میرا ایک دوست درآمدات و برآمدات اور مینو فیکچرنگ کا کاروبار کرتا ہے۔ مجھے کہنے لگا کہ ستمبر میں روپے کی قدر میں ڈالر کے مقابلے میں 5.4فیصد اضافہ خوش آئند ہے لیکن ایک پریشانی یہ بھی لاحق ہے کہ ماضی میں جس رفتار سے ڈالر نیچے گیا‘ پھر اس سے زیادہ رفتار سے اوپر آیا ہے۔ اگر اس بار بھی ایسا ہی ہوا تو کاروباری حالات قابو سے باہر ہو سکتے ہیں۔ ڈالر ریٹ 250روپے تک لانے کے اعلان کے بعد کاروبار فی الوقت سست ہو گئے ہیں۔ اکثریت نے خرید و فروخت بند کر دی ہے۔ اگر سرکار نے ڈالر 250روپے تک لانا ہے تو یہ کام جلد کرنا ہوگا تاکہ غیریقینی کی صورتحال ختم ہو‘ ٹرانزیکشنز شروع ہوں اور کاروبار دوبارہ چل سکیں۔ اگر ڈالر ریٹ 250روپے تک لانے میں دو تین ماہ لگا دیے گئے تو ٹریڈنگ سرگرمیاں رکی رہیں گی جس سے معیشت کو کھربوں روپے کا نقصان پہنچ سکتا ہے۔ سرکار ان معاملات پر سنجیدگی سے غور کرے۔
ملک میں ڈالر ریٹ ریاستی اداروں کی محنت سے نیچے آنا شروع ہوا ہے۔ اگر وہ توجہ نہ دیتے تو حالات قابو سے مکمل باہر ہو جاتے۔ مستقبل میں روپے کو مضبوط رکھنے کے لیے چند اقدامات ناگزیر ہیں۔ اگر اوورسیز پاکستانیوں کو ملک میں ڈالرز بھیجنے پر پانچ فیصد تک سبسڈی دی جائے تو روپے کو مزید مضبوط کیا جا سکتا ہے۔ برآمد کنندگان کو بجلی‘ گیس اور دیگر مدات میں جو تقریباً 30 فیصد سبسڈی دی جاتی ہے وہ غیرضروری ہے۔ ہاں انہیں برآمدات بینک کے ذریعے کیش کروانے پر کچھ رعایت دی جا سکتی ہے۔ بینکوں نے پچھلے دو برسوں میں ڈالر کی قیمتیں کم زیادہ کرکے اربوں روپے کمائے ہیں۔ ڈار صاحب کے مطابق چند بینکوں نے ڈالر ریٹ کو جان بوجھ کر منافع کے لیے استعمال کیا‘ لیکن ان کے خلاف کوئی کارروائی نہیں ہوئی۔ اب جو حقائق سامنے آ رہے ہیں ان کے مطابق منی لانڈرنگ اور ڈالرز ہولڈنگ میں بعض بینک ملوث ہیں۔ مستقبل میں ان پر نظر رکھنا بہت ضروری ہوگا۔ سونے اور قیمتی گاڑیوں کے سمگلروں کے گرد گھیرا تنگ کرنے سے بھی روپیہ مضبوط رہ سکتا ہے۔ ہنڈی اور حوالے کا بڑا استعمال ان دو سیکٹرز میں ہے جس کی وجہ سے ڈالر ریٹ بڑھتا ہے۔ یہ بھی دیکھنا ہوگا کہ ستمبر میں بیلنس آف پیمنٹ کیسی ہے۔ ممکنہ طور پر یہ بہتر نہیں ہوئی۔ نئے مالی سال میں اب تک ایکسپورٹ میں تقریباً پانچ فیصد کمی آچکی ہے۔ ترسیلاتِ زر میں تقریباً 24 فیصد کمی آئی ہے۔ مہنگائی بڑھ کر تقریباً 31 فیصد ہوگئی ہے۔ ایسی صورتحال میں چند دنوں میں روپے کی قدر میں پانچ سے چھ فیصد اضافہ بہت زیادہ ہے۔ انتظامی امور بہتر ہوئے ہیں لیکن ڈالر کنٹرول کرنے کے لیے صرف انتظامی امور سے آنے والی بہتری عارضی ہوتی ہے۔ ملک کو ایک ایسی پالیسی کی ضرورت ہے جس سے دوست ممالک اور سرمایہ کاروں کا اعتماد بڑھے۔ ایسا پہلی مرتبہ نہیں ہوا ہے کہ ڈالر کی قدر میں مسلسل کمی دیکھی جا رہی ہے۔ پچھلے دو برسوں میں ڈالر کی قیمت نے کئی اتار چڑھاؤ دیکھے ہیں۔ مفتاح اسماعیل کے دور میں ڈالر انٹر بینک میں 240سے کم ہو کر 213روپے تک آ گیا تھا۔ پھر یہ بڑھ کر 240 روپے تک پہنچ گیا۔ جب اسحاق ڈار صاحب آئے تو ڈالر روزانہ کی بنیاد پر تھوڑا تھوڑا کم ہوتا رہا‘ یہ اکتوبر 2022ء میں انٹربینک میں 219روپے پر آ کر رک گیا۔ لیکن چند ماہ میں یہ بڑھ کر 250روپے اور پھر 288روپے تک پہنچ گیا۔ پھر اگست میں نگران حکومت کے دور میں ڈالر انٹر بینک میں تقریباً 307روپے تک پہنچا اور ستمبر کے مہینے میں انٹر بینک میں ڈالر ابھی تک صرف 19روپے گرا ہے جو کہ ماضی کی بڑی گراوٹوں کی نسبت کم ہے۔ ابھی ڈیمانڈ اور سپلائی کی صورتحال بھی واضح نہیں ہے۔ ہر سال تقریباً ساڑھے آٹھ لاکھ پاکستانی باہر جا رہے ہیں۔ جو باہر جاتے ہیں وہ ساتھ ڈالر لے کر جاتے ہیں۔ کریڈٹ کارڈ کا استعمال بہت بڑھ گیا ہے۔ پہلے یہ سالانہ پانچ سو ملین ڈالرز تھا اب تقریباً ایک بلین ڈالرز سے زائد ہو چکا ہے۔ قرضوں اور سود کی ادائیگی ڈالرز میں کرنی ہے۔ ان تمام ضرورتوں کو پورا کرنے کے لیے ایک راستہ برآمدات بڑھانا‘ دوسرا ترسیلاتِ زر بڑھانا اور تیسرا بیرونی سرمایہ کاری ہے۔ اگر ان میں سے کسی ایک سیکٹر میں بھی پاکستان نے بہترین کارکردگی دکھائی تو ڈالر کنٹرول میں رہ سکتا ہے۔ بصورت دیگر دسمبر کے بعد روپے پر دباؤ بڑھ سکتا ہے۔ پاکستان کی ڈالرز میں آمدن تقریباً 60ارب ڈالر اور خرچ تقریباً 85ارب ڈالر ہے۔ 25ارب ڈالرز کا فرق ختم کرنا ایک چیلنج ہے۔ ساٹھ کھرب ڈالرز کے معدنی ذخائر والے ملک کے لیے صرف 25ارب ڈالرز کا فرق ختم کرنا مشکل ہو رہا ہے۔ ایسا کیوں ہے‘ حکمرانوں کو اس بارے میں سوچنا ہو گا۔
پاکستان اور جی سی سی نے کونسل کے ہیڈکوارٹرز ریاض میں 26سے28ستمبر تک مذاکرات کا آخری دور مکمل کرنے کے بعد آزاد تجارتی معاہدے کے ابتدائی منصوبے پر دستخط کیے ہیں۔ دونوں ممالک کے درمیان طے پا گیا ہے کہ یہ منصوبہ سیاسی‘ سلامتی‘ تجارت اور سرمایہ کاری‘ زراعت اور خوراک کے تحفظ‘ نقل و حمل‘ توانائی‘ ماحولیات‘ صحت‘ ثقافت اور تعلیم سمیت مختلف شعبوں میں تعاون گہرا کرنے کے لیے نکتۂ آغاز فراہم کرتا ہے۔ پاکستان 2005ء سے جی سی سی کے ساتھ آزاد تجارتی معاہدے کی کوششوں میں مصروف رہا ہے۔ گزشتہ برس جنوری میں دونوں ممالک نے سال 2022-26ء کے سٹریٹجک ڈائیلاگ کے لیے مشترکہ ایکشن پلان کو حتمی شکل دی تھی۔ یہ 2009ء کے بعد سے کسی بھی ملک کے ساتھ جی سی سی کا پہلا آزاد تجارتی معاہدہ ہے جو کہ دونوں ممالک کے اقتصادی تعاون میں سنگِ میل ہے۔ یہ خبر خوش آئند ہے اور پاکستان میں بیرونی سرمایہ کاری اور تجارت کے ماحول کو بہتر بنانے میں اہم کردار ادا کر سکتی ہے لیکن عوامی سطح پر تشویش بھی پائی جاتی ہے۔ ماضی میں بھی کئی معاہدوں پر دستخط ہو چکے ہیں۔ ایم او یو بن چکے ہیں بلکہ کچھ منصوبوں کے لیے پاکستان کے دورے بھی کیے گئے ہیں لیکن بیشتر منصوبے کاغذوں تک ہی محدود رہے ہیں۔ پاکستان میں حکومتی سطح پر سستی اور غیرسنجیدگی بھی ایک بڑا مسئلہ ہے۔ سال 2012ء میں پیپلز پارٹی کی وزیر خارجہ نے درخواست کی تھی کہ پاکستان جی سی سی کے ساتھ آزادانہ تجارتی معاہدہ کو حتمی شکل دینا چاہتا ہے۔ اب گیارہ سال بعد اس معاہدے پر دستخط ہوئے ہیں جس کی منظوری کے مراحل ابھی باقی ہیں۔ امید ہے کہ جہاں دیگر معاشی مسائل کو حل کیا جا رہا ہے وہاں بین الاقوامی معاہدوں کو جلد حتمی شکل دینے اور فائنل پراڈکٹ جلد عوام کے سامنے لانے کے لیے بھی اقدامات کیے جائیں گے۔
نگران وزیر خزانہ نے سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے خزانہ کو بتایا ہے کہ حکومت اگلے ماہ تین ارب ڈالر کے سٹینڈ بائی ارینجمنٹ کے سہ ماہی جائزے پر بین الاقوامی مالیاتی فنڈ کے ساتھ بات چیت شروع کرے گی۔ یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا پاکستان آئی ایم ایف کی تمام شرائط پر عمل کر رہا ہے۔ اگر ٹیکس محصولات کے حوالے سے دیکھا جائے تو مالی سال کی پہلی سہ ماہی میں پاکستان نے ہدف سے زیادہ ٹیکس اکٹھا کر لیا ہے۔ پہلی سہ ماہی کا ہدف 1.977 ٹریلین تھا جبکہ حکومت نے سہ ماہی کے اختتام پر 2.023 ٹریلین روپے ٹیکس اکٹھا کر لیا ہے۔ اس کے علاوہ انٹر بینک اور اوپن مارکیٹ میں فرق 1.25فیصد سے زیادہ نہیں ہونا چاہیے۔ وہ فرق بھی اس وقت صرف ایک فیصد ہے۔ اگست 2023ء میں کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ 16کروڑ ڈالر تک محدود رہا۔ بجلی کی قیمتوں میں مطلوبہ اضافہ کیا جا چکا ہے اور گیس کی قیمتوں میں اضافہ چند روز میں ہونے کے امکانات ہیں۔ قرضوں کی ادائیگی کا بھی انتظام کیا جا چکا ہے۔ مسئلہ صرف امپورٹ کا ہے۔ ملک میں امپورٹ پر پابندی بظاہر ہٹا دی گئی ہے لیکن اب بھی ہزاروں ایل سیز بینکوں میں کئی ماہ سے التوا کا شکار ہیں۔ نئی ایل سی کھلوانا اس وقت انتہائی مشکل ہو چکا ہے۔ ایل سیز کھولنا بینکوں کی ذمہ داری ہے لیکن آج کل وہ اس کام میں سست دکھائی دیتے ہیں۔ آئی ایم ایف ان حقائق سے آگاہ ہے اور جلد ہی اس حوالے سے ردِعمل بھی سامنے آ سکتا ہے۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved