میاں محمد شوکت برسوں جماعت اسلامی سندھ کے سیکرٹری جنرل رہے‘ پھر حیدر آباد شہر کی امارت سنبھالی۔مولانا سید ابو الاعلیٰ مودودی کے معتمد رفقا میں نمایاں رہے۔میاں طفیل محمد سے بھی اعتماد کا رشتہ بحال رہا۔1977ء میں قومی اتحاد کی ٹکٹ پر عام انتخابات میں حصہ لیا‘اور پورے ملک میں سب سے زیادہ ووٹ حاصل کر لئے۔اپنے حریف کے مقابل ان کی لیڈ سب سے زیادہ تھی۔ 1985ء کے غیر جماعتی انتخابات سے پہلے لسانی عصبیت نے سر اٹھایا تو ان کی جیت بھی ہار میں بدل گئی۔ان کی بیٹی طاہرہ میری اہلیہ ہیں۔چوبیس برس پہلے (طویل علالت کے بعد) اس دنیا سے رخصت ہوئے۔حیدر آباد سے تعلق رکھنے والے نامور قومی اخبار نویس ظہیر احمد ایک عرصے سے اُن کی سوانح حیات پر کام کر رہے تھے‘اُن کے قریبی رفقا کی یاد داشتیں انہوں نے بڑی محنت سے محفوظ کیں‘ اور اپنے تاثرات کو بھی تحریر کیا کہ وہ سندھ اور حیدر آباد کی سیاست کے معتبر عینی شاہد تھے (اور ہیں) چند ہی روز پہلے ان کی مرتب کردہ کتاب ''جہانِ شوکت‘‘ کے نام سے شائع ہوئی ہے۔اس میں سیاسی کارکنوں اور سیاست کے طالب علموں کیلئے دلچسپی کا سامان یوں موجود ہے کہ وہ جان سکیں کہ اس وطن ِ عزیز میں سیاست بے سرمایہ بھی ہوتی رہی ہے‘کردار اور اعتبار نے حالات کو بدلا اور طوفانوں کا رخ موڑا ہے۔ اس کتاب کیلئے تحریر کردہ میاں صاحب مرحوم کا تعارفی خاکہ قارئین کی نذر ہے۔
تھا ‘حیدر آباد جس کی سلطنت
میاں محمد شوکت‘ رنگ گورا‘ ماتھا اُونچا اور چوڑا‘ چہرہ بیضوی‘ آنکھیں روشن اور بڑی‘ جسم کسرتی‘ داڑھی طویل نہ مختصر‘ تبسم برلب‘ بالا و بلند قامت ‘ نرم گفُتار‘ سبُک رفتار‘ مزاج سادہ‘ پختہ ارادہ‘ بات کا پکّا‘ قول کا سچا۔ گرم دمِ جستجو‘اس کے مداح چار سُو‘ حیدر آباد اس کی سلطنت‘ بستی پٹھاناں جائے ولادت‘ حضرت مجددؒ کی آغوشِ عاطفت۔آبائی پیشہ زراعت۔ والد میاں اللہ بخش‘ مصروفِ مشقت و محنت۔ گھر میں روشن چراغِ حُریت‘ دادا الٰہی بخش جانثار تحریک ِ خلافت۔جس روز تھی شہر میں ''علی بھائیوں‘‘ کی آمد‘ برسے ان کے انوارِ خطابت۔اس روز ہوئے دنیا میں وارد‘دادا نے سنتے ہی خبر‘ نام رکھا مولانا شوکت پر کہ ہو نومولود گھر کی شوکت‘ شہر کی شوکت۔چھوٹے بھائی کا نام بعدازاں‘ہوا محمد علی‘ جُڑی علی برادران سے نسبت‘ دونوں بھائی‘ ایک دوسرے کی طاقت‘ یک جان دو قالب۔شیخ کریم اللہ سکول کے ساتھی‘یارِ غار‘ شریک ِ کار‘ ہاتھ میں ہاتھ‘عمر بھر کی رفاقت‘ جذبہ ٔ اخوت۔ حصولِ علم اس کی عبادت‘فارسی اور عربی پر کی حاصل قدرت۔ کبڈی کا کھلاڑی‘میدان میں بھاری‘اس کی مہارت‘وجہ ٔ شہرت۔ابوالکلام کا عاشق‘حسین احمد سے ارادت ‘ ہوا نصیب جب مطا لعہ ٔ سیرت‘ وا ہوئی یہ روشن حقیقت‘دربار ہے تو بس دربارِ رسالتؐ‘ شوکت علی سے بنے محمد شوکت‘ نظر کی رفعت۔ اس کی زباں پر نعرہ بغاوت۔ترک کر دی انگریز کی ملازمت۔ہوئے اپنے ہی سکول میں استاد مقرر‘عمر بھر رہی علم سے رغبت۔کانوں میں پڑی سید مودودیؒ کی آواز‘ان کی دعوت‘دل ہوا راغب۔کر لی گویا اُن کی بیعت۔منزل ٹھہری دیں کی اقامت‘ اللہ کی زمین پر اللہ کی حکومت۔
اس کی بیٹی طاہرہ خوش رو‘خوش خصلت۔اس کے قدموں تلے میرے بچوں کی جنت۔سراپا برکت و رحمت‘محو ِ تسبیح و تلاوت۔ خاموش فطرت‘ لہجہ میٹھا‘تضع نہ بناوٹ‘ کُھلا دست ِ سخاوت۔ اس کے دُعا گو اہل ِ حاجت‘ اپنے سے مقدم ان کی ضرورت۔اللہ کا کرم‘اس کی عنایت۔ ہاتھ میں برکت‘ پائوں میں حشمت۔ پیچھے دولت سامنے عزت‘برکت ہی برکت۔ بچوں کی عبادت‘اس کی خدمت‘زہے قسمت۔عمر اور عثمان حاضرِ خدمت‘ فیصل اور علی طالب ِ شفقت۔ بیٹی اور بہوئیں‘ یکساں‘ برابر‘ سب کا مقدر لُطف و محبت‘ سویرا‘ رابعہ دو آنکھوں کی صورت‘چہرے کی زینت۔نازیہ‘شیریں کی اپنی حلاوت‘مہک سے ہوا گھر سارا معطر‘ سب دِل کی ٹھنڈک نورِ بصارت۔
اس کی اہلیہ بی بی سلامت۔زوجہ ٔ ثانی‘ زخموں کی مرہم۔مسرت کی علامت۔ لالہ موسیٰ سے حیدر آباد تک‘ باعث ِ رحمت‘اس کی رفاقت۔گھر بچوں سے مہکا‘ مہریاں ہوئی قدرت۔ خورشید طاہرہ‘ربیعہ جمال‘ عامرہ مستور‘نور الصباح‘ حمیرا ناز‘پانچوں بہنیں‘ حُسنِ صورت‘ حُسنِ سیرت۔نام ان کے بھرپور مکمل‘ نہ رہے بدلنے کی ضرورت‘رہے مسلم ان کی حیثیت‘ الگ شخصیت۔سونے پہ سہاگہ ماں باپ کی صحبت‘داماد ایک ایک سے بڑھ کر ایک‘ امیر‘ نسیم‘ شعیب‘ سہیل خاور‘ سراپا سعادت‘ سب کے گھر گوشۂ راحت۔ جوانِ رعنا‘ بیٹا طاہر‘ آنکھ کی ٹھنک‘ دِل کی فرحت۔دے دیا اس نے داغِ فرقت‘ برپا ہوئی ایک قیامت۔اُڑ گیا پنچھی رہ گئی خلوت۔ راضی بہ رضا پیکر صبر و قناعت‘ اللہ اللہ ماں کی ہمت‘ برسوں پہلے کر گئی تھی برہم اسے شوہر کی بے پتہ حراست۔ کی احتجاجی جلوس کی قیادت۔ہر طرف گونجا آوازۂ مبارزت‘‘:کہاں ہے میرا شوکت کہاں ہے‘ کہاں ہے میرا شوکت؟
تحریک ِ نظامِ مصطفیؐ کے دوران خواتین کی یہ اولیں جسارت‘ ملک بھر میں بنی مثالِ عزیمت۔ لرزہ براندام حکومت‘ ہو کے رہی جس کو ہزیمت۔درِ زنداں کُھلا‘ہوا تمام عرصۂ اسارت۔صیاد نے خود دی بشارت: یہاں ہے تیرا شوکت‘یہاں ہے تیرا شوکت!وہ حیدر آباد کی شان‘اس کا ترجمان‘ یہ شہر اس پر قربان‘ جو ہندوستان سے آئے لُٹ پٹ کر‘ان مہاجروں کی یہاں کثرت‘میاں محمد شوکت‘ مہاجروں کی شوکت‘ ہجرت کے دوران کٹا پورا خاندان‘پاکستان پہنچے بہ ہزار صعوبت‘ ہمراہ تھی تو بس عُسرت‘ خاکِ پاک بنی بستر‘ باعث ِ راحت۔کچھ عرصہ دیکھا اِدھر اُدھر‘ لالہ موسیٰ سے پہنچے سکھر‘ پھر ٹھہری نظر حیدر آباد پر جا کر‘بنایا اسے مقامِ سکونت‘مطلوب تھی‘اسلام کی دعوت‘ ہوئے امیرِ اسلامی جماعت‘ کبھی قیم صوبہ‘کبھی امیرِ شہر‘ذمہ داری کا بوجھ سر پر‘ منصب بدلے لیکن نہ بدلا مزاج‘ نہ بدلی عادت۔
مولانا بھٹو اور مولانا عباسی کی امارت‘عجب سعادت۔رہے ملت کے مخدوم‘ سراپا خدمت۔ وسیع حلقہ ٔ درسِ قرآن و سنت۔ پھیلا دائرۂ تبلیغ و حکمت۔ بلدیہ سے اُٹھی مضبوط عمارت۔ بڑھی جماعت کی طاقت۔ زیر نگرانی ہوئی ''تفہیم القرآن‘‘ کی سندھی اشاعت۔ اس زبان پر بھی قدرت۔ حیدر آباد ان کی سلطنت‘یہاں قائم ان کی بادشاہت کہ دلوں پر ان کا راج‘اُن کی حکومت۔77ء کے انتخابات نے دی اس کی شہادت۔ہوئی ضبط مقابل کی ضمانت‘ لیڈ لی سب ملک سے بڑھ کر‘ عیاں عوام کی طاقت‘ پھر نازل ہوئی انوکھی بلا‘انوکھی مصیبت۔حملہ آور ہوا لسانی تعصب۔ موضوع بنی ان کی ہجرت۔پورے خاندان کا خون بے قدر و قیمت۔بے ثمر بچوں اور بیوی کی شہادت۔زہر گھولنے لگی لسانی عصبیت۔1985ء کے انتخابات میں تھا عجب منظر‘حالات نے لے لی‘ایک اور ہی کروٹ‘ ہر شے ہوئی تلپٹ‘
ایک دنیا محو ِ حیرت‘شہر کی ابتر حالت‘ عجب قلبِ ماہیت۔سمٹی جماعت کی طاقت‘ لُٹ گئی عمر بھر کی محنت۔یہ حیدر آباد بھی تھا ''دکن‘‘ کی صورت۔ دشمن نے وار کیا بھیس بدل کر‘پھوٹی 'نظام‘ کی قسمت۔ہاتھ سے نکلی ریاست۔ شکست دے نہ سکی‘لیکن ہزیمت‘ کھڑے رہے سینہ تان کر‘ متاثر ہوتی گئی صحت۔بگڑنے لگی حالت۔ایک بار پھر کی ہجرت‘ لاہور بنا سراپا محبت۔ جان لیوا تھی بیماری کی طوالت۔ہوئے عازمِ سفرِ آخرت‘آخری ہجرت۔ لاہور میں بنی تُربت۔ نصیب سید علی ہجویری اور سید مودودی کی قُربت۔آسودۂ خاک تا قیامت۔1921ء سال ولادت‘1999ء سنِ رخصت۔78 سال لمحہ ٔ مہلت۔ہمارے شاملِ حال اس کی دعا‘اس کی برکت‘ ہم اس کی بدولت باعث ِ عزت۔ ہاتھ اُٹھائے بہر مغفرت۔ہر دم سامنے اس کی شخصیت؎
''مرنے والے ‘‘ کی جبیں روشن ہے اس ظلمات میں
جس طرح تارے چمکتے ہیں اندھیری رات میں
(یہ کالم روزنامہ ''پاکستان‘‘ اور روزنامہ ''دنیا‘‘ میں بیک وقت شائع ہوتا ہے)
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved