بدقسمتی سے کچھ عرصے سے ہمارے ہاں سیاسی منافرت کو تقویت ملی ہے اور یہ تقسیم کی سیاست ہمارقومی اداروں میں بھی نظر آئی۔عدلیہ میں تو یہ تقسیم بڑی صاف نظر آئی۔ اختلاف جمہوریت کا حسن ہے لیکن جب یہ اختلاف اَنا یا ضد کی شکل اختیار کرلے تو پھر معاملہ خراب ہوجاتاہے۔یہی تقسیم بہت برُے طریقے سے عوام میں بھی سرایت کر چکی ہے۔سیاستدانوں کا تو کیاہی کہنا‘ یہ تو خود انہی کی دِین ہے۔ایک دوسرے کو چور ڈاکو کہنے کے چلن نے معاشرے میں جو بگاڑ پیدا کیا ہے اس کی تلافی بہت مشکل نظر آتی ہے۔ہم نے ٹی وی ٹاک شوز میں گالی گلوچ تو ہوتے دیکھی ہے۔لیکن تھپڑ رسید کرنے کی روایت حالیہ کچھ عرصے ہی میں زور پکڑتی نظر آئی ہے۔مرحوم نعیم الحق کا اپنے مخالفین پر گلاس پھینکنا۔ایوان میں علی نواز اعوان کی جانب سے نازیبازبان کا استعمال بھی ہم نے دیکھا۔ چوہدری ہی کے پروگرام میں فردوس عاشق اعوان کا پیپلزپارٹی کے رہنما قادر مندوخیل کو تھپڑ رسید کرنا سب کے سامنے ہے۔ حسنِ اتفاق دیکھئے کہ جاویدچوہدری کے پروگرام ہی میں سینیٹر افنان اللہ اور شیر افصل مروت کے درمیان الجھنے کے تازہ واقعے نے تو ہوش اڑا کر رکھ دیے ہیں۔عدم برداشت کے کلچر نے جو انگڑائی لی ہے وہ ہمارے لیے خطرے کی گھنٹی ہے کہ ہم کس حد تک ایک دوسرے کے اوپر اپنی رائے کو زبردستی مسلط کرنا چاہتے ہیں۔دونوں رہنماؤں کے تصادم کی ویڈیو دیکھنے کے بعد واضح طور پر نظر آیا کہ شیر افضل مروت آپے سے باہر ہوئے اور انہوں نے سینیٹر افنان اللہ پرحملہ کردیا‘افنان اللہ نے بھی فوری جواب دیتے ہوئے شیرافضل کو زمین پر گرا دیا ۔بات ایک دوسرے کے لیڈر پر گالیاں دینے سے شروع ہوئی اور ایک دوسرے کے خاندانوں تک جاپہنچی اور پھرمعاملہ ہاتھا پائی پر چلا گیا۔جب سیاستدانوں میں برداشت کا مادہ نہیں تو ان کے چاہنے والوں سے اس کی امیدکیسے کی جاسکتی ہے۔سانحہ 9 مئی بھی عدم برداشت اور سیاسی تقسیم کا نتیجہ تھا۔
ہم آپس میں لڑ رہے ہیں۔ ہمیں اندازہ نہیں کہ ہمارے ریاستی ادارے کمزور ہورہے ہیں۔ہماری معیشت تباہ حالی کا شکار ہے۔کوئی لیول پلینگ فیلڈ مانگ رہا ہے اور کوئی اپنے سارے کیسز معاف کرانا چاہتا ہے۔غرض کہ ہر کوئی اپنے مفادات کی جنگ لڑ رہا ہے۔دوسری طرف ملکی سالمیت داؤ پر لگ چکی ہے۔دشمن ہماری نا اتفاقی کا فائدہ اٹھارہا ہے‘ دہشت گردی کا فتنہ ہم پر مسلط ہے۔آپ نے وہ قصہ تو سنا ہوگا کہ ایک بوڑھا والد اپنے بچوں کو سمجھانے کے لیے انہیں لکڑیاں کاٹنے کے لیے بھیجتا ہے اور جب وہ لکڑیاں کاٹ کر لے آتے ہیں تو بوڑھا باپ اپنے بچوں سے لکڑیوں کے گٹھے کو توڑنے کا کہتا ہے تو کوئی بھی اس کو توڑ نہیں پاتا۔ اس کے بعد باپ نے اپنے بیٹوں کو ایک ایک لکڑی توڑنے کوکہا۔اس بار سب نے آسانی سے لکڑیاں توڑ دیں۔ اس سارے معاملے کے بعد باپ نے بیٹوں کو نصیحت کرتے ہوئے کہا کہ آپس میں حسنِ سلوک سے نہیں رہو گے تو تم ختم ہوجاؤ گے اور اتفاق سے رہو گے تو کوئی طاقت تمہارا کچھ بگاڑ نہیں سکے گی۔
آج ہم سیاسی اعتبار سے تقسیم ہوچکے ہیں اور اسی بات کا فائدہ دشمن اٹھا رہا ہے۔آپ دیکھئے کہ 12 ربیع الاول اس عظیم ہستی کی ولادت کا دن ہے جس نے ہمیشہ محبت اور انسانیت کا درس دیا۔اس دن شرپسندوں نے تخریبی کارروائیاں کیں۔ پہلے مستونگ اور پھر خیبر پختو خوا میں دہشت گردی کے بادل برسائے گئے۔خیبر پختونخوا کے کوہاٹ ڈویژن کے ضلع ہنگو کی مسجد میں نمازِ جمعہ کے خطبے کے دوران دھماکہ ہوا جس کے نتیجے میں پانچ افراد جاں بحق اور 12 زخمی ہو ئے۔ اسی طرح بلوچستان کے علاقے مستونگ میں دشمن نے اپنا بزدل وار تب کیا جب عید میلاد النبی کا جلوس نکالاجارہا تھا۔ خود کش دھماکے میں ڈی ایس پی مستونگ سمیت ساٹھ کے قریب افراد جاں بحق اور متعدد زخمی ہوئے ہیں۔یہ خود کش دھماکا مستونگ کی مدینہ مسجد کے باہر عید میلاد النبی کے جلوس کے لیے جمع افراد کے درمیان کیا گیا۔آپ دیکھئے کہ نگران وزیر اعظم انوارالحق کاکٹر اور وزیر داخلہ سرفراز بگٹی کا تعلق بھی صوبہ بلوچستان سے ہے۔ یہ حملہ ایک ایسے وقت پر کیا گیا جب نگران وفاقی اور صوبائی حکومتیں ملک میں آئندہ سال جنوری میں ہونے والے انتخابات کی تیاریوں میں مصروف ہیں۔رواں ماہ مستونگ میں ہونے والا یہ دوسرا خودکش حملہ ہے۔ اس سے پہلے 14 ستمبر کو مستونگ کے نواحی علاقے کھڈکوچہ کے قریب پاکستان کے سابق حکمران اتحاد‘ پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ کے ترجمان حافظ حمد اللہ کے قافلے پر بھی خود کش حملہ کیا گیا تھا۔ اس حملے میں حافظ حمد اللہ سمیت 11 افراد شدید زخمی ہوئے تھے۔اس سے قبل 13 مئی 2017ء کو مستونگ ہی کے علاقے میں سینیٹ کے سابق ڈپٹی چیئر مین مولانا عبدالغفور حیدری کے قافلے پر بھی خودکش حملہ ہوا تھا جس میں 25 افرادجاں بحق جبکہ 40 سے زائد زخمی ہوئے تھے۔گورنر سندھ کامران ٹیسوری اس خدشے کا اظہار کر رہے ہیں کہ اس حملے کے پیچھے بھارت ہو سکتا ہے اور یہ بات درست بھی لگتی ہے‘ بھاری ایجنسی راء کادہشت گرد بھی بلوچستان سے گرفتار ہوا‘ ایک اور اہم بات یہ ہے کہ یہاں شدت پسند تنظیمیں سر اٹھا رہی ہیں اور اس حقیقت سے بھی منہ نہیں موڑا جاسکتا۔بلوچستان کے سیاسی حالات ملک کے دیگر حصوں سے کافی مختلف ہیں۔ بظاہر یہی لگتا ہے کہ عسکریت پسند تنظیمیں بشمول مذہبی انتہاپسندگروہ اپنا اثر ورسوخ بڑھانے کے لیے حملوں میں تیزی لا رہی ہیں۔ مستونگ بلوچستان کا وہ واحد علاقہ ہے جہاں داعش کا اثر ورسوخ زیادہ دیکھنے میں آرہا ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ان وجوہات کا جائزہ لیا جائے جن کی وجہ سے تمام تر کوششوں کے باوجود دہشت گردی کے واقعات میں کمی واقع نہیں ہو رہی۔بلوچستان میں انٹیلی جنس اداروں نے مختلف کارروائیوں کے دوران داعش خراسان نامی تنظیم کے کئی اہم ارکان کو بھی ہلاک کیا ہے۔ داعش کے روپوش انتہا پسندوں کی گرفتاری کے لیے فوجی دستوں نے کچھ عرصہ قبل مستونگ کے ایک پہاڑی علاقے میں آپریشن کیا تھا۔کوئٹہ سے مئی 2017ء میں دو چینی اساتذہ کو بھی داعش کے انتہاپسندوں نے اغواکیا تھا۔ ان مغویوں کی لاشیں ایک ماہ بعد مستونگ سے برآمد ہوئی تھیں۔یعنی دہشت گردی پھر سے جنم لے رہی ہے اور ہم اس پر سنجیدگی سے سوچنے کی بجائے آپس کی رنجشوں سے نکلنے کا نام نہیں لے رہے۔
2013 کے عام انتخابات میں بھی دہشت گردی کی لہر نے جنم لیا اورکئی سیاسی رہنماؤں کو ٹارگٹ کیا مگر اب کی بار صورتحال اس سے بھی زیادہ سنجیدہ نظر آرہی ہے۔پاکستان کی سیاسی اور معاشی حالت بہت نازک ہے ایسے میں دہش گردی کی نئی لہر جلتی پر تیل کاکام کرسکتی ہے۔اگر سیاستدان دہشت گردی کے معاملے پر اکٹھے نہ ہوئے تو پھر گیم مکمل طور پر ہاتھ سے نکل سکتی ہے۔حالیہ دہشت گردی کی لہر سے نمٹنے کیلئے ایک مربوط روڈ میپ بنانا ضروری ہے اور ایسا تب ہی ہوسکتاہے جب ہم سیاسی تقسیم اور نفرت کو ایک سائیڈ پر رکھ کر سوچیں۔اگر ہم نے ایسا نہ کیا تو پھر تباہی آگے ہما رے در پر آپہنچے گی۔سیاست تب ہی ہوسکتی ہے جب ملک میں امن ہو گا اور اگر خدانخواستہ ملک میں امن و امان ہی نہ ہو تو پھرسیاست کیسے ہوگی؟ ہمارے رہبروں کو سوچنا ہوگا کہ اگردشمن سے مقابلہ کرنا ہے تو پھر اتحاد اور اتفاق قائم کرنا ہوگا‘ورنہ سیاسی تقسیم کی آگ ہمیں کہیں کا نہیں چھوڑے گی۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved