لندن جانے کا فائدہ ہوتا ہے کہ ہر دفعہ کچھ ایسی کتابیں مل جاتی ہیں جو پورا سال آپ گھر بیٹھ کر پڑھ سکتے ہیں ۔ دنیا بھر کا ادب لندن بک اسٹورز سے ملتا ہے۔ میری وہاں سب سے بڑی تفریح خوبصورت موسم میں طویل واک کرنا ہوتا ہے وہاں کتابوں کی دکانوں میں پھرنا بھی شامل ہے اور فکشن میری ترجیح ہوتا ہے؛ تاہم اس دفعہ جس کتاب نے میری توجہ اپنی طرف کھینچ لی وہ میکاولی کی کتاب ’’پرنس‘‘ کا نیا ایڈیشن تھا ۔ اگرچہ اس سے قبل پرنس کے دو انگریزی ترجمے شائع ہو چکے ہیں۔ تاہم انہیں پڑھنے اور سمجھنے کے لیے میکاولی کی اپنی کتاب سے زیادہ تشریح کی ضرورت پڑتی تھی۔ اس نئے ترجمے نے کمال کیا ہے کہ میرے جیسا عام آدمی بھی اسے پڑھ اور سمجھ سکتا ہے۔ ابھی جہاز کے سفر میں اس غیرمعمولی انسان کے شہزادے کو ریاست چلانے کے لیے دیے گئے مشوروں پر مشتمل کتاب کے چند صٖفحات ہی پڑھے ہیں اور لگتا ہے کہ ایک جہاں کی سیر کر لی۔میکاولی پر تنقید کی جاتی ہے کہ اس کے خیالات اور مشوروں میں انسانیت کا دور دور تک کوئی ذکر نہ تھا۔ اس نے ایک بادشاہ کے اقتدار کو طول دینے کے لیے اپنا ذہن استعمال کیا اور ایک درباری کی طرح ہی اس نے وہ کتاب تحریر کی جس کا سارا فائدہ صرف اور صرف ایک بادشاہ کو ہونا تھا۔ تو کیا ریاست واقعی ماں جیسی ہوتی ہے اور بادشاہ انسان دوست ہوتے ہیں ؟جس دور میں میکاولی یہ کتاب لکھ رہا تھا، اس دور میں ہندوستان میں کوئی کتاب نہیں پڑھتا تھا اور خصوصاً برصغیر میں تو مغلوں نے چھاپے خانے پر پابندی لگا رکھی تھی تاکہ اس خطے میں تعلیم عام نہ ہو سکے۔ اس لیے یہ غیرمعمولی کتاب برصغیر میں اس وقت پہنچی جب انگریز اپنے ساتھ علم اور اس کتاب کا انگریزی ترجمہ بھی لائے۔ تو کیا اٹلی کے دانشور میکاولی نے برصغیر کے بادشاہوں کو اپنے مشوروں سے نوازا تھا جنہوں نے میکاولی کی کتاب پڑھے بغیر بھی وہی کچھ کیا جو مشورے وہ اپنی کتاب میں دے چکا تھا ۔تو کیا میکاولی انسان دشمن تھا جسے اپنے جیسے انسانوں کی زندگیوں کے جینے مرنے سے کوئی غرض نہیں تھی۔ اگر اسے کوئی غرض تھی تو اس بات سے ایک بادشاہ اپنا اقتدار کیسے بچا سکتا ہے چاہے لاشیں ہی کیوں نہ گرانا پڑیں۔ بھلا کون انسان ہوگا جو میکاولی کے شہزادے کو دیے گئے اس مشورے کو اچھا سمجھے گا کہ ’’جب بھی بادشاہ کوئی نیا علاقہ فتح کرے تو اسے چاہیے وہ اس علاقے کے پرانے بادشاہ کے پورے خاندان کو سب سے پہلے ختم کرے اور کسی کو زندہ نہ چھوڑے تاکہ لوگوں کی آخری امید بھی ختم ہو کہ پرانا بادشاہ یا اس کا کوئی وارث کبھی لوٹ سکے گا‘‘۔ کتنی ظالمانہ تجویز لگتی ہے کہ شاہی خاندان کی کوئی شہزادی اور شہزادہ زندہ نہ رہنے دیا جائے۔ تو کیا یہ کام میکاولی سے پہلے اور بعد میں نہیں ہوتے رہے ؟ جب سلطنت عباسیہ کا قیام عمل میں آیا تھا تو کیا یہ کام بنو امیہ کے شہزادوں کے ساتھ نہیں کیا گیا تھا یا پھر اورنگزیب نے ہندوستان میں اپنے بھائیوں اور باپ کو بخش دیا تھا؟ اورنگزیب نے تو میکاولی نہیں پڑھ رکھا تھا ۔ اس نے بھی یہی کام کیا ۔ اقتدار کے لیے اپنے بھائیوں کے سرقلم کیے اور باپ کو جیل میں ڈالا تاکہ لوگ پرانے بادشاہ سے امیدیں لے کر نہ بیٹھ جائیں۔ تو پھر یہ دوش میکاولی کے سر کیوں کہ اس کے مشورے بڑے ظالمانہ تھے۔ میکاولی نے صرف بادشاہوں کے کارناموں اور تجربوں کے نچوڑ کو اپنی کتاب میں قلم بند کر دیا تھا ۔ اسے پتہ تھا بادشاہ یہ کچھ کرتے آئے ہیں اور کرتے جائیں گے۔ لہٰذا اس نے تاریخ سے چند واقعات سے یہی سبق سیکھا کہ بادشاہ کے لیے بہتر ہے کہ وہ پرانے بادشاہ کے خاندان کو قتل کر دے کیونکہ وہ یہ مشورہ دیتا یا نہ دیتا پھر بھی ہونا یہی کچھ تھا جیسے اس سے پہلے اور بعد میں ہوتا رہا تھا؛ تاہم میکاولی کی ایک بات نے مجھے متاثر کیا۔ وہ لکھتا ہے ’’جو جنگ آپ نے چند برس بعد لڑنی ہے بہتر ہے اسے آج ہی لڑ لیا جائے‘‘۔ اپنی بات میں وزن پیدا کرنے کے لیے میکاولی نے چند مثالیں دی ہیں کہ کیسے رومن فوجیں اگر چاہتیں تو اپنے دشمنوں سے کچھ جنگیں بعد میں لڑ سکتی تھیں اور انہیں کچھ عرصہ آرام کرنے کے لیے مل جاتا ۔ میکاولی کے بقول ایک جنگ جیتنے کے بعد رومن فوج کو علم تھا ان کا سامنا اپنے دشمن سے کسی اور میدان جنگ میں جلد یا بدیر ہونا ہے۔ اب رومن نے یہ فیصلہ کرنا تھا کہ وہ یہ جنگ فوراً لڑنا چاہتے ہیں یا بعد میں لڑیں گے۔ رومن فوج نے فیصلہ کیا کہ جو جنگ کچھ عرصے بعد لڑنی ہے وہ بہتر ہے آج ہی لڑ لی جائے اور وہی ہوا کہ انہوں نے نہ صرف وہ جنگ لڑی بلکہ وہ جنگ جیتی بھی۔ میکاولی سمجھتا تھا ایک بادشاہ یا شہزادے کو مضبوط فوج کی ضرورت ہوتی ہے۔ کسی بھی ریاست چاہے نئی ہو یا پرانی کے لیے دو چیزیں ضروری ہوتی ہیں۔ ایک اچھے قوانین اور دوسرے مضبوط فوج ۔ ایک اچھا بادشاہ وہی ہوتا ہے جو دشمن سے کسی بھی میدان جنگ میں ٹکر لے سکتا ہے۔ میکاولی کہتا ہے جو بادشاہ قلعے میں محصور ہو کر بیٹھ جاتا ہے یا پھر وہ دوسروں سے مدد کا خواہاں ہوتا ہے، اس کا انجام اچھا نہیں ہوتا ۔ اگر بادشاہ ایک اچھی فوج نہیں بنا سکتا تو پھر بہتر ہے کہ وہ مضبوط قلعے بنائے اور ان میں گھس کر بیٹھا رہے تاکہ دشمن اس کے قلعے پر حملے کر کے ناکام ہوکر چلے جائیں۔ میکاولی کا کہنا تھا اگر دو طاقت وروں کے درمیان جنگ شروع ہوجائے تو شہزادے کو غیر جانبدار نہیں رہنا چاہیے۔ اسے کسی ایک کا کھل کر ساتھ دینا چاہیے۔ اگر اس نے نیوٹرل رہنے کا فیصلہ کر لیا تو جو بھی جیتے گا وہ اس کا دشمن ہی رہے گا کیونکہ اسے احساس ہوگا کہ اس نے جنگ کے دنوں میں اس کا ساتھ نہیں دیا تھا۔ لہٰذا بہتر ہے کہ کھل کر کسی ایک کا ساتھ دیا جائے چاہے وہ جنگ ہار ہی کیوں نہ جائے۔ الگ تھلگ رہنا زیادہ خطرناک اور ریاست اور بادشاہ کے لیے بھی نقصان دہ سمجھا جائے گا ۔ اس طرح اگر بادشاہ کو کسی ایک چیز کا انتخاب کرنا ہو کہ لوگ اس سے خوفزدہ ہوں یا پھر اس سے محبت کے جذبات رکھیں تو بہتر ہے کہ وہ خوف کو ترجیح دے کیونکہ محبت میں لوگ زخم لگا سکتے ہیں لیکن جس سے ڈرتے ہوں اس کے خلاف کوئی غلط قدم اٹھانے سے پہلے کئی دفعہ سوچتے ہیں۔ میکاولی کی پانچ سو برس قبل لکھی گئی کتاب میں بہت کچھ ہے۔ عوام یقینا اس کتاب میں بادشاہ کو دیے گئے مشوروں سے نفرت کریں گے لیکن بادشاہوں کے لیے اس میں خزانہ چھپا ہوا ہے۔ ہمیں یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ میکاولی نے یہ کتاب عوام کے لیے نہیں بلکہ بادشاہ سلامت کے لیے لکھی تھی۔ اگر اب عوام اسے پڑھتے ہیں تو اس میں میکاولی کا بھلا کیا قصور۔ باقی چھوڑیں میکاولی کی اس بات کی داد دیں جو جنگ آپ نے چند برس بعد لڑنی ہے بہتر ہے اسے آج لڑ لیا جائے کیونکہ اس میں فتح کے امکانات زیادہ ہوتے ہیں اور کسی جنگ میں نیوٹرل رہنے کی بجائے کسی ایک فوج کا ساتھ دیا جائے۔ جو بات میکاولی کو سولہویں صدی کے اٹلی میں بیٹھ کر سمجھ آگئی تھی کہ جنگ کو ٹالنا نہیں چاہیے، وہ ہمیں پانچ سو برس بعد بھی سمجھ نہیں آئی۔ ہم اس جنگ سے بچنے کی کوششیں کر رہے ہیں جو ہمیں ہر حال میں آج نہیں تو کل لڑنی ہے ! آج میکاولی زندہ ہوتا تو پتہ نہیں وہ پاکستانی حکمرانوں کی شکست خوردہ سوچ پر کیا لکھتا اور اپنے شہزادے کو کیا مشورے دیتا؟ ہو سکتا ہے میکاولی اپنی کتاب نئے سرے سے لکھتا تو شہزادے کو ہماری جیسی شکست خوردہ اورخوفزدہ قوم کے بارے میں کچھ مفید مشورے دیتا اور انسانی ذہانت اور بیوقوفیوں سے بھرپور صدیوں پرانی تاریخ سے نہ سیکھنے پر ہماری نااہلی کا صرف ایک سطری مختصر نوحہ لکھ کر گزر جاتا!
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved