مجھے اچانک اپنی والدہ مرحومہ کی شدید بیماری کی وجہ سے پاکستان آنا پڑا تو مولانا سے ملاقات ہوئی۔ یوگنڈا کے فوجی ڈکٹیٹر عیدی امین کی حکومت کے خلاف عیسائی باغیوں نے تنزانیہ کی افواج کے تعاون سے خانہ جنگی شروع کر دی تھی۔ باغی مسلسل پیش قدمی کر رہے تھے۔ یوگنڈا میں مسلمان اقلیت میں ہیں۔ مولانا سے ملاقات ہوئی، ان کی طبیعت ناساز تھی مگر کمال شفقت و محبت سے انہوں نے مجھے کافی وقت دیا۔ میں نے اجازت چاہی تو فرمایا: ''نہیں ابھی ذرا بیٹھو۔‘‘
مولانا محمدسلطان مرحوم اور حفیظ احمدمرحوم بھی میرے ساتھ تھے۔ مولانا نے اس جنگ کے بارے میں فرمایا: ''عیدی امین کی حماقتوں کا خمیازہ مسلم عوام کو بھگتنا پڑے گا۔ اس کے خلاف جس طرح ساری قوتیں سرگرم عمل ہیں، اس کی شکست اب بالکل نوشتۂ دیوار ہے۔ اسے تو کہیں نہ کہیں پناہ مل جائے گی مگر عام مسلمانوں پر سخت عذاب آ جائے گا‘‘۔ جولیس نیریرے (صدر تنزانیہ) کے بارے میں فرمایا: ''وہ زنجبار کی مسلم حیثیت اور اسلامی تشخص کو ختم کرنے کا پہلے ہی مجرم ہے، اب یوگنڈا میں بھی ایک تنگ دل عیسائی مشنری کی طرح اسلام کی بیخ کنی کرے گا‘‘۔ اس کے پانچ‘ چھ ماہ بعد اپریل 1979ء میں یوگنڈا پر باغیوں کا قبضہ ہوگیا۔ عیدی امین کو تو سعودی عرب میں سیاسی پناہ مل گئی، مگر مسلمان آبادی ظلم کا نشانہ بنی۔
افریقہ میں یورپی ممالک کی مشنری سرگرمیاں کافی عرصے سے منظم انداز میں چل رہی ہیں۔ مغربی دنیا کے دیگر ملکوں کی طرح ڈنمارک کی بعض تنظیموں نے بھی یہاں مشنری ادارے قائم کیے ہیں۔ ایسا ہی ایک ادارہ کینیا کے ایک ضلعی صدر مقام اسیولو میں تھا۔ یہ سنٹر ہمارے الفلاح اسلامک مرکز سے متصل تھا۔ یہاں کا انچارج ایک ڈینش نوجوان پریبن بوگارڈ (Preben Bundgaard) تھا۔ الفلاح مرکز کے انچارج جناب شیخ محمد سلفی تھے۔ مسٹر پریبن کے ساتھ ان کی مجلسیں ہوتی رہتی تھیں۔ اسیولیو نیروبی سے تقریباً دو سو کلو میٹر کے فاصلے پر شمال مشرق میں واقع ہے۔ شیخ صاحب نے ایک روز وہاں مسٹر پریبن سے ہمارا تعارف کرایا کہ ان کے ذہن میں اسلام کے بارے میں بہت سے سوالات ہیں۔ مسٹر پریبن نے پہلی ہی ملاقات میں کئی سوالات پوچھے۔ جس سے اندازہ ہوا کہ اسلام کے بارے میں ان کی معلومات کس قدر غلط ہیں۔ ان سے درخواست کی گئی کہ وہ سنجیدگی سے اسلام کی بنیادی تعلیمات کا مطالعہ کریں۔ انہیں سب سے پہلے ''سلامتی کا راستہ‘‘ دی گئی جو سواحلی اور انگریزی دونوں زبانوں میں دستیاب تھی۔ سواحلی زبان میں اس کا نام Njia ya Amani Na Uokofu ہے۔ انگریزی میں یہ Road to Peace and Salvation کے نام سے دستیاب ہے۔
پہلی کتاب مکمل طور پر پڑھ لینے کے بعد مسٹر پریبن نے کہا: ''اس کتاب نے میرے دل میں ایک آگ سی لگا دی ہے، کچھ سمجھ نہیں آ رہی کہ حقیقت تک پہنچنے کے لیے کیا کروں۔‘‘ انہیں بتایا گیا کہ وہ ''دینیات‘‘ کا مطالعہ کریں اور اس کے نتیجے میں ذہن میں اٹھنے والے سوالات پیش کریں۔ چنانچہ دینیات کا مطالعہ مکمل کرنے کے بعد وہ اسیولو سے نیروبی آئے۔ جب وہ اسلامک فائونڈیشن کے دفتر قرآن ہائوس میں پہنچے تو میں اس وقت نماز پڑھ رہا تھا۔ چوکیدار نے دروازہ کھول دیا اور وہ ہال میں کرسی پر بیٹھ گئے۔ میں نماز سے فارغ ہوا علیک سلیک کے بعد جب انہوں نے اپنے ڈینش لہجے میں پوری ثنا پڑھ دی تو مجھے خوشگوار تعجب ہوا۔ میں نے پوچھا: ''مسٹر پریبن! کیا آپ مسلمان ہوچکے ہیں؟‘‘ کہنے لگے: ''ابھی نہیں، البتہ اس کی جانب پیش قدمی شروع کر دی ہے‘‘۔
میں نے پوچھا: ''پھر آپ نے یہ عربی عبارت کس طرح یاد کی ہے؟‘‘ کہنے لگے: ''دینیات کتاب میں اسلام کا بہت جامع تعارف کرایا گیا ہے۔ اس کتاب کے مطابق معلوم ہوا جو شخص مسلمان ہوتا ہے اس پر سب سے پہلے نماز فرض ہو جاتی ہے جس سے فرار ممکن نہیں۔ اس لیے میں نے سوچا کہ اگر میں مسلمان ہو جائوں اور نماز پڑھنا نہ آتی ہو تو یہ ایک ناقص مسلمان کی صورت ہوگی؛ چنانچہ میں نے باقاعدہ مسلمان ہونے سے پہلے نماز یاد کرنا شروع کر دی ہے۔ اب میں آپ کو دعوت دیتا ہوں کہ آپ 15 دن بعد اسیولو آئیں اور ہم اپنی اس ملاقات میں حتمی طور پر طے کرلیں کہ آیا مجھے مسلمان ہونا ہے یا اپنے سابقہ مذہب پر رہنا ہے‘‘۔
اگلے سفر میں جب ہم اسیولو پہنچے تو قافلہ ڈاکٹر محمد سعید صاحب، خلیل ملک صاحب، حاجی محمد لقمان صاحب، محمد اختر بھٹی صاحب پر مشتمل تھا۔ شیخ محمد سلفی صاحب ہمارے میزبان تھے اور ہمیں اس بات کا انتظار تھا کہ مسٹر پریبن الفلاح مرکز میں کب آتے ہیں۔ شیخ سلفی بتانے لگے کہ پریبن نے صبح سے کئی مرتبہ پوچھا ہے کہ نیروبی سے مہمان کب آئیں گے۔ ہم یہ باتیں کر ہی رہے تھے کہ مسٹر پریبن تشریف لے آئے اور آتے ہی کہا: ''السلام علیکم‘‘۔ ہم نے ان کا حال احوال معلوم کیا۔ میں نے کہا: ''کیا آپ مسلمان ہوچکے ہیں‘‘۔ انہوں نے کہا: ''ہاں، ان شاء اللہ آج مسلمان ہونے کا ارادہ کرکے آیا ہوں‘‘۔اس مجلس میں سب لوگوں کی زبان پر اللہ اکبر، اللہ اکبر کی صدا تھی اور بعض کی آنکھوں میں آنسو بھی۔ اسی مجلس میں مسٹر پریبن کو کلمہ پڑھایا گیا، جو انہوں نے پہلے سے یاد کیا ہوا تھا۔ اسی روز ان کا اسلامی نام عبدالرحمن رکھا گیا۔ واقعہ یہ ہے کہ اس انقلاب کا سب سے بڑا محرک سید مودودیؒ کی کتب ہی ہیں۔
مسٹر پریبن جواب عبدالرحمن بن چکے تھے، اس سے قبل کینیا کی ایک مقامی لڑکی کے ساتھ رہائش پذیر تھے، وہ ایک عیسائی لڑکی تھی۔ عبدالرحمن کی کوششوں کے باوجود وہ مسلمان نہ ہوئی تو ان کے درمیان ایک خلیج حائل ہوگئی۔ اس واقعے کے بعد عبدالرحمن کو ان کے مشن نے ملازمت سے نکال دیا اور انہوں نے وطن واپسی کے لیے رختِ سفر باندھا۔ قبل اس کے کہ وہ واپس جاتے، ان کی خواہش تھی کہ وہ عمرے کی سعادت حاصل کرلیں۔ اس دوران نام کی تبدیلی، قبولِ اسلام کی شہادت اور سرٹیفکیٹ تیار کرلیا گیا۔ اسی مجلس میں ان کے سامنے تجویز رکھی گئی کہ کیوں نہ عمرے کی ادائیگی کے بعد اسلامک فائونڈیشن کے مرکز میں کچھ عرصہ کام کریں؛ چنانچہ وہ اس پر تیار ہوگئے۔ عبدالرحمن کو جو معاوضہ ڈنمارک حکومت کی طرف سے مل رہا تھا، ہم وہ تو نہ دے سکے، لیکن ہمارا معمولی سا معاوضہ بھی اس متلاشی ٔ حق نے قبول کرلیا۔ انہوں نے ہمارے ساتھ تقریباً دو سال تک کام کیا۔ دو سال بعد انھوں نے مستقل طور پر ڈنمارک جاکر اسلامک سنٹر کوپن ہیگن میں خدمات انجام دیں۔ ان کی شادی ایک پاکستانی لڑکی سے ہوگئی تھی اور وہ خوشگوار زندگی گزار رہے تھے مگر ان کا کوئی بچہ نہیں تھا۔ وہ پاکستان بھی دو تین مرتبہ تشریف لائے۔
عمر ہا در کعبہ و بت خانہ می نالہ حیات
ناز بزم عشق یک دانائے راز آید بروں!
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved