تھکن سے چور بدن کو ایک پُرسکون اور بھرپور نیند میسر آجائے تو اگلے سفر بہت آسان ہو جاتے ہیں۔ گبالا کی وہ رات ایسی ہی تھی۔ صبح آنکھ کھلی تو پہلے کھڑکی کے پردے ہٹا کر نئے دن کو جھانکا۔ سامنے وادی اور پہاڑ دھند کے نیلگوں غلاف میں لپٹے ہوئے تھے جس میں کہیں کہیں سبز شگافوں سے درخت لہراتے نظر آرہے تھے۔ سرمئی اور کالے بادلوں نے گبالا پر سائبان تانا ہوا تھا اور بادلوں سے آبِ حیات کبھی بوند بوند اور کبھی موسلادھار ہری زمین پر برستا جارہا تھا۔ میں نے سوچا کہ آج کیبل کار کی سیر اسی بارش اور دھند کے بیچ کرنی ہو گی۔ اس موسم کی خوبصورتی اور رومانیت اپنی جگہ لیکن کھلے منظر کی وسعت اور حسن اس میں میسر آنا مشکل ہے۔ خیر میاں! جو بھی موسم مقدر ہوگا‘ اچھا ہی ہوگا۔
ترکی اور آذر بائیجانی ناشتے سے بہتر شاید کوئی اور بفے نہ ہو۔ اس ناشتے کا تو انتظار لگتا ہے۔ کئی طرح کے تازہ پھل جن میں سبز اور سیاہ میٹھے انگور‘ گرما‘ تربوز خاص طور پر دن کے آغاز کی مٹھاس بدن میں سمودیتے ہیں۔ گاجر‘ سیب‘ چیری اور ناشپاتی کی چٹنیاں اور مربے شاید ان علاقوں کے سوا کہیں اور ناشتے پر موجود نہیں ہوتے۔ سبز اور سیاہ زیتون تو لازمی ہیں۔ ان کے علاوہ ناشتے کے دیگر لوازمات جو دنیا بھر میں ہوا کرتے ہیں وہ بھی بہر صورت اس بفے کا حصہ ہوتے ہیں۔ چنانچہ کسی بھی ملک اور ذائقے کا مسافر اپنے مطلب اور پسند کی چیزوں سے بھرپور ناشتہ کر لیتا ہے۔ اگر یہ ناشتہ قدرے تاخیر سے کیا ہو تو دوپہر کا کھانا کھانے کی بالکل ضرورت نہیں رہتی اور میرا سفر کا یہی معمول رہتا ہے۔ کافی کا کپ ہاتھ میں لیے میں ہوٹل کے حسین عقبی لان میں نکلا تو چھاجوں مینہ برس رہا تھا۔ بارش ایک ایسی دیرینہ دوست ہے جو ہر کہیں آملتی ہے۔ سمندروں‘ میدانوں‘ پہاڑوں‘ وادیوں اور دریاؤں میں جب سب دوست کہیں پیچھے رہ جاتے ہیں تو بارش مسکراتی‘ اٹھلاتی‘ لہراتی‘ چھیڑتی اور بھگوتی آتی ہے اور آپ کے گالوں‘ بالوں اور ہونٹوں پر بوسے ثبت کرتی اور پھول کھلاتی جاتی ہے۔ پیاری دوست! تمہارے سوا کون ہے جو ہر جگہ پیار دے سکتا ہو۔
''توفن داگ‘‘ پہاڑ گبالا شہر پر سایہ فگن ہے۔ گبالا کے دامن سے پہاڑ پندرہ منٹ کے فاصلے پر ہے۔ میں توفن داگ کے لیے نکلا تو بارش میرے ساتھ تھی۔ پہاڑ پر ایک ریزارٹ یعنی تفریحی ہوٹل ہے اور اس سے اوپر کیبل کار سٹیشن۔ ویسے تو یہ ذرا سا اوپر ہی لگتا ہے لیکن لاتعداد پہاڑی سیڑھیاں چڑھتے چڑھتے بے دم ہونے لگا تو آخر کیبل کار سٹیشن آہی گیا۔ سیاح زیادہ نہیں تھے اور ایک وجہ بارش بھی تھی۔ اس سٹیشن سے کیبل کار اوپر توفن داگ پر لے جاتی ہے۔ مجھے 90منات یعنی تقریباً 16ہزار روپے کا ٹکٹ خاصا مہنگا لگا لیکن اب اتنی دور آکر کوئی چارہ نہیں تھا۔ کیبل کار پلاسٹک شیشے سے ڈھکی ہوئی تھی‘ اس لیے بارش میں کوئی دقت نہیں تھی۔ مسئلہ تھا تو یہ کہ چند فٹ سے آگے منظر دکھائی نہیں دیتا تھا۔
ہم توفن داگ کی چوٹی کی طرف جارہے تھے اور دائیں بائیں بلند درخت کیبل کار کو چھو کر گزرتے جاتے تھے۔ بیس منٹ میں کیبل کار چوٹی پر پہنچی اور میں موسلا دھار بارش میں اُترا۔ یہ ایک کھلا اور مسطح قطعہ تھا جسے خوبصورتی سے آراستہ کیا گیا تھا۔ ہر طرف نظارے کے لیے کھلی جگہ تھی لیکن سردی بھی اچھی خاصی تھی۔ جیکٹ کے بغیر گزارا نہیں تھا۔ ایک طرف ایک کیفے اور ریستوران موجود تھا جو بارش اور سردی میں پناہ گاہ کی طرح تھا۔ میں ریستوران میں داخل ہوا تو سامنے ایک مصنوعی مگر خوبصورت آتش دان میں لکڑیوں کے کندے جل رہے تھے اور ان سے نارنجی اور سرخ لہراتے شعلے آٹھ رہے تھے۔ کچھ دیر بیٹھنے اور چائے کافی کے لیے آرام دہ اور خوبصورت جگہ تھی۔ ریستوران کے باہر تین طرف کھلی ہوا میں کھلی بالکنیاں تھیں اور ان میں کرسیاں پڑی تھی۔ میں نے شیشے کی دیوار کے پاس ایک میز منتخب کی اور بوندوں کو رخساروں جیسے شیشوں پر پھسلتے اور ڈھلکتے دیکھتا رہا۔ آذربائیجانی چائے عام چائے کی پتیوں سے نہیں بلکہ پھولوں اور خوشبودار پودوں کے پتوں سے بنائی جاتی ہے۔ گرم چائے کی چسکیاں سردی میں جسم کے اندر نارنجی سرخ لہراتے شعلے اٹھاتی تھیں۔ خدایا! کیسی نعمتیں ہیں اسی زمین میں جو بہرحال عارضی قیام گاہ ہے۔ اسی کیفے کی طرح جس میں اس وقت بیٹھا ہوں۔
کافی دیر اسی ریستوران میں وقت گزارا چونکہ یہاں سے واپس باکو جانا تھا اور قریب قریب چھ گھنٹے کا سفر تھا‘ اس لیے زیادہ دیر نہیں کی جا سکتی تھی۔ گبالا سے باکو کے راستے میں وادیاں‘ وسیع و عریض سرسبز میدان‘ کھیت‘ مویشیوں کے جھنڈ اور لکڑی سے بنے مکانات دکھائی دیتے ہیں۔ راستے میں مسافروں کے لیے تھوڑے تھوڑے سے فاصلے پر قہوہ خانے بھی موجود ہیں۔ بہرحال میں نے کیفے سے نکل کر دیکھا کہ ایک کیبل کار تو اسی طرف نیچے واپس جارہی تھی جہاں سے میں آیا تھا لیکن ایک اور کیبل کار ایک دوسری سمت بھی جارہی تھی۔ ایک لمحے کے لیے تجسس ہوا کہ یہ دوسری سمت کیبل کار کیسی؟ لیکن آذربائیجان میں انگلش جاننے والے بہت کم ہیں‘ اس لیے بات سمجھنا سمجھانا بھی نہایت مشکل ہے۔ میں نیچے جانے والی کیبل کار میں بیٹھ گیا۔ نیچے سٹیشن پر اترا تو ٹکٹ کاؤنٹر پر بیٹھے آدمی نے‘ جو انگلش بولتا سمجھتا تھا‘ پوچھا کہ آپ دونوں سٹیشنوں پر ہو آئے؟ کون سے دونوں سٹیشن؟ میں نے حیرت سے پوچھا۔ تو کیا آپ دریا کی سمت جانے والی کیبل کار میں نہیں بیٹھے؟ صدمے سے میری حالت خراب ہونے لگی۔ تو کیا دوسری کیبل کار میں بھی جانا تھا؟ یہ تو کسی نے بتایا ہی نہیں۔ جی بالکل۔ یہ ٹکٹ تو دونوں کا تھا۔ اب واپس جانے کی کوئی صورت بھی نہیں تھی اور یہی ممکن تھا کہ افسوس کرتے ہوئے باکو روانہ ہو جایا جائے۔ میں نے یہی کیا اور کر بھی کیا سکتا تھا؟
تو پیارے دوستو! آپ بھی اگر توفن داگ جائیں اور کوئی آپ کی رہنمائی کرنے والا نہ ہو تو پھر بھی دریا کی طرف والی کیبل کار میں ضرور بیٹھیے گا ورنہ سولہ ہزار روپے دکھ دیتے رہیں گے‘ جیسے اب مجھے دے رہے ہیں۔ باکو کا موسم خوشگوار گرم تھا‘ جیکٹ اتار کر آدھی آستینوں کی جون میں آنا پڑا۔ اس خنک رات باکو کی رونقوں کے بیچ نرم گرم بستر میں گھستے ہوئے میں قبا(گْبا)‘ مجارا‘ قسر اور شاہ داگ کے اجنبی مگر حسین شہروں کے بارے میں سوچ رہا تھا جہاں مجھے کل سفر کرنا تھا۔ سوچ سفر کر ہی رہی تھی کہ نیند کا ایک جھونکا آیا اور مجھے اڑا کر کوہِ قاف میں ایک نیلی جھیل کے کنارے لے گیا۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved