تحریر : عمار چودھری تاریخ اشاعت     28-09-2023

سیاحت

ویسے یہ چورن بیچنے والوں کی بھی کچھ سمجھ نہیں آتی جو یہ کہتے ہیں کہ پاکستان جیسا خوبصورت ملک اور کوئی نہیں ہے۔ یہاں کی وادیاں‘ جھیلیں اور قدرتی مناظر دنیا بھر میں کہیں نہیں ملتے اور پاکستان کے شمالی علاقے جنت کے ٹکڑے ہیں۔ بالکل درست‘ مان لیتے ہیں کہ اس ملک کی بہت سی جگہیں بہت خوبصورت اور لاجواب ہیں‘ یہاں خوبصورت ترین وادیاں‘ پہاڑ‘ جھرنے‘ آبشاریں‘ ندیاں‘ جھیلیں اور میدان ہیں لیکن سوال یہ ہے کہ یہ سب تو خدا نے ہمیں عطا کیا ہے‘ اس میں ہمارا کیا کارنامہ ہے۔ یہ شمالی علاقہ جات‘ یہ پہاڑ‘ یہ ندیاں‘ یہ مناظر‘ یہ سب کچھ اس وقت بھی تھا جب پاکستان نہیں بنا تھا اور نہ ہی یہ کریڈٹ گزرے ہوئے لوگوں یا حکومتوں کا ہے، یہ تو خاص قدرت کی عنایات ہیں جو دنیا کے دیگر ملکوں کی طرح اس خطے پر بھی نازل ہوئیں اور ہمارے حصے میں بھی آئیں۔ اصل بات تو یہ ہے کہ ہم نے اس قدرتی حسن کو نکھارنے‘ بچانے‘ دنیا کے سامنے لانے‘ ان علاقوں اور یہاں تک پہنچنے کے راستوں میں بہتری اور ان مقامات کو عالمی سیاحتی معیار کے مطابق بنانے کیلئے کیا کیا۔ جو کام ہم نے کیا ہی نہیں‘ ہم اس کا کریڈٹ لینے کے فراق میں کیوں رہتے ہیں؟
اب تو انٹرنیٹ کا دور ہے۔ دنیا بھر کے بارے میں سب کچھ آن لائن دیکھا جا رہا ہے۔ ہمارے جو مقامی سیاح‘ اپنے ہی علاقوں میں جا رہے ہیں وہ ان جنت نظیر وادیوں میں اس طرح جان جوکھوں میں ڈال کر پہنچتے ہیں‘ گویا میدانِ جنگ کا سفر کر رہے ہوں، یہ سب کچھ دنیا بھی دیکھ رہی ہے۔ ہم تو ابھی تک ناران‘ کاغان تک بھی لوگوں کی رسائی اور سڑکوں کو بہتر نہیں کر سکے ہیں، وہ وادیاں جو واقعی دیکھنے سے تعلق رکھتی ہیں‘ وہاں تک تو پہنچنا ہی جوئے شیر لانے سے کم نہیں۔ نجانے کیوں ہم اپنی تقریروں اور تحریروں میں بار بار پاکستان کو ایک حسین جادوئی خطہ بنا کر پیش کرتے ہیں کہ جب ہم ان علاقوں کو جانے کے لیے پکی سڑکیں تک نہیں بنا سکے۔ جو سڑکیں بنا رہے تھے‘ انہیں ہم الزام دیا کرتے تھے کہ سڑکیں بنانے سے قومیں ترقی نہیں کرتیں، اگر اس سے ترقی نہیں کرتیں تو پھر کیا سوشل میڈیا پر ٹرولنگ بریگیڈ بنانے سے قومیں ترقی کرتی ہیں یا سیاسی مخالفین کو طعنے دینے سے، ان پر الزام تراشی سے قومیں ترقی کرتی ہیں؟
ہم ایک عرصے سے اپنے معروف سیاحتی مقامات کو سبز باغ کی صورت میں دنیا کو دکھا رہے ہیں اور جب کھینچ کھانچ کے چند غیر ملکی ٹورسٹس کو یہاں لے کر آتے ہیں تو ان کے ساتھ جو سلوک ہوتا ہے‘ وہ مرے کو مارے شاہ مدار ثابت ہوتا ہے۔ ایسے کئی واقعات ہو چکے ہیں کہ جن میں غیرملکی سیاحوں کے ساتھ ناروا سلوک کیا گیا‘ انہیں تنگ کیا گیا حتیٰ کہ ان کی عزت اور پیسے تک لوٹنے کی کوشش کی گئی۔ بیشتر سیاحوں کو یہاں آ کر پتا چلتا ہے کہ جن حسین و جمیل پریوں والی وادیوں کو دیکھنے کے لیے وہ اتنی دور آئے ہیں وہاں جانا اُتنا ہی مشکل ہے جتنا کسی پروفیشنل کوہ پیما کے لیے کے ٹو یا مائونٹ ایورسٹ سر کرنا۔ غیرملکی جوڑوں کو دیکھ کر یہاں ویسے ہی ایک ہجوم جمع ہو جاتا ہے جیسے کوئی غیرمرئی مخلوق ان کے درمیان آ گئی ہو۔ پھر ہر کسی کی کوشش ہوتی ہے کہ ان سے زیادہ سے زیادہ پیسے ہتھیائے جائیں کہ انہیں کیا پتا کہ یہاں کیا ریٹ چل رہا ہے۔ ویسے گورے بھی اب بہت سیانے ہو گئے ہیں اور مختلف موبائل ایپس کی مدد سے جان لیتے ہیں کہ کس جگہ جانے کا کتنا کرایہ ہے اور کیسے فراڈیوں سے بچنا ہے۔ کہنے کو اس ملک میں نوے فیصد سے زیادہ مسلمان آباد ہیں مگر دھوکا دہی، فراڈ اور ٹھگی کی صورتحال کیا ہے، یہ بتانے کی چنداں ضرورت نہیں۔
دنیا بھر میں گزشتہ روز سیاحت کا عالمی دن منایا گیا۔ پاکستان میں بھی یہ دن بڑے جوش و خروش سے منایا جاتا ہے۔ دنیا میں ایسے دن مناتے وقت دیکھا جاتا ہے کہ ہم کل کہاں تھے اور آج کہاں کھڑے ہیں اور آگے کہاں جانا ہے، یعنی اپنی غلطیوں اور کوتاہیوں کا ادراک کرتے ہوئے اپنی نئی منزلوں کا تعین کیا جاتا ہے، جبکہ ہمارے ہاں زیادہ سے زیادہ بات کیک کاٹنے تک محدود رہتی ہے یا پھر چند ایک بیانات داغ دیے جاتے ہیں اور یہ تک دیکھنے کی زحمت گوارا نہیں کی جاتی کہ یہ دن منایا کیوں جا رہا ہے، اس کے اسباب اور اہداف کیا ہیں۔ کتنے ہی سیاحتی مقامات اور شہر ایسے ہیں کہ جہاں لوگ اپنی فیملی کے ساتھ جاتے ہوئے گھبراتے ہیں۔ مری تو خیر کب کا قصہ پارینہ بن چکا‘ کبھی اس کے مال روڈ اور کشمیر پوائنٹ روح کو تسکین دیا کرتے تھے۔ اب وہاں اتنے سیاح نہیں ہوتے جتنے مقامی ہوٹلوں کے ایجنٹس‘ جیب کترے اور غنڈے موالی ہوتے ہیں۔ پھر نہ یہاں ہوٹلوں کے ریٹ کنٹرول کرنے کیلئے کوئی میکانزم ہے نہ کوئی قانون و ضابطہ۔ ہر کسی کی اپنی مرضی ہے جو چاہے کرتا پھرے، گویا یہ علاقہ ملک کا حصہ نہیں بلکہ کوئی علاقہ غیر ہے جہاں کوئی قانون نہیں چلتا۔ سیاحت کے حوالے سے رہی سہی کسر موسم اور عالمی درجہ حرارت میں ہونے والی غیر معمولی تبدیلیوں نے نکال دی ہے۔ جو تھوڑا بہت انفراسٹرکچر بچھایا گیا، وہ بھی تباہ ہو گیا۔ گزشتہ برس سیلاب کی وجہ سے سیاحتی مقامات اور سیاحت کی صنعت کو بے پناہ نقصان پہنچا۔ سوات‘ بحرین جانے والے راستے بند ہو گئے اور پل ٹوٹ کر پانی میں بہہ گئے۔ ایسے میں پاک فوج نے متعدد مقامات کو ہنگامی بنیادوں پر درست کیا؛ تاہم اب بھی ان علاقوں کو جانے والی سڑکیں خستہ حالی کا شکار ہیں۔ عام گاڑیاں تو وہاں لے جانے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ ہر کسی کے پاس جیپ نما گاڑیاں نہیں ہوتیں، اس کے باوجود لوگ گرتے پڑتے ان علاقوں کی طرف نکل پڑتے ہیں کہ اور کہاں جائیں۔ پاکستان میں موٹر ہوم کا بھی رواج نہیں جیسا کہ بعض مغربی ممالک اور امریکہ وغیرہ میں ہے۔ دو یا چار پہیوں والا ایک کمرہ نما گاڑی کیساتھ باندھ لیا جاتا ہے اور مختلف مقامات پر رک کر وہیں موٹر ہوم میں رات بسر کر لی جاتی ہے۔ جدید ممالک میں ایسے موٹر ہوم مختلف کمپنیاں کرائے پر دیتی ہیں جن میں فریج‘ کچن‘ بیڈ اور باتھ روم وغیرہ انسٹال کیے ہوتے ہیں۔ لوگ اپنی فیملی کے ساتھ کئی ہفتوں کے ٹرپ بھی ان میں انجوائے کر لیتے ہیں۔ پاکستان کو نجانے اس مقام تک پہنچنے میں کتنے سال لگیں گے۔ لوگ تفریح کے لیے جانا چاہتے ہیں لیکن ان مسائل کی وجہ سے پلان ادھورے پڑے رہ جاتے ہیں۔ ناران‘ کاغان اور ایسے دیگر علاقوں میں کئی موڑ ایسے آتے ہیں جن پر پہاڑ سے یا کسی آبشار اور گلیشیر پگھلنے سے مسلسل پانی بہہ رہا ہوتا ہے جس کی وجہ سے گاڑیوں کو خطرہ بھی لاحق ہوتا ہے اور وہاں سے سڑکیں بھی ٹوٹ پھوٹ جاتی ہیں۔ تھوڑی سی سمجھ بوجھ سے ان مسائل کا حل نکل سکتا ہے اور اوپر سے آنے والے پانی کو سڑک کے نیچے بذریعہ ٹنل یا پائپ گزار کر سڑک کو بچایا جا سکتا ہے اور بہتے ہوئے پانی کو ضائع ہونے سے بچانے کے لیے بھی سسٹم بنایا جا سکتا ہے تاکہ پانی کو قابلِ استعمال بنایا جا سکے، مگر کسی کی کوئی توجہ ہی نہیں۔ اسی طرح سڑکوں کے ساتھ ساتھ سیاحتی علاقوں میں باقاعدہ ٹورسٹ گائیڈز کا بھی اہتمام ہونا چاہیے اور بالخصوص تیز رفتار انٹرنیٹ کی موجودگی یقینی بنائی جائے کیونکہ اب بہت سے ٹریول وی لاگرز ادھر کا رخ کر رہے ہیں لیکن اپنی وڈیوز اَپ لوڈ نہیں کر پاتے۔ لینڈ سلائیڈنگ کی وجہ سے گزشتہ برس بے شمار حادثات ہوئے۔ ایسے علاقوں کو محفوظ بنانے کا اہتمام ہونا چاہیے نہ کہ ہر کوئی اپنی قسمت کے سہارے سفر کرے اور قسمت اگر اچھی ہو تو بچ کر واپس آ جائے، نہیں تو...۔
یہ بات سن سن کر کان پک چکے ہیں کہ پاکستان ٹورزم انڈسٹری سے کروڑوں ڈالر کما سکتا ہے۔ یقینا! بالکل کما سکتا ہے مگر کیسے؟ قدرت کی مہربانی کہ جس نے ہمیں بہترین قسم کا موسم اور خوبصورت علاقے فراہم کر دیے لیکن ان سے فائدہ تو ہم نے خود ہی اٹھانا ہے۔ معروف شاعر وصی شاہ اس وقت وزیراعظم کے مشیر برائے سیاحت ہیں۔ شاعر نسبتاً زیادہ حساس ہوتے ہیں اور مسائل کو جلد اور زیادہ بہتر انداز میں سمجھتے ہیں‘ اس لیے اگر وہ چاہیں تو کم وقت میں بھی سیاحت کے شعبے میں کافی بہتری لا سکتے ہیں۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved