تحریر : منیر احمد بلوچ تاریخ اشاعت     03-10-2023

خود کی تلاش

اگر کسی انسان کو یہ بتایا جائے کہ قرآنِ مقدس میں بنی نوع انسان کے ہر فرد کو مخاطب کیا گیا ہے تو غالب امکان ہے کہ چند باعلم اور دین سے محبت رکھنے والوں کے علاوہ‘ ہم سب کیلئے یہ بات باعثِ حیرت ہو گی اور یقین ہی نہ آئے گا کہ ایسا بھی ہو سکتا ہے، کہ کہاں میں اور میرے اردگرد چلنے‘ پھرنے‘ رہنے والے انسان اور کہاں اللہ خالقِ دو جہاں کی اپنے برگزیدہ فرشتے کے ذریعے اپنے آخری نبی حضرت محمد مصطفیﷺ پر نازل کی جانے والی آخری الہامی کتاب۔ اس قرآنِ مجید میں میرا ذکر؟ لیکن یہی بات اگر کوئی مستند صاحبِ علم تصدیق کرتے ہوئے بتائے کہ یہ سچ ہے کہ قرآن میں ہم سب کا بحیثیت انسان باقاعدہ تذکرہ ہے اور اس کتاب میں قیامت تک آنے والے ہر انسان کو مخاطب کیا گیا ہے تو پھر فوری طور پر ذہن میں سوال اٹھے گا کہ قرآنِ مجید میں ہمارا تذکرہ کہاں اورکن الفاظ میں ہوا ہے۔ اگر یہ یقین آ بھی جائے قرآن کے ایک ایک لفظ کا مخاطب میں ہوں تو پھر یہ سوچ بھی ذہن میں ابھرتی ہے کہ میرے جیسا گناہگار انسان‘ جس سے نجانے کتنے لوگ ناراض ہیں،جس نے خدا کے نجانے کتنے احکامات کی نافرمانی کی ہے، اس کا تذکرہ براہِ راست ہو ہی نہیں سکتا۔ لیکن صاحبِ علم بتاتے ہیں کہ اس میں کوئی شک ہی نہیں کہ قرآن میں بنی نوع انسان کو مخاطب کرتے ہوئے جگہ جگہ اسے ہدایات دیتے ہوئے انذار کے سے انداز میں سمجھایا گیا ہے بلکہ اگر آپ قرآن مجید کو ترجمے کے ساتھ پڑھتے جائیں تو معلوم ہو گا کہ اللہ تعالیٰ کی جانب سے انسان کو بار بار تلقین کی گئی ہے۔ اس میں پچھلی قوموں کی کوتاہیوں اور نافرمانیوں کی نشاندہی کرتے ہوئے ان پر نازل ہونے والے عذاب کی منظر کشی بھی ہے تاکہ ہم ان گناہوں، غلطیوں اور زندگی کے معاملات سے دور رہیں۔ اللہ کے نیک بندوں کا کہنا ہے کہ جس دن انسان نے قرآنِ پاک میں اپنا تذکرہ غور سے دیکھ لیا، پڑھ لیا، اسے ذہن نشین کر لیا تو پھر امیدِ واثق ہے کہ وہ دوبارہ کبھی اپنے رب کی متعین کردہ راہ سے روگردانی نہیں کرے گا۔ حقوق اللہ سے حقوق العباد تک‘ ہر شعبہ ہائے زندگی میں اس کا رویہ کہیں بہتر ہو جائے گا۔
روایت ہے کہ جلیل القدر تابعی حضرت احنف بن قیسؒ ایک دن کسی مجلس میں بیٹھے ہوئے تھے کہ ان کے کانوں میں قرآن پاک کی ایک آیت مبارکہ سنائی دی۔ اسے سنتے ہی لمحہ بھر کو وہ ساکت رہ گئے لیکن جب یہی آیت انہیں دوبارہ سنائی دی تو وہ فوراً نشست سے اٹھ کر بیٹھ گئے۔ یہ آیت مبا رکہ سورۃ الانبیاء کی آیت نمبر 10تھی۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں ''ہم نے تمہاری طرف ایسی کتاب نازل کی ہے جس میں تمہارا تذکرہ ہے، کیا تم نہیں سمجھتے‘‘۔ حضرت احنف بن قیسؒ نے قرآن پاک پڑھنے والے سے درخواست کی کہ کچھ دیر کے لیے مصحف مجھے دیجئے، میں کچھ دیکھنا چاہتا ہوں۔ انہوں نے کہا کہ ابھی تم نے جس آیت کی تلاوت کی ہے‘ اس میں اللہ رب العزت فرما رہا ہے کہ اس میں تمہارا تذکرہ ہے۔ میں جاننا چاہتا ہوں کہ قرآن پاک میں میرا تذکرہ کہاں پر ہے اور میرے بارے میں کیا بتایا گیا ہے۔ میں معلوم کرنا چاہتا ہوں کہ میں کن لوگوں کے ساتھ ہوں۔ انہوں نے قرآنِ مجید پڑھنا شروع کیا تو ان کی نظر سورۃ الذاریات کی ان آیات پر پڑی جس میں جنتی افراد کی نشانی بتاتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ''رات کے تھوڑے حصے میں سوتے تھے اور اوقاتِ سحر میں بخشش مانگا کرتے تھے اور ان کے مال میں مانگنے والے کا اور نہ مانگنے والے (دونوں) کا حق ہوتا تھا‘‘ (آیات: 17 تا 19)۔ پھر سورۃ السجدہ میں انہیں کچھ اور لوگ نظر آئے جن کا حال اس طرح بیان کیا گیا ''ان کے پہلو بچھونوں (بستروں) سے الگ رہتے ہیں (اور) وہ اپنے رب کو خوف اور امید سے پکارتے اور جو مال ہم نے ان کو دیا ہے اس میں سے خرچ کرتے ہیں‘‘۔ (آیت: 16) وہ قرآن پاک کی آیات پڑھتے گئے تو انہیں کچھ اور لوگ بھی نظر آئے جن کے بارے لکھا تھا ''اور جو اپنے رب کے آگے سجدے کر کے اور (عجز و ادب سے) کھڑے رہ کر راتیں بسر کرتے ہیں‘‘ (سورۃ الفرقان: 64)۔
یہ سب کچھ پڑھ کر حضرت احنف بن قیسؒکے ہاتھ پائوں کانپنا شروع ہو گئے۔ انہوں نے آل عمران کی آیت 134 پر نظر ڈالی جہاں لکھا تھا ''جو آسودگی اور تنگی میں (اپنا مال خدا کی راہ میں) خرچ کرتے ہیں اور غصے کو روکتے اور لوگوں کے قصور معاف کرتے ہیں اور خدا نیکوکاروں کو اپنا دوست رکھتا ہے‘‘۔ پھر قرآن مجید میں کچھ اور لوگوں کا بھی احوال بیان ہوا۔ سورۃ الحشر میں آیا ''اور (دوسروں کو) اپنی جانوں سے مقدم رکھتے ہیں خواہ ان کو خود احتیاج ہی کیوں نہ ہو اور جو شخص حرصِ نفس سے بچا لیا گیا تو ایسے لوگ (ہی) مراد پانے والے ہیں‘‘ (آیت: 9)۔ پھر قرآنِ مقدس کی تلاوت کرتے ہوئے سورۃ الشوریٰ میں کچھ ایسے لوگوں کا ذکر ملا جن کے اخلاق کے بارے میں یوں فرمایا گیا ''اور جو بڑے بڑے گناہوں اور بے حیائی کی باتوں سے پرہیز کرتے ہیں اور جب انہیں غصہ آتا ہے تو معاف کر دیتے ہیں اور جو اپنے پروردگار کا فرمان قبول کرتے ہیں اور نماز پڑھتے ہیں اور اپنے کام آپس کے مشورے سے کرتے ہیں اور جو مال ہم نے انہیں عطا فرمایا ہے اس میں سے خرچ کرتے ہیں‘‘۔ (آیات: 37 تا 38)۔
احنف بن قیسؒ یہ آیات پڑھتے ہوئے ٹھٹھک کر رہ گئے اور کہنے لگے: یا اللہ! میں اپنے حال سے واقف ہوں، میں تو ان لوگوں میں کہیں بھی نظر نہیں آ رہا۔ اچانک ان کی نظروں سے سامنے سورۃ الصافات کی یہ آیات آ گئیں ''ان کا حال یہ تھا کہ جب ان سے کہا جاتا تھا کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں تو غرور کرتے تھے اور کہتے تھے کہ بھلا ہم ایک دیوانے شاعر کے کہنے سے اپنے معبودوں کو چھوڑ دینے والے بن جائیں؟‘‘ (آیات: 35 تا 36)۔ پھر سورۃ الزمر میں کچھ ایسے لوگوں سے سامنا ہوا جن کے بارے بتایا گیا ''جب تنہا خدا کا ذکر کیا جاتا ہے تو جو لوگ آخرت پر ایمان نہیں رکھتے ان کے دل منقبض ہو جاتے ہیں اور جب اس کے سوا اوروں کا ذکر کیا جاتا ہے تو خوش ہو جاتے ہیں‘‘ (آیت: 45)۔ حضرت احنف بن قیسؒ نے کہا کہ ان آیات میں جن لوگوں کا تذکرہ ہے، شکر ہے کہ میں ان میں سے بھی نہیں ہوں۔ پھر انہوں نے سورۃ المدثر کی یہ آیات پڑھیں ''اور پوچھتے ہوں گے (یعنی آگ میں جلنے والے) گنہگاروں سے۔ کہ تم دوزخ میں کیوں پڑے؟ وہ جواب دیں گے کہ ہم نماز نہیں پڑھتے تھے۔ اور نہ فقیروں کو کھانا کھلاتے تھے۔ اور اہلِ باطل کے ساتھ مل کر (حق سے) انکار کرتے تھے۔ اور روزِ جزا کو جھٹلاتے تھے یہاں تک کہ ہمیں موت آ گئی‘‘۔ (آیات: 40 تا 47)۔ قرآنِ پاک کی یہ چند آیات پڑھتے ہوئے وہ تھوڑی دیر تک دم بخود بیٹھے رہے اور پھر لرزتے ہاتھ اٹھا کر بے ساختہ پکار اٹھے: اے اللہ! ان لوگوں سے تیری پناہ! شکر ہے کہ میں ان لوگوں سے بری ہوں۔
یہ کہتے ہوئے وہ دوبارہ قرآن پاک کے اوراق الٹنا شروع ہو گئے، ان کی کوشش تھی کہ کسی طرح انہیں قرآن پاک میں اپنا تذکرہ بھی مل جائے کیونکہ اب تک ان کے کانوں میں قرآن پاک کی وہ آیت گونج رہی تھی کہ ''ہم نے تمہاری طرف ایک ایسی کتاب نازل کی جس میں تمہارا تذکرہ ہے‘‘۔ اسی سوچ میں گم حضرت احنف بن قیسؒ سورۃ التوبہ کی ان آیات پر پہنچے ''اور کچھ اور لوگ ہیں کہ اپنے گناہوں کا (صاف) اقرار کرتے ہیں، انہوں نے اچھے اور برے عملوں کو ملا جلا دیا تھا، قریب ہے کہ اللہ ان پر مہربانی سے توجہ فرمائے، بے شک خدا بخشنے والا مہربان ہے‘‘ (آیت: 102)۔ یہ آیت پڑھتے ہی احنف بن قیسؒ پکار کر بولے: میں نے اپنا مقصود پا لیا۔ میں نے اپنے آپ کو تلاش کر لیا۔مجھے اپنے گناہوں کا اعتراف بھی ہے اور خدا کی رحمت سے کچھ نیک اعمال بھی سرزد ہوئے ہیں، مجھے خدا کی رحمت سے ناامیدی نہیں۔
قرآن پاک تو اپنے پڑھنے والوں کو پکار پکار کر کہہ رہا ہے کہ ''ہم نے تمہاری طرف ایک ایسی کتاب نازل کی جس میں تمہارا تذکرہ ہے‘‘۔ کیا ہم نے قرآنِ پاک میں خود کو تلاش کرنے کی کوشش کی ہے؟

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved