کیا پاکستان کو درپیش گوناگوں مسائل کا حل ایک نئی سیاسی جماعت کا قیام ہے؟یہ سوال میڈیا کی زینت بنا ہوا ہے۔ تین جانے پہچانے سیاستدان، شاہد خاقان عباسی‘ مفتاح اسماعیل اور مصطفی نواز کھوکھر اس مفروضہ نئی سیاسی جماعت کے مبلّغین یا محرکین سمجھے جاتے ہیں۔ تینوں سے میری بہت گہری دوستانہ قربت نہ سہی لیکن بہت اچھی دعا سلام ہے۔ میں تینوں کے بارے میں نہایت مثبت رائے رکھتا ہوں۔ تینوں اعلیٰ تعلیم یافتہ ہیں۔ تینوں قومی مسائل کا درد بھی رکھتے ہیں اور مسیحائی کا جذبہ بھی۔ ان کی نیک نیتی پر بھی کوئی سوال نہیں اُٹھایا جاسکتا۔ لیکن کیا وہ پاکستان کے مرضِ کہن کی ٹھیک تشخیص کررہے ہیں؟ کیا اُن کا اخذ کردہ نتیجہ درست ہے کہ پہلے سے موجود تمام سیاسی جماعتیں کُلی طور پر ناکام رہی ہیں؟ کیا پاکستان کے موجودہ زوال وانحطاط کی ذمہ داری صرف سیاستدانوں اور سیاسی جماعتوں پر عائد ہوتی ہے؟ اور کیا پون صدی پر محیط تمام المیے، سقوطِ ڈھاکہ کا سانحہ، مختلف شعبوں کی شکست وریخت‘ اداروں کی ٹوٹ پھوٹ‘ آسیب کی طرح خیمے گاڑے بے یقینی‘ جڑیں تک ہلا ڈالنے والا عدمِ استحکام اور ان عوارض کے بطن سے پھوٹنے والی معاشی غارت گری کی ذمہ داری سیاسی جماعتوں اور سیاستدانوں کے کندھوں پر ہے؟ سب سے اہم سوال یہ کہ اس صورتِ حال میں انقلابی تبدیلی لانے اور پاکستان کو کمزوری و لاغری سے نکال کر توانا جوانِ رعنا بنانے کا واحد نسخہ کیا ایک نئی پارٹی کا قیام ہی ہے؟ وہ بھی ایسی جسکے ڈاکٹر، طبیب، وید، سنیاسی اور مسیحا برسوں کسی نہ کسی سیاسی شفا خانے میں عرق کشید کرتے‘ معجونیں اور کشتے بناتے اور پُڑیاں لپیٹتے رہے ہوں؟
سقوطِ ڈھاکہ کے بعد سے اب تک وفاق میں تین سیاسی جماعتوں کی حکومتیں رہی ہیں۔ پیپلزپارٹی نے مجموعی طورپر پندرہ برس‘ مسلم لیگ (ن) نے سوا دس سال اور تحریک انصاف نے پونے چار برس حکومت کی۔ اس دوران ذوالفقار علی بھٹو‘ محترمہ بے نظیر بھٹو (دو بار)‘ محمد نوازشریف (تین بار)‘ جزوی طورپر شاہد خاقان عباسی‘ یوسف رضاگیلانی‘ راجہ پرویز اشرف اور عمران خان (ایک ایک بار) وزارتِ عظمیٰ کے منصب پر فائز رہے۔ ایک چوتھی ہمہ مقتدر جماعت نے کم وبیش اکیس برس کمال جاہ وجلال کے ساتھ حکمرانی کی۔(نگرانوں کو چھوڑ کر) 29 برس9 منتخب وزرائے اعظم کے حصے میں آئے۔ یہ بھی یاد رکھنے کی بات ہے کہ آمروں کے عہد میں میائوں کی آواز نکالنے سے عاجز بھیگی بلیاں بن جانیوالے ادارے‘ جمہوری حکمرانوں کا دور آتے ہی شیروں کا رُوپ دھار کر شاہراہِ دستور کے چار سُو دھاڑنے لگے۔ سپریم کورٹ کی پیشانی پر جھومر کی طرح آراستہ ترازو کے پلڑے کبھی متوازن نہ ہوپائے۔ مارگلہ سے آتی موسم شناس ہواؤں کیساتھ ساتھ مسلسل ہلکورے کھاتے رہے۔ آمروں کو خلعتِ جواز بخشنے اور اُنہیں سیاسی اکھاڑوں میں کشتی لڑنے کی اجازت دینے والی عدالتوں نے سیاستدانوں کے بارے میں ایسے ایسے فیصلے صادر کئے کہ تصور سے بھی جھُرجھری آجاتی ہے۔ وہ قاتل قرار پاکر مصلوب ہوئے‘ ہائی جیکر قرار پاکر طویل قیدوبند کی سزائیں پائیں‘ بدعنوان قرار پاکر زندانوں کا رزق ہوئے‘ خائن قرار پاکر تاحیات سیاست بدر کردیے گئے‘ برسوں عدالتوں‘ کچہریوں میں رُلتے رہے‘ الزام ودشنام کے تیروں سے چھلنی کیے جاتے رہے اور قتل ہوتے رہے۔ کیا تاریخ کا یہ منظر نامہ نئی پارٹی کے کہنہ مشق محرکین کی آنکھوں سے محو ہوچکا ہے؟ کیا وہ اپنے دل پر ہاتھ رکھ کر اطمینانِ قلب سے کہہ سکتے ہیں کہ سیاستدان اور سیاسی جماعتیں واقعی ناکام رہیں؟ کیا وہ بقائمی ہوش وحواس یہ دعویٰ کرسکتے ہیں کہ سیاستدانوں کو ہمیشہ اپنے منشور پر عمل درآمد‘ اپنے اہداف کی تکمیل‘ اپنے فلسفۂ حکمرانی کی عملی تشکیل اور کسی خارجی رخنہ اندازی سے بے نیاز ہوکر پوری توجہ اور انہماک سے کام کرنے کے مواقع ملے اور وہ ناکام رہے؟ یہ نہیں کہا جاسکتا کہ سیاسی حکومتیں ہر طرح کی کجی‘ عیب‘ نقص یا نااہلی سے کُلی طور پر پاک تھیں۔ بس وہ ایسے ہی تھیں جیسے بیسیوں دوسرے ممالک میں ہیں۔
ہماری سیاست پر دو جماعتوں کا غلبہ رہا۔ اگر اُن کی لغزشوں اور کمزوریوں کی فہرست بنائی جاسکتی ہے تو جمہوریت اور پاکستان کیلئے اُن کی جدوجہد‘ اُن کی قربانیوں اور عوامی فلاح وبہبود‘ پاکستان کی ترقی وخوشحالی کیلئے اُن کی مقدور بھر کارکردگی کی بیاض بھی مرتب کی جاسکتی ہے۔ اگر یہ سیاستدان اقتدار کے ایوانوں کی زینت رہے تو دارورسن اور زندانوں کی رونق بھی اُنہی کے دم قدم سے رہی۔ اچھی یا بُری کارکردگی کی فہرست بناتے وقت ایک وسیع وعریض کالم اس تفصیل کیلئے بھی رکھ لینا چاہیے کہ اُن کے عہدِحکومت میں حکمرانی کی باگیں کس کے ہاتھ میں تھیں؟
قصور نہ دو روایتی جماعتوں کا ہے نہ دوجماعتی نظام کا۔ سیاست کے مفکرین دوجماعتی نظام کو کسی بھی معاشرے کی بلوغت اور جمہوریت کی پختگی کی علامت قرار دیتے ہیں۔ امریکہ میں گزشتہ پونے دو سو برس سے دو جماعتیں ہی حکمران چلی آرہی ہیں۔ ستر فیصد عوام دوبڑی جماعتوں ری پبلکن اور ڈیموکریٹس کیساتھ رجسٹرڈ ہیں۔ کسی کیساتھ وابستہ نہ ہونیوالوں کی تعداد ساڑھے 27 فیصد ہے۔ صرف اڑھائی فیصد کے لگ بھگ تیسرے آپشن کے دلدادہ ہیں۔ برطانیہ میں کنزرویٹو اور لیبر پارٹیاں ایک سو سال سے باری باری حکومت کررہی ہیں۔ گزشتہ 32 انتخابات میں 19 بار کنزرویٹو اور 13 مرتبہ لیبرز نے حکومت بنائی۔ کوئی نہیں کہتا کہ یہ باریاں لے رہے ہیں۔ کہتا بھی ہے تو اس کا چراغ نہیں جلتا۔ برسوں سے تیسری سیاسی قوت پیرہن بدل بدل کر جتن کررہی ہے لیکن بات بننے میں نہیں آرہی۔
بھارت میں بھی عملاً دو جماعتی نظام ہی کارفرما ہے۔ بھارت کے الیکشن کمیشن نے سیاسی جماعتوں کی درجہ بندی کا ایک اچھا نظام وضع کررکھا ہے۔ یہ درجہ بندی جماعتوں کی انتخابی کارکردگی کی بنیاد پر کی جاتی ہے۔ ایک خاص حد تک نشستیں یا ووٹ نہ لے سکنے والی جماعت درجہ بندی میں نیچے لڑھک جاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وہاں اڑھائی ہزار سے زائد رجسٹرڈ سیاسی جماعتوں میں سے صرف چھ کو قومی جماعتیں ہونے کا سرکاری اعزاز حاصل ہے۔ صرف 54جماعتیں ریاستی جماعتوں کا تشخص رکھتی ہیں۔ باقی کو محض شامل باجہ قرار دیاجاسکتا ہے۔ ہمارے ہاں دو سو کے لگ بھگ جماعتیں رجسٹرڈ ہیں۔ سب کی حیثیت‘ سب کا درجہ ایک سا ہے۔ ان میں آئے دن اضافہ ہورہا ہے کیونکہ آئین اس کی اجازت دیتا ہے۔ 2018ء کے انتخابات میں 85جماعتیں میدان میں اتریں۔ تین جماعتوں پی ٹی آئی(31.82 فیصد)‘ مسلم لیگ (ن)(24.35 فیصد) اور پیپلزپارٹی (13.03 فیصد) نے مجموعی طورپر ستر فیصد کے لگ بھگ (69.20فیصد) ووٹ لیے۔ باقی کے 30 فیصد ووٹ 82 جماعتوں میں تقسیم ہوگئے۔ 33 جماعتیں ایسی تھیں جس میں سے ہر ایک کے ووٹ تین ہزار سے کم رہے۔ 15 جماعتیں دَس ہزار تک بھی نہ پہنچیں۔ 20 ایسی تھیں جن میں سے ہر ایک کو ایک لاکھ سے بھی کم ووٹ ملے۔ متحدہ مجلس عمل جس میں جمعیت العلمائے اسلام (ف) اور جماعت اسلامی بھی شامل تھیں‘ صرف 4.85 فیصد (پچیس لاکھ سے کچھ زائد) ووٹ حاصل کرپائی۔ اگر قومی جماعت کیلئے بھارتی الیکشن کمیشن والا فارمولا یہاں بھی ہوتا توبڑے بڑے نام بے نام ہوجاتے اور بیسیوں نام نہاد جماعتیں معدوم ہوچکی ہوتیں۔
علامہ اقبال نے مردِمومن کے زوال کے بارے میں کہا تھا ''سبب کچھ اور ہے تُو جس کو خود سمجھتا ہے۔‘‘ علامہ کے الفاظ مستعار لیتے ہوئے ایک نئی جماعت کے محرکین سے کہا جاسکتا ہے کہ ملک وقوم کو درپیش موجودہ مسائل کا سبب وہ نہیں جسے وہ جواز بنارہے ہیں۔ نہ ہی اُن کی دانا وبینا قیادت کے پرچم تلے کوئی نئی جماعت ہمارے دامانِ پارہ پارہ کی بخیہ گری کرسکتی ہے۔ سبب کیا ہے ؟ وہ خود اچھی طرح جانتے ہیں۔ (جاری )
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved