نواز شریف نے اپنے آپ کو بار بار انقلابی ثابت کیا ہے۔ آخری بار جب ان کے کمرشل سوپ ''Platlets‘‘کو چلایا گیا‘ تب بھی وہ انقلابی ہی تھے۔ وہ تب سے انقلابی لیڈر ہیں جب پاکستان کی موجودہ آبادی میں سے 65/70فیصد لوگ ابھی پیدا ہی نہیں ہوئے تھے۔ اس انقلاب کا آغاز بریگیڈیئر عبدالقیوم اور جنرل جیلانی نے اپنے دھلے ہوئے ہاتھوں سے کیا تھا۔ وقت گزرتا گیا‘ انقلاب دن دگنی رات چگنی ترقی کرتا چلا گیا۔ اس انقلاب کا دوسرا سٹاپ بی بی شہید کو ''امریکن سنڈی‘‘ قرار دے کر جہازوں سے ان کی انجینئرڈ تصویریں گرانے کا تھا۔ اس کے بعد تیسرا انقلاب آئی جے آئی کی صورت میں قوم نے بھگتا۔ انقلابِ ثالث کے بعد میرے کلائنٹ اور انتہائی عزیز دوست جنرل (ر) حمید گُل نے پوری قوم کے سامنے اس انقلاب کو بے نقاب کر ڈالا۔
تب سے اب تک نواز شریف کا انقلاب کہیں رکنے کا نام ہی نہیں لے رہا۔ حالانکہ آج کے پاکستان کی سیاست اور معیشت کے پہیے سمیت باقی سب کچھ رکا ہوا ہے۔ پھر پرویز مشرف کا دور آگیا۔ اس کے عطا کردہ روشن خیال شریفانہ انقلاب کی اندرونی کہانی اٹک قلعے سے براہِ راست جاننے والے تینوں کردار اب ہمارے درمیان نہیں رہے۔ ایک جناب مجید نظامی‘ دوسرے ملک رفیق ایڈووکیٹ اور تیسرے نواز شریف کی برادری سے تعلق رکھنے والے لاہور کے معروف فوجداری وکیل‘ جن کا نام لکھنا میں مناسب نہیں سمجھتا۔ یہ انقلاب چوتھے مرحلے میں داخل ہو کر اٹک قلعے سے شروع ہوا۔ جس کے بعد دیگچوں‘ باورچیوں اور صندوقچوں سمیت چارٹڈ طیارے کے ذریعے جدہ ایئر پورٹ سے ہوتا ہوا سرور پیلس میں جا پہنچا۔ یار لوگ سمجھ رہے تھے کہ اس کے بعد نواز شریف انقلاب سے دستبردار ہو کر اب پاکستان سے نہیں بھاگیں گے۔ سیانے کہہ گئے ہیں کہ علت اور ذِلت دونوں کا کوئی اعتبار نہیں ہوتا اور نہ ہی ان کا کوئی وقت طے ہوتا ہے۔ دونوں ہی جہاں گھس جائیں وہاں سے نکلنے کا نام ہی نہیں لیتیں۔
ان دنوں جس تازہ انقلاب نواز شریف کی نے بنیاد رکھی ہے اس نے یادوں کے دریچے سے انقلاب کی شبِ برات کھول دی۔ آئیے مل کر اس انقلاب کے پسِ پردہ جھانکتے ہیں۔
شریفانہ انقلاب کا پہلا دریچہ: سال ہے 2019ء۔ پی ڈی ایم جماعتوں کی اپوزیشن نے پاکستان تحریک انصاف کی حکومت سے پارلیمانی ذرائع کے ذریعے رابطہ کیا۔ جواز یہ بتلایا کہ وہ ملک کو ایشین ٹائیگر بنانے کے لیے ''میثاقِ معیشت‘‘ پر بات کرنا چاہتے ہیں۔ بات آئی گئی ہو گئی۔ ایک سویلین ادارے نے حکومت کو رپورٹ بھجوائی کہ اپوزیشن کی سرگرمیاں اقتدار کی غلام گردشوں میں بہت تیز ہو رہی ہیں۔ ساتھ یہ بھی پتا چلاکہ پی ڈی ایم باہر پبلک کے لیے بظاہر میثاقِ معیشت کا نعرہ لگا کر جبکہ اندرونِ خانہ اس وقت کے سب سے طاقتور اتالیق کے ساتھ مل کر 14پارٹیوں کو شریکِ اقتدار کرنے کے درپے ہے۔ اپوزیشن کو ختم کرنے اور مل بیٹھ کر وَنڈ کھاؤ‘ کھنڈ کھاؤ والی قومی حکومت قائم کرنا چاہتی ہے۔ اس طرح کی لابنگ‘ ملاقات سے آگے بڑھ کر فیصلوں تک پہنچ چکی تھی۔ مگر بروقت اطلاع اور مناسب اقدامات کے ذریعے سے عمران خان نے حالات کو سنبھالا دیا اور یوں اس سازش کو اقتدار کی غلام گردشوں سے دیس نکالا مل گیا۔ اس دوران اسی میگا اتالیق نے بعض کمزور دل وزیروں کو بلا کر حکومت کو اندر کی مار دینے کی کوشش کی جو جلد ایکسپوز ہوئی اور ناکام بھی ہوگئی۔
شریفانہ انقلاب کا دوسرا دریچہ: یہ دریچہ لیول پلیئنگ فیلڈکی طرح ایون فیلڈ اور جاتی عمرہ سے کھلتا ہے۔ نواز شریف دور کے وزیر دفاع نے برملا اعتراف کیا کہ قمر جاوید باجوہ سال 2019ء میں اُنہیں اقتدار میں لانے کے لیے تیار تھے۔ اس کھلے پبلک Confession سے ثابت ہوتا ہے کہ خان کی حکومت کی کارکردگی والی کہانیاں کہاں گھڑی گئیں۔ ساتھ یہ بھی پتا چلتا ہے کہ پاکستان تحریک انصاف کی حکومت کو پہلا سال مکمل کرنے سے پہلے پہلے گھر بھجوانے کا کام شروع ہو گیا تھا۔ اس دریچے کی اَن کہی داستان کا ایک واقعہ آپ سے شیئر کرنا ضروری ہے۔
پی ڈی ایم اپوزیشن کی سب سے بڑی پارٹی کے تین وزیر‘ دوسری بڑی پارٹی کا ایک وزیر‘ ایک سابق سپیکر اور ایک سابق وزیراعظم کو 'گو عمران گو‘ کا مشن سونپا گیا تھا۔ جب قومی حکومت والی کہانی برباد ہوئی تو یہ ٹیم میگا اتالیق کے پاس میری شکایت لے کر گئی۔ شکایت تھی کہ میں عمران خان کے کہنے پر بات آگے نہیں بڑھنے دیتا اور مذاکرات ناکام ہو جاتے ہیں۔ یہ بات میگا اتالیق نے ریپر میں لپیٹ کر اس وقت کے وزیراعظم کو بتائی اور کہا کہ آپ سے اپوزیشن کی ناراضی کی وجہ آپ کے دوست بابر اعوان ہیں۔
ان دنوں میں وزارتِ پارلیمانی امور کے قلمدان سے استعفیٰ دے چکا تھا۔ مگر پارٹی کی طرف سے پرائم منسٹر کے کہنے پر جہاں ضرورت ہو وہاں میں جایا کرتا تھا۔ اسی دوران ایک اور واقعہ ہو گیا۔ وہ یہ کہ اتالیق نے ایک درمیانے گھر میں میٹنگ بلائی جس میں مجھے بھی شرکت کے لیے پیغام بھیجا گیا۔ مجھے میٹنگ میں پہنچ کر پتا چلا کہ یہ میٹنگ میرے خلاف کی گئی شکایت کے بعد ہورہی ہے۔ وہ شکایت جو میں پہلے سن چکا تھا‘ انہی حضرات نے اپنے اپنے الفاظ میں سنائی جس کے دو حصے تھے۔ ایک قومی اتفاقِ رائے یعنی میثاقِ معیشت کے نام پر غیر نمائندہ لوگوں کی حکوت بنانے کے عمل میں رکاوٹ ڈالنا جبکہ دوسری شکایت یہ تھی کہ میں نے اپوزیشن کے اس ڈرافٹ کو اپنی رائے دے کر مسترد کر دیا تھا جس کے ذریعے نیب کے قانون میں 34 ترامیم کرکے NRO-II لینا تھا۔ میرے ساتھ تین لوگ اور بھی تھے جن میں سے دو پاکستان تحریک انصاف چھوڑ چکے ہیں۔ میں نے لاڈلوں کے اعتراضات غور اور تحمل سے سنے۔ پھر میں جواب دینے لگا تو مجھے کہا گیا کہ ملک صاحب! آپ کو بولنے کی ضرورت نہیں، ہم انہیں سمجھا دیں گے۔ اس دوران شکایتی لیڈروں کو میں نے جس انتہائی پست اور نیچ سطح پہ جا کر خوشامد کرتے ہوئے دیکھا‘ اس کو لکھنے کے لیے الفاظ بھی موجود نہیں۔
اب نواز شریف نے اپنے مجرموں کی جو فہرست بنائی ہے اس میں سے فیض حمید تب ان کے لیے اوتار کا درجہ رکھتے تھے۔ یا پھر اس سے بھی کچھ آگے۔ ملاقاتوں میں بڑے بڑے قد آور لوگوں کو ان کے چرن چھونے کے لیے چشمِ فلک نے کھلی آنکھوں سے دیکھا۔ نواز شریف کو یاد رکھنا ہوگاکہ انہوں نے قمر جاوید باجوہ کو دو مرتبہ عہدے پہ بٹھایا۔ اسی ذریعے سے رجیم چینج میں حکومت بھی حاصل کی۔ گمشدہ بیانیے کی تلاش میں نواز شریف مدعی نہیں بن سکتے‘ وہ ہمراہی ملزم ہیں اور قانون کی تشریح کے مطابق ملزم ہی رہیں گے۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved