تحریر : عمران یعقوب خان تاریخ اشاعت     28-09-2023

بھارت کا مکروہ چہرہ بے نقاب

بھارت ایک سیکولر اور دنیا کا سب سے بڑا جمہوری ملک ہونے کا دعویدار ہے لیکن اس کی اصلیت نام بڑا اور درشن چھوٹے جیسی ہے۔ ایک وقت تھا جب بھارت دنیا کو اپنا اصل اور مکروہ چہرہ چھپانے میں کامیاب رہتا تھا لیکن اب بھارت کی اصلیت دنیا پر آشکار ہو چکی ہے۔ اقوامِ عالم کو پتا چل چکا ہے کہ ہندوستان در حقیقت منافقت‘ مکاری اور دہشت گردی کی ساری حدیں پار کر چکا ہے۔ کینیڈا میں خالصتان تحریک کے سکھ رہنما ہردیپ سنگھ نجر کے قتل کے بعد دنیا پر یہ حقیقت آشکار ہو چکی ہے کہ مودی سرکار ظلم اور بربریت میں ہٹلر کو بھی پیچھے چھوڑ چکی ہے۔ ہردیپ سنگھ نجر کے قتل کی کہانی کچھ یوں ہے کہ انہیں18جون کو کینیڈا کے صوبے برٹش کولمبیا میں گولیاں مار کر قتل کیا جاتا ہے۔ اس کے بعد 18ستمبر کو پہلی بار کینیڈین حکومت اس قتل میں بھارت کے ملوث ہونے کا الزام عائد کرتی ہے۔ اس موقع پرکینیڈین وزیراعظم جسٹن ٹروڈو اپنے بیان میں کہتے ہیں کہ کینیڈین انٹیلی جنس نے ہردیپ سنگھ نجر کی موت اور بھارتی حکومت کے درمیان تعلق کی نشاندہی کی ہے۔ جسٹن ٹروڈو کہتے ہیں کہ یہ معاملہ جی 20 سربراہی کانفرنس میں بھارتی وزیراعظم مودی کے سامنے رکھا گیا تھا کہ ہماری سرزمین پر ہمارے ہی ایک شہری کے قتل میں آپ حکومت کا ملوث ہونا ہماری خود مختاری کے خلاف ہے۔ کینیڈا نے بھارت کے سفارتکار پوَن کمار رائے کو ملک بدر کرنے کا حکم دیا اور دعویٰ کیا کہ یہ بھارتی سفارت کار دراصل ''را‘‘ کا سربراہ ہے۔ اب آپ اندازہ کریں کہ مودی خالصتان تحریک سے اس قدر خوفزدہ ہے کہ وہ اس کو دبانے کے لیے دیگر ممالک میں بھی اپنی بدنامِ زمانہ ایجنسی را کو استعمال کر رہا ہے۔ وہی را جس نے پاکستان میں چینی قونصل خانے اور سانحۂ آرمی پبلک سکول پشاور سمیت کئی بڑی تخریبی کارروائیاں کروائیں۔ کلبھوشن یادیو اس بھارتی دہشت گردی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ پاکستان کے دفتر خارجہ نے بھارتی دہشت گردی کا جو مؤقف دنیا کے سامنے رکھا ہے‘ اب کینیڈا سمیت دیگر بڑے ملک بھی اس کی تائید کر رہے ہیں۔
بھارت کو یہ خدشہ لاحق ہے کہ خالصتان تحریک پھر سے زور پکڑ سکتی ہے۔ مودی سرکار اس سے خوفزدہ ہے‘ اسی لیے وہ خالصتان تحریک کے رہنماؤں کو قتل کروا رہی ہے تاکہ یہ تحریک کسی بھی طرح دب جائے۔ ہندوستان کی یہ شیطانی سوچ امریکہ بھی اچھے سے سمجھ گیا ہے‘ یہی وجہ ہے کہ امریکی حکومت نے اپنے ہاں سرگرم سکھ رہنماؤں کو بھی بھارت سے خطرے کے حوالے سے خبردار کیا ہے۔دوسری جانب ہردیپ سنگھ نجر کے قتل میں بھارت کے ملوث ہونے کے شواہد ملنے کے بعد کینیڈا اور امریکہ کی سکھ تنظیمیں بھارتی سفارتخانوں کے سامنے مظاہرے کر رہی ہیں۔ امریکی اور کینیڈین میڈیا اس قتل اور اس کے بعد پیدا ہونے والی صورتحال پر گہری نظر رکھے ہوئے ہے۔ امریکی میڈیا نے عینی شاہدین اور سی سی ٹی وی فوٹیج کی بنیاد پر دعویٰ کیا ہے کہ ہردیپ سنگھ نجر کے قتل میں تین نہیں بلکہ چھ افراد ملوث تھے۔ امریکی میڈیا کے بقول اس قتل میں ملوث ملزموں نے ایک نہیں بلکہ دو گاڑیاں استعمال کیں۔ ہردیپ سنگھ کی گاڑی کو ملزموں کی ایک گاڑی نے پارکنگ میں روکا‘ جس کے بعد اچانک نمودار ہونے والے دو ملزموں نے فائرنگ کی۔ مقتول پر 50 گولیاں برسائی گئیں‘ جن میں سے 34 ہردیپ سنگھ نجر کو لگیں۔ اس کے علاوہ یہ بھی دعویٰ کیا گیا ہے کہ نجر کا قتل اس نوعیت کے پہلے رپورٹ کیے گئے واقعات سے کہیں زیادہ منظم تھا۔نریندر مودی سکھوں سے کتنی نفرت کرتا ہے‘ یہ سب کے سامنے آچکا ہے۔ مودی کے نشانے پر سکھ اور مسلمان دونوں ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اب بھارتی پارلیمنٹ کے مسلم رہنما بھی اس خدشے کا اظہار کر رہے ہیں کہ عنقریب انہیں بھی ایسے ہی قتلِ عام کا نشانہ بنایا جا سکتا ہے۔ آل انڈیا مجلسِ اتحاد المسلمین پارٹی کے سربراہ اور لوک سبھا کے رکن اسد الدین اویسی نے مودی سرکار کوکڑی تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا ہے کہ بی جے پی کی مسلمانوں سے نفرت نسل در نسل چلتی آ رہی ہے۔ وہ وقت دور نہیں جب بھارتی پارلیمنٹ میں مسلم اراکینِ پارلیمنٹ کو پیٹ پیٹ کر قتل کر دیا جائے گا۔
بھارت خالصتان تحریک سے خوفزدہ کیوں ہے‘ اس کی ایک تاریخ ہے۔ 1970ء اور 1980ء کی دہائیوں میں سکھوں کی آزادی کی تحریک ایسے موڑ پر پہنچ گئی تھی جس نے بھارت کو ہلا کر رکھ دیا تھا۔ اس تحریک کا مرکز بھارت کی سکھ اکثریتی شمالی ریاست پنجاب میں تھا۔ سکھ بھارت کی آبادی کا تقریباً 1.7فیصد ہیں۔ ان کی یہ جدوجہد ایک دہائی سے زیادہ جاری رہی۔ جس کو بھارتی حکومت نے جبر کے ذریعے دبایا۔ ہزاروں لوگ مارے گئے جن میں بہت سے معروف سکھ رہنما بھی شامل تھے۔ انسانی حقوق کی ایک تنظیم کے مطابق بہت سے سکھوں کو حراست میں بھی لیا گیا لیکن بھارتی حکومت اور سکھوں کے درمیان کشیدگی کا عروج اس وقت دیکھنے میں آیا جب 1984ء میں بھارتی فوج نے امرتسر میں سکھوں کی مقدس ترین عبادت گاہ گولڈن ٹیمپل پر دھاوا بول دیا تا کہ وہاں پناہ لینے والے علیحدگی پسندوں کو باہر نکال سکے۔ سرکاری اعداد و شمارکے مطابق اس آپریشن میں تقریباً 400 سکھ مارے گئے لیکن سکھ گروپوں کے مطابق یہ تعداد ہزاروں میں تھی جس میں سکھ علیحدگی پسند رہنما جرنیل سنگھ بھنڈرانوالہ بھی شامل تھے جن پر بھارتی حکومت نے مسلح بغاوت کی قیادت کرنے کا الزام لگایا تھا۔ آپریشن بلیو سٹار نامی اس کارروائی کی اجازت اس وقت کی وزیراعظم اندرا گاندھی نے دی تھی جس کے بعد 31اکتوبر 1984ء کو اندرا گاندھی کو ان کی حفاظت پر مامور دو سکھ محافظوں نے قتل کر دیا تھا۔ ان کی موت کے بعد سکھ مخالف فسادات کا ایک سلسلہ شروع ہوا جس میں ہندو بلوائیوں نے پورے شمالی بھارت خاص طور پر نئی دہلی میں گھر گھر جا کر سکھوں پر حملے کیے اور ان میں سے بہت سوں کو مار ڈالا اور بہت سوں کو زندہ جلا دیا۔
بھارتی حکومت کے مطابق سکھ علیحدگی پسند دوبارہ فعال ہونے کی کوشش کر رہے ہیں۔ بھارت کینیڈا‘ آسٹریلیا اور برطانیہ جیسے ممالک پر وہاں مقیم سکھ رہنمائوں کے خلاف کارروائی کرنے کے لیے مسلسل زور ڈال رہا ہے۔ مودی نے ذاتی طور پر ان ممالک کے وزرائے اعظم کے سامنے یہ مسئلہ رکھا ہے۔ بھارت نے خاص طور پر کینیڈا کے ساتھ ان خدشات کی نشاندہی کی ہے جہاں سکھ ملکی آبادی کا تقریباً دو فیصد ہیں۔ مودی سکھوں کی تحریک کو کچلنا چاہتا ہے لیکن اب دنیا اس کی شرپسندی سے اچھی طرح واقف ہو چکی ہے۔ بلومبرگ کی ایک رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ 2014ء میں مودی کے اقتدار میں آنے کے بعد سے بھارت میں مسلمانوں کے خلاف کارروائیاں بہت بڑھ گئی ہیں۔ مسلمانوں کے خلاف نفرت انگیز تقاریر کے ریکارڈ شدہ 255 واقعات میں سے تقریباً 80 فیصد ان ریاستوں میں ہوئے جہاں بھارتیہ جنتا پارٹی کی حکومت ہے۔ بلومبرگ نے واشنگٹن ڈی سی میں قائم ایک تحقیقی گروپ ہندوتوا واچ کی طرف سے جاری کردہ ایک رپورٹ کا حوالہ دیا جس میں نفرت انگیز تقاریر اور بھارت میں اقلیتوں کے خلاف جرائم کے اعداد و شمار کا ذکر کیا گیا تھا۔ بی جے پی کی جانب سے بھارت کی مسلم آبادی کو تعصب اور مذہبی ظلم و ستم کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے جس کے بارے میں ناقدین کا کہنا ہے کہ اس کا مقصد مسلمانوں کو پسماندہ کرنا اور انہیں بھارت سے بے دخل کرکے بھارت کو ہندو ملک میں تبدیل کرنا ہے لیکن اب مودی حکومت کو منہ کی کھانا پڑے گی کیونکہ دنیا اب اس کے مکروہ فریب سے آگاہ ہو چکی ہے۔ اور ظلم تو پھر ظلم ہے، بڑھتا ہے تو مٹ جاتا ہے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved