سیاسی جماعتوں کی کثرت کیاہمارے مسائل کا حل ہے؟
سیاسی جماعتوں اورمذہبی تنظیموں کی کثرت اس بات کا اظہار ہے کہ سماج سیاسی اور مذہبی طور پر ذہنی انتشار اور فکری پراگندگی کا شکار ہے۔منظم اور پُرسکون معاشروں میں سیاسی جماعتیں دو تین سے زیادہ نہیں ہوتیں۔ اشتراکیت تو اس کو بھی ممنوع اور سماج کیلئے مضر سمجھتی ہے۔اس لیے کمیونسٹ ممالک میں ایک پارٹی ہی کا نظام اختیار کیا جاتا ہے۔ہر شہری ایک ہی جماعت کا رکن ہوتا ہے اور اسی کے دائرہ میں اپنے خیالات بیان کرتا ہے۔
ہم ایک ایسے سماج میں رہتے ہیں جو مضطرب ہے۔یہ اضطراب ذہنی ہے‘ان معنوں میں کہ ہم بطور سماج کوئی ورلڈ ویو نہیں رکھتے۔ہم ابھی تک یہ طے نہیں کرسکے کہ مذہب کے ساتھ ہمارے تعلق کی نوعیت کیاہے؟یہ ایک ہدایت ہے جو عالم کے پروردگار کی طرف سے آئی ہے یا کوئی گروہی عصبیت ہے؟مذہب سے مراد خدا کے ساتھ تعلق ہے یا کسی خاص مسلک سے؟جب ان سوالات کے متعین جواب ہمارے پاس نہیں ہوتے تو ان سب حوالوں سے اٹھنے والی مختلف آوازوں کی طرف ہم متوجہ ہوتے ہیں ۔
ہم روحانی تسکین کیلئے کسی آستانے سے وابستہ ہو جاتے ہیں اور سیاسی عصبیت کے اظہار کیلئے کسی مذہبی سیاسی جماعت میں شامل ہو جاتے ہیں۔مسلکی وابستگی کے اظہار کیلئے کسی ایک خاص مسجد کے نمازی بن جاتے ہیں۔ہم مذہب کی بے شمار ٹوپیاں پہن لیتے ہیں کیونکہ ہم پریہ واضح نہیں ہو تا کہ مذہب سے ہماری مراد کیا ہے۔اسی سبب سے سماج میں آستانوں‘ مسلکی اداروں اور مذہبی جماعتوں کی کثرت ہے۔
سیاست کا معاملہ بھی یہی ہے۔ہم ایک سیاسی جماعت سے مطمئن نہیں ہوتے ہیں تو دوسری کی طرف دیکھتے ہیں۔ایک وقت کے بعد اس سے غیر مطمئن ہوتے ہیں تو کسی تیسری قوت کی طرف رجوع کرتے ہیں۔یہ ذہنی انتشار ہر روز ایک نئی سیاسی جماعت کو جنم دے رہا ہے۔آج کل پھر ایک نئی سیاسی جماعت کی بات ہو رہی۔گزشتہ چند ماہ میں تین نئی جماعتیں بنی ہیں۔ترقی یافتہ معاشروں میں دو جماعتیں ہوں گی یا تین۔وہاں نئی سیاسی جماعتوں کے قیام پر پابندی نہیں لیکن معاشرہ جماعت سازی کی زیادہ پذیرائی نہیں کرتا۔اس کی وجہ یہ ہے کہ ذہنی طور پر بالغ نظر سب سے پہلے یہ سوچے گا کہ اسے ایک نئی سیاسی جماعت کی ضرورت ہے یا نہیں؟موجودہ سیاسی نظام میں وہ کون سا مسئلہ ہے جسے موجود سیاسی جماعتیں مخاطب نہیں بنا رہیں؟
سیاسی جماعت کسی ضرورت سے وجود میں آتی ہے۔ایک وجہ نظریاتی ہوتی ہے۔کسی کے پاس ایک سیاسی نظریہ ہے جس کی نمائندگی نہیں ہے‘ یوں وہ اپنی جماعت بنا لیتا ہے۔جیسے مسلم لیگ کی موجودگی میں جماعت اسلامی قائم ہوئی تو اس کیلئے ایک فکری جواز پیش کیا گیا۔مولانا مودودی نے طویل عرصہ ذہن سازی کی کہ ایک نئی جماعت کیوں ضروری ہے؟ علامہ مشرقی نے خاکسار تحریک اٹھائی تو انہیں بتانا پڑا کہ وہ کون سا کام ہے جو پہلے سے موجود جماعتیں نہیں کر رہیں۔پاکستان بننے کے بعد پیپلزپارٹی قائم ہوئی تو بھٹو صاحب نے ایک خاص نظریاتی جہت سے سیاست کو مخاطب بنایا اور اس خلا کو پُر کیا جو نظری حوالے سے موجود تھا۔
آج کوئی ایسا خلا موجود نہیں ہے جو کسی نئی سیاسی جماعت کیلئے بطور جواز پیش کیا جا سکے۔نہ نظریہ‘نہ حکمتِ عملی اور نہ کسی اور طرح کا امتیاز۔پاکستان کے عوام میں نئی سیاسی جماعت کی کوئی طلب موجود نہیں۔تجربے سے انہوں نے جان لیا ہے کہ سیاست ایک خاص ڈگر پر چلتی ہے اور ہر نئی جماعت کچھ وقفے کے بعد کانِ نمک میں نمک بن جا تی ہے۔اس وقت ہمارے ہاں مقبول سیاستدان موجود ہیں۔عوام جن کو پسند کرتے ہیں۔اگر اس معاملے میں عوام کی رائے پوچھی جائے کہ کیا وہ ایک نئی سیاسی جماعت کی ضرورت محسوس کرتے ہیں تو اکثریت کا جواب نفی میں ہوگا۔
پاکستان میں دوطرح کے لوگ پائے جاتے ہیں۔ایک وہ جو کسی نہ کسی سیاسی جماعت سے وابستہ ہیں اور اس سے مطمئن ہیں۔یہ اکثریت ہے۔ دوسرا طبقہ وہ ہے جو سیاست ہی سے بے زار ہے۔وہ اسے ایک کارِ عبث سمجھتا ہے اور اکثر یہ کہتا پایا جاتا ہے کہ 'سب ایک جیسے ہیں‘۔یہ دونوں طبقات کسی نئی سیاسی جماعت کے قیام کو ضروری نہیں سمجھتے۔ جب ایسا ہے تو نئی جماعت کی طلب کس کو ہے؟
سیاسی جماعت کیلئے عصبیت کی ضرورت ہوتی ہے۔یہ نظریاتی ہو سکتی ہے‘ گروہی بھی اور اس کے ساتھ شخصی بھی۔عام طور پر پہلے سے موجود عصبیت کو مخاطب بنا کر اس کی نمائندگی کا دعویٰ کیا جا تا ہے۔جیسے دیوبندیوں کی جماعت یا پنجاب کی جماعت یا پختونوں کی جماعت۔ بعض اوقات کوئی آدمی اٹھتا اور کسی سبب سے حاصل مقبولیت کو ایک سیاسی عصبیت میں بدل دیتا ہے۔جیسے کوئی کھلاڑی۔یا جیسے کوئی اداکار۔
مجھے اس وقت کوئی ایسا آدمی دکھائی نہیں دیتا جو مقبولیت کی اس سطح پر ہو کہ وہ سیاسی جماعت بنائے اور لوگ اس کی طرف متوجہ ہو جائیں۔ اس میں شبہ نہیں کہ سیاسی جماعتوں کو اصلاح کی شدید ضرورت ہے۔صحیح تر مفہوم میں تو یہاں کوئی سیاسی جماعت موجود ہی نہیں۔نہ کوئی تنظیم ہے نہ کوئی منشور اور نہ کوئی روایت۔کسی سیاسی جماعت میں کارکنوں کی تربیت کا اہتمام ہوتا ہے اور نہ انتخابات ا ور جمہوری طریقوں سے قیادت کا انتخاب ہو تا ہے۔
اس لیے اگر آج ضرورت ہے تو موجود سیاسی جماعتوں کی اصلاح کی۔ ان میں جمہوری روایات پیدا کی جائیں۔کارکنوں کو یہ معلوم ہو کہ سیاست کا مقصد کیا ہے اور اس میں کردار کی کیا اہمیت ہے؟آئین کیا ہوتا ہے‘ملک کی سیاسی تاریخ کیا کہتی ہے اور اس وقت عوام کے مسائل کیا ہیں؟سیاسی کارکنوں کے پاس ان سوالات کے جواب ہونے چاہئیں اور ان کی سیاسی وابستگی کے لیے ان کے پاس جواز ہونا چاہیے۔وہ اگر کسی سیاسی جماعت کا حصہ ہیں تو بتا سکیں کہ ان کے اس انتخاب کا سبب کیا ہے؟
نئی سیاسی جماعت کی باتیں در اصل ہمیں بتا رہی ہیں کہ ملک میں انتشار ہے۔اس کی وجہ یہ ہے کہ سیاسی نظام کے بارے میں‘معاشی استحکام کے حوالے سے ‘کسی کے پاس عوام کے سوالات کے جواب موجود نہیں ہیں۔ کوئی روڈ میپ نہیں ہے جو بتا سکے کہ کل ہم کہاں ہوں گے اور پرسوں کہاں؟ دہشت گردی میں اضافہ ہورہاہے جس سے وہ اضطراب بڑھ رہا ہے جس کا اصل سبب معاشی عدم استحکام ہے۔اس انتشارِ فکر کے زمانے میں نئی نئی جماعتوں کی باتیں دل بہلانے کا سبب تو بن سکتی ہیں‘ کسی سیاسی استحکام کی نوید نہیں سنا سکتیں۔
ایسے مواقع پر دانشور کی ذمہ داری بڑھ جاتی ہے۔ اس کا کام یہ نہیں کہ وہ لوگوں کوروتا دیکھ کر ان کے ساتھ رونا شروع کر دے یا اچھا نوحہ کہہ کر انہیں مزید رلائے۔ اس کا کام انہیں راستہ دکھانا اور حل پیش کرنا ہے۔ایک راستہ یہ ہے کہ نئی سیاسی جماعت بنانے کی بجائے موجود سیاسی جماعتوں کو بہتر بنانے کی کوشش کی جائے۔جن کا خیال ہے کہ ان کے پاس کہنے کو کچھ ہے‘وہ اپنی جماعتوں میں رہ کر آواز بلند کریں تا کہ جماعتیں مضبوط ہوں اور ان میں اصلاح بھی ہو۔مضبوط قومی سیاسی جماعتیں ہماری ضرورت ہیں۔ وہ ملک کو متحد رکھتی ہیں۔ان میں کمزوریاں ہیں مگر ا ن کا حل یہی ہے کہ ان کی اصلاح کی جائے نہ کہ انہیں کمزور بنایا جائے۔ہر نئی جماعت کسی پرانی جماعت کو کمزور کرتی ہے۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved