معروف اور جید علماء کرام نے اللہ اور اس کے رسولﷺ کے نام پر حکومت اور طالبان سے فوری جنگ بندی کی اپیل کی ہے۔ذرائع کے مطابق علماء نے کہا ہے کہ اب وقت آگیا ہے کہ ملک کو خانہ جنگی سے نکالنے اور امن وامان کے قیام کے لیے مدارس اور خانقاہوں سے باہر آکر عملی طورپر اپنا کردار اداکیا جائے۔ علماء نے یہ بھی کہا ہے کہ طاقت کا بے جا استعمال اور خونریزی کسی مسئلے کا مستقل حل نہیں۔ 30ستمبر کا یہ اجلاس اور یہ اپیل‘ بظاہر ایک خوش آئند پیش رفت ہے۔ خدا کرے کہ یہ اپیل صدابصحرا نہ ثابت ہو ۔ لیکن کیا ایسا ہوسکے گا؟ جو کشت وخون سالہا سال سے جاری ہے، کیا اس کا مداوا یہ ایک اجلاس کرسکے گا؟ وہ جو ناصر کاظمی نے کہا تھا ؎ میں اپنا عقدۂ دل تجھ کو سونپ دیتا ہوں بڑا مزا ہو اگر وا نہ کرسکے تو بھی تو یہ مسئلہ اتنا آسان نہیں جتنا نظر آتا ہے۔ علماء کے اس اجلاس اور ان کی اپیل کا تجزیہ کرتے ہوئے دوپہلو خاص طورپر سامنے رکھنے ہوں گے۔ اول ۔ یہ اجلاس ایک خاص مکتب فکر کے علماومشائخ کا تھا۔ یہ کہنا کہ یہ ملک بھر کے جید علما کا اجلاس تھا، واقعاتی اعتبار سے درست نہیں۔ اس اجلاس میں شیعہ‘ بریلوی اور اہل حدیث مسلک کے علما اور مشائخ شامل نہیں تھے۔ صرف وہی علماء تھے جو وفاق المدارس سے تعلق رکھتے ہیں۔ قارئین کی معلومات کے لیے بتانا مناسب ہوگا کہ ہرمکتب فکر کے مدارس کی اپنی تنظیم ہے جو امتحانات اور نتائج کے اعلان کی ذمہ دار ہے۔ بریلوی مکتبِ فکر کے مدارس کی باڈی تنظیم المدارس کہلاتی ہے۔ مفتی منیب الرحمن اس کے سربراہ ہیں۔ اسی طرح اہلِ تشیع اور اہل حدیث مکاتب فکر کے مدارس کی تنظیمیں الگ ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ جماعت اسلامی کے مدارس الگ ہیں۔ گویا ان کا تعلق دیوبندی‘ بریلوی‘ شیعہ‘ اہل حدیث‘ کسی مکتب فکر سے نہیں‘ حالانکہ عقائد کی روسے جماعت اسلامی دیوبند مسلک کے قریب سمجھی جاتی ہے۔ جماعت اسلامی نے اپنے مدارس کی تنظیم الگ کیوں بنائی؟ اس کا سبب نہیں معلوم۔ کہتے ہیں ایک شخص نے دعویٰ کیا کہ میرا 72فرقوں میں سے کسی فرقے سے کوئی تعلق نہیں۔ سننے والے نے جواب دیا کہ پھر یوںکہو نا کہ تمہارا 73واں فرقہ ہے! پھر ان تمام مکاتب فکر کے مدارس کی تنظیموں کا ایک متحدہ پلیٹ فارم بھی ہے جسے ’’تنظیمات المدارس‘‘ کہا جاتا ہے۔ 30ستمبرکو علماو مشائخ کا جواجلاس ہوا اور جس کے نتیجہ میں حکومت اور طالبان سے امن کی اپیل کی گئی ہے، وہ اجلاس صرف وفاق المدارس کے مکتب فکر کا تھا۔ یہاں ایک دلچسپ نکتہ یہ بھی ہے کہ مولانا فضل الرحمن اور مولانا سمیع الحق اس اجلاس میں شریک نہیں تھے‘ حالانکہ وہ اسی مکتب فکر سے تعلق رکھتے ہیں اور طالبان کے مسئلے پر اپنی واضح آراء رکھتے ہیں۔ دوم۔تحریک طالبان پاکستان کا تعلق بھی اسی مکتب فکر سے ہے۔ وہ جن مدارس کے پڑھے ہوئے ہیں وہ مدارس ’’وفاق المدارس‘‘ ہی سے وابستہ ہیں۔ یہ ہیں دواہم پہلو جو اس ضمن میں سامنے رکھنے ہوں گے۔ علما اور مشائخ کی اس اپیل کے ایک دن بعد تحریک طالبان پاکستان کی طرف سے اپیل کے خیر مقدم کی خبریں شائع ہوئیں۔ طالبان نے یہ بھی کہا کہ یہ تمام علما و مشائخ ان کے لیے قابل احترام ہیں۔ اب مقطع میں جو سخن گسترانہ سوال آپڑا ہے‘ یہ ہے کہ اگر تحریکِ طالبان پاکستان کے ارکان اسی مکتبِ فکر سے تعلق رکھتے ہیں جس سے یہ علما اور مشائخ وابستہ ہیں اور اگر طالبان ان مقدس ہستیوں کا احترام بھی کرتے ہیں تو پھر کشت وخون کیوں نہیں رک رہا ؟ یہ ہے وہ بنیادی سوال جس کے جواب پر امن کا انحصار ہے۔ اس وقت ملک میں تین فریق ہیں۔ ایک فریق طالبان خود ہیں دوسرا فریق وہ پاکستانی عوام ہیں جو طالبان کے ساتھ نظریاتی طورپر اتفاق کرتے ہیں۔ تیسرا فریق عوام کا وہ بڑا حصہ ہے جو طالبان کے خیالات سے اختلاف کرتا ہے۔ یادرہے کہ اختلاف کرنے والوں میں اس مکتب فکر کے بھی لاکھوں لوگ شامل ہیں جس مکتب فکر سے خود طالبان وابستہ ہیں۔ جس طرح عوام علماء ومشائخ کی رہنمائی کے محتاج ہیں اسی طرح طالبان کو بھی رہنمائی درکار ہے۔ طالبان اپنے علاقوں میں موجود علماء کرام سے ضرور رہنمائی حاصل کرتے ہوں گے لیکن مفتی محمد رفیع عثمانی، جسٹس تقی عثمانی اور مولانا سلیم اللہ خان کے ہم پایہ علماء یقیناً طالبان کے علاقوں میں موجود نہیں۔ اگر ہماری عرض گزاری کو گستاخی پر نہ محمول کیا جائے تو ہم یہ کہنے کی جسارت کریں گے کہ اس مکتب فکر کے علماء ومشائخ نے اپنا فرض سرانجام نہیں دیا۔ اس دعویٰ کے ثبوت میں کئی دلائل پیش کیے جاسکتے ہیں۔ اول ۔ آج تک ان علما ومشائخ نے واضح طورپر یہ نہیں بتایا کہ وہ طالبان کے تصور اسلام اور طریق کار سے اتفاق کرتے ہیں یا اختلاف ۔ ہمیں نہیں معلوم یہ کتمانِ حق ہے یا اس تغافل کا کوئی اور نام بھی ہے لیکن ان کا کوئی موقف کبھی سامنے نہیں آیا۔ مثلاً لال مسجد کے مولانا عبدالرشید غازی صاحب کے متعلق مولانا جسٹس تقی عثمانی صاحب کا یہ مؤقف آج بھی یوٹیوب پر دیکھا اور سنا جاسکتا ہے کہ عبدالرشید غازی صاحب کے مطالبات درست تھے لیکن طریقہ درست نہیں تھا اور یہ کہ ان کا طریقہ شرعی اور اخلاقی دونوں اعتبار سے صحیح تھا۔ اور یہ کہ ان کی سوچنے سمجھنے کی صلاحیت جذبے سے مغلوب ہوکر رہ گئی تھی۔ لیکن ہمارے ان جید اور قابل احترام علما نے تحریک طالبان پاکستان کے مطالبات اور طریق کار کے متعلق آج تک اپنا مؤقف اس طرح کھل کر بیان نہیں کیا۔ دوم۔ کیا مولانا فضل اللہ، مسلم خان، بیت اللہ محسود ، حکیم اللہ محسود اور طالبان کے کئی اور لیڈر عالِم ہیں؟ اور کیا وہ فی الواقع دیوبند مکتب فکر کی نمائندگی کررہے ہیں؟ اس اہم سوال کا جواب بھی ان ثقہ علما نے کبھی نہیں دیا۔ نتیجہ یہ ہے کہ عوام خواہ جس مکتب فکر سے بھی تعلق رکھتے ہوں، طالبان کے ان رہنمائوں کو اس مکتب فکر کا نمائندہ سمجھتے ہیں۔ سوم۔ جب طالبان نے دوسرے مسلک کے رہنمائوں کی لاشیں قبروں سے نکال کر چوراہوں پر لٹکائیں اور مزاروں پر دھماکے کیے، اس وقت بھی ہمارے یہ قابل احترام علما خاموش رہے۔ جب داتا دربار لاہور کے دھماکے میں درجنوں افراد موت کے گھاٹ اتر گئے اور سنی اتحاد کونسل نے جلوس میں مخالف مکتب فکر کے دومعروف علما کی گرفتاری کا مطالبہ کیا تب بھی اس طرف سے مکمل خاموشی اختیار کی گئی۔ چہارم۔ علما نے اپنی اپیل میں حکومت اور طالبان دونوں کو یکساں طورپر مخاطب کیا ہے۔ یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا یہ علما پاکستانی ریاست کے حکمرانوں کو ’’اولی الامر‘‘ سمجھتے ہیں ؟مفتی محمد شفیع مرحوم اپنی تفسیر معارف القرآن میں سورہ نساء کی آیت 59(اے ایمان والو حکم مانو اللہ کا اور حکم مانو رسولؐ کا اور حاکموں کا جو تم میں سے ہوں ) کی تفسیر میں لکھتے ہیں : ’’آیت مذکورہ میں اولوالامر کی اطاعت سے علما اور حکام دونوں کی اطاعت مراد ہے۔ اس لیے اس آیت کی رو سے فقہی تحقیقات میں فقہا کی اطاعت اور انتظامی امور میں حکام وامرا کی اطاعت واجب ہوگی۔‘‘ آگے چل کر مفتی صاحب مرحوم فرماتے ہیں: ’’جس طرح خصوصیات قرآن میں قرآن کا اتباع اور منصوصات رسولؐ میں رسولؐ کا اتباع لازم وواجب ہے اسی طرح غیر منصوص فقہی چیزوں میں فقہا کا اور انتظامی امور میں حکام وامرا کا اتباع واجب ہے۔ یہی مفہوم ہے اطاعت اولی الامر کا۔‘‘ (معارف القرآن جلددوم۔ صفحہ 453۔ طبع جدید اکتوبر 1983ء) مفتی محمد شفیع صاحب مرحوم کے دونوں صاحبزادے مولانا مفتی رفیع عثمانی اور مولانا جسٹس تقی عثمانی ان نامور علما کے سرخیل ہیں جنہوں نے 30ستمبر کو طالبان اور حکومت کے نام اپیل کی۔ دونوں نامور علماء حکومت پاکستان کو اپنی آمدنی سے ٹیکس بھی ادا کرتے ہوں گے۔ جس شریعت کورٹ کے مولانا تقی عثمانی جج رہے وہ بھی پاکستانی ریاست اور حکومت کا حصہ تھی اور ہے۔ تو کیا پاکستانی ریاست کے خلاف طالبان کا خروج ( مسلح بغاوت) جائز ہے ؟ ۔ اگر جائز ہے تو ان محترم علماء کرام کو اس خروج میں نہ صرف حصہ لینا چاہیے بلکہ اس کی قیادت فرمانی چاہیے اور اگر جائز نہیں تو واضح طورپر اس کا اعلان کرنا چاہیے۔ (جاری)
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved