پاکستان میں سیاست کا مقابلہ سارا سال جاری رہتا ہے جس میں سیاستدانوں سمیت عوام کی بڑی تعداد بھرپور شرکت کرتی ہے اور دفتر سے لے کر گھر میں کھانے کی میز تک‘ ہر وقت لوگ سیاسی بحث میں مصروف رہتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان میں بہت کم لوگوں کو یہ معلوم ہے کہ چین میں تئیس ستمبر سے کھیلوں کا بڑا عالمی مقابلہ چل رہا ہے جس میں پینتالیس ممالک کے بارہ ہزار سے زائد ایتھلیٹس حصہ لے رہے ہیں۔ چونکہ ہمارے ملک میں سپورٹس کا کلچر ہے نہ ہی شوق‘ اس لیے کسی کی اس طرف اس طرح توجہ نہیں ہے جس طرح سیاسی جھمیلوں کی طرف‘ جو ہر کسی کا فیورٹ سبجیکٹ ہے۔ نواز شریف کب پاکستان آ ئیں گے‘ عمران خان کو ضمانت ملے گی یا نہیں‘ آصف زرداری دبئی کام سے گئے یا اب وہیں کے ہو رہیں گے‘ ہماری تان بس انہی سوالوں پہ آ کر ٹوٹتی ہے۔ پی ایچ ڈی سکالرز سے لے کر سکیورٹی گارڈز تک‘ سب سیاست کی لائیو رپورٹنگ میں مصروف ہیں اور سپورٹس وغیرہ تو دور کی بات‘ کوئی اپنا کام بھی ڈھنگ سے نہیں کر پا رہا۔ ہر کسی کی کوشش ہے کہ دوسروں میں کیڑے نکالے اور خود کو دانشور ثابت کرے۔ ہمارے یہی رویے ہماری جسمانی اور دماغی صحت کے مسائل کھڑے کر رہے ہیں کیونکہ ہم کھیلوں اور مثبت سرگرمیوں سے مزید دور ہوتے جا رہے ہیں۔ رہی سہی کسر تعلیمی نظام اور مروجہ نصاب نے پوری کر دی ہے جس میں سوائے پوزیشن اور گریڈز لینے کے اور کسی طرف خاص توجہ ہی نہیں دی جا رہی۔ ایک دوسرے کو پیچھے چھوڑنے اور سبقت لے جانے کی دوڑ میں ہم زندگی کے اہم ترین معاملات میں کتنے پیچھے رہ جاتے ہیں اس کا اندازہ ہمیں اس وقت ہوتا ہے جب ہم ایک خاص عمر عبور کر جاتے ہیں۔ اس وقت ہمیں پتا چلتا ہے کہ ہم جسے کامیابی اور ترقی سمجھتے تھے وہ دراصل کامیابی اور ترقی کا عشر عشیر بھی نہیں۔ زندگی میں پیسے اور مادی ترقی کے علاوہ بھی کچھ معاملات ہیں جن کی طرف توجہ دینا اتنا ہی ضروری ہے جتنا کہ بینک بیلنس اور جائیدادیں بنانے پر۔ ان میں سب سے اہم جسمانی ورزش ہے اور کھیل اس کا بہترین ذریعہ ہیں کیونکہ کھیل نہ صرف آپ کو تازہ دم اور ہشاش بشاش رکھتے ہیں بلکہ ان کے ذریعے آپ زندگی کے بہت سے معاملات کو بہتر انداز میں حل کرنا سیکھ جاتے ہیں۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ آپ اس دوران کوشش کرنا سیکھتے ہیں کیونکہ کھیل میں آپ رُکتے نہیں اور آخری وقت تک ناامید نہیں ہوتے۔
ورلڈ سپورٹس انسائیکلوپیڈیا کے مطابق دنیا بھر میں آٹھ ہزار سے زائد کھیل کھیلے جاتے ہیں جبکہ پاکستان میں بدقسمتی سے کھیلوں کا زیادہ سے زیادہ مطلب کرکٹ لیا جاتا ہے اور وہ بھی اب محض دیکھنے کی حد تک محدود ہو چکا ہے۔ پہلے پہل نوجوان میدانوں اور سڑکوں پر کرکٹ کھیلتے نظر آ جاتے تھے مگر اب یہ سلسلہ بھی مفقود ہوتا جا رہا ہے۔ ویسے بھی کرکٹ کوئی بہت زیادہ متوازن کھیل نہیں ہے کیونکہ اس میں تمام کھلاڑیوں کو کھیل کے یکساں مواقع نہیں ملتے۔ اصل کھیل وہ ہوتا ہے جس میں ہر کھلاڑی کو کھیلنے اور حرکت کرنے کا زیادہ سے زیادہ ماحول ملے اور اس کا جسم اور دماغ بھرپور فعال ہو جیسے کہ تیراکی‘ فٹ بال‘ باسکٹ بال‘ سکواش‘ دوڑ‘ لانگ جمپ‘ ٹینس‘ بیڈمنٹن وغیرہ۔ یہ وہ کھیل ہیں جن میں آدھے گھنٹے سے ایک گھنٹے کے دوران جسم بھرپور مشقت کرتا ہے اور مخالف کے ساتھ زبردست مقابلہ بھی ہو جاتا ہے جبکہ کرکٹ میں دو بیٹر پچاس اوورز تک بیٹنگ کرتے رہیں تو باقی نو کھلاڑی ڈریسنگ روم میں بیٹھے انہیں تکتے رہیں گے اور ان کے کھیلنے کی باری ہی نہیں آئے گی۔ چنانچہ ہماری پہلی غلطی تو یہ ہے کہ ہم ابھی تک کھیل کا صحیح مفہوم ہی نہیں سمجھ سکے جبکہ بھارت جیسا ملک چین میں ہو رہی ایشین گیمز میں اس وقت تک61 تمغے جیت چکا ہے جن میں تیرہ گولڈ میڈل شامل ہیں۔ پاکستان نے کل ملا کر اب تک دو تمغے جیتے ہیں جن میں ایک چاندی اور ایک کانسی کا تمغہ ہے۔ چین 273 تمغوں کے ساتھ پہلے نمبر پر ہے جن میں ڈیڑھ سو طلائی تمغے ہیں۔ جاپان 124 تمغوں کے ساتھ دوسرے‘ کوریا 134کے ساتھ تیسرے نمبر پر ہے۔ جاپان نے 33 طلائی جبکہ کوریا نے 31 طلائی تمغے جیتے ہیں اس لیے جاپان دوسرے نمبر پر ہے وگرنہ تمغے کوریا کے زیادہ ہیں۔ چین کے شہر ہانگزو میں 19ویں ایشین گیمز آٹھ اکتوبر تک جاری رہیں گی۔ پاکستان ان گیمز کے 25 ایونٹس میں حصہ لے رہا ہے، پاکستان کے 262 رکنی د ستے میں 137 مرد اور 53 خواتین ایتھلیٹس اور ٹیم آفیشلز شامل ہیں۔ کووِڈ کی وجہ سے ایشیائی گیمز ایک سال کے لیے ملتوی کیے گئے تھے۔ چین تیسری بار ایشین گیمز کی میزبانی کر رہا ہے۔ قبل ازیں چین نے 1990ء اور 2010ء میں ایشین گیمز کی میزبانی کی تھی۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ پاکستان اور بھارت کا کرکٹ میں مقابلہ ہو تو پوری قوم ٹی وی کے آگے بیٹھ جاتی ہے لیکن ایشین گیمز میں پاکستان کا بھارت کے ساتھ تین کھیلوں میں آمنا سامنا ہوا لیکن کسی کو کانوں کان خبر ہوئی نہ کسی نے اس طرح اس میں دلچسپی لی جس طرح کرکٹ میں لی جاتی ہے۔ حالانکہ ان تین کھیلوں میں سے ایک پاکستان کا قومی کھیل ہے یعنی ہاکی‘ دوسرا کھیل وہ جس میں پاکستان کے دو خان ایک طویل عرصے تک دنیا پر راج کرتے رہے ہیں یعنی سکواش۔ ایشین گیمز میں پاکستان اور بھارت کا تین میدانوں میں ٹاکرا ہوا اور تینوں میں پاکستان نے شکست سمیٹی۔ چلیں فٹ بال کی تو سمجھ آتی ہے کہ اس میں کبھی ہم اُٹھے ہی نہیں تھے سو امید بھی کیا لگانی، لیکن ہاکی میں ہمیں کیا ہو گیا ہے کہ ہم دو کے مقابلے میں دس گول سے ہار گئے؟ یہی حال سکواش میں ہوا۔ ہمارے دوست ڈاکٹر عاصم اللہ بخش نے بڑی پتے کی بات کی ہے کہ ''معیشت و سیاست کو تو ایک طرف رکھیں، ہم جس طرح خود کو تباہ کر رہے ہیں، سکواش اور ہاکی اس کی بڑی مثال ہیں جبکہ کرکٹ بھی عنقریب اسی فہرست میں شامل ہوتی دکھائی دے رہی ہے۔ دیدۂ عبرت نگاہ رکھنے والوں کے لیے اس میں بہت سے اسباق موجود ہیں‘‘۔
ویسے فٹ بال سے یاد آیا کہ اس میں پاکستانی ٹیم نے کوئی کارنامہ تو انجام نہیں دیا لیکن پاکستان فٹ بال فیڈریشن کے ذریعے بڑے بڑوں کے وارے نیارے ہوتے رہے ہیں اور ان میں فیصل صالح حیات پیش پیش ہیں۔ وہ 2003ء سے فٹ بال فیڈریشن کے صدر یعنی تقریباً تاحیات صدر ہیں کیونکہ گزشتہ بیس برس سے تاحال‘ ہر مرتبہ وہ چار سال کے لیے صدر منتخب ہو جاتے ہیں لیکن مجال ہے کہ ان کی صدارت میں فٹ بال ٹیم نے کوئی معرکہ سر کیا ہو یا کبھی کوئی اچھی خبر سننے کو ملی ہو۔ ہمارے کھلاڑیوں کو تربیت اچھی نہیں ملتی‘ ان کی خوراک اچھی نہیں یا پھر معاشی دبائو کی وجہ سے وہ اچھا پرفارم نہیں کر پاتے‘ مسئلہ جو بھی ہے اس کے ذمہ داروں کا تعین ہونا چاہیے کیونکہ یہ بھی عوام کے ٹیکس کا پیسہ ہے جو کھلاڑیوں پر لگناچاہیے لیکن نجانے لگ کہاں رہا ہے اور اسی لیے ہمارے کھلاڑی منہ بسورے ہار کی مالا گلے میں لٹکائے واپس آ رہے ہیں۔
سکولوں کی سطح سے بچوں کو کھیلوں کی جانب راغب کیے بغیر اس مسئلے سے نمٹنا مشکل ہے۔ یہ نہیں کہ کچھ بچوں کو کلاس میں کھیلوں کے لیے سیلیکٹ کیا جائے۔ کھیل تمام بچوں کے لیے لازمی ہونے چاہئیں چاہے وہ کوئی بھی کھیل کھیلیں۔ اسی طرح بیڈمنٹن اور ٹیبل ٹینس ہر دفتر اور ہر ادارے میں ہونے چاہئیں کہ ان کے لیے زیادہ جگہ درکار ہوتی ہے نہ ہی زیادہ پیسہ چاہیے ہوتا ہے۔ ہر عمر کے لوگوں کو یہ کھیل کھیلنے چاہئیں۔ کھیل سے دماغ چست اور جسم توانا رہتا ہے۔ موبائل سکرین پر مسلسل کئی گھنٹے گزارنے والی نسل کئی طرح کے نفسیاتی عوارض اور بیماریوں کا شکار ہو رہی ہے جس کا علاج صرف اور صرف کھیل اور جسمانی ورزش ہے اور اس بار ے میں سنجیدگی سے نہ سوچا گیا تو ایسی منتشر الخیال اور ذہنی مائوف قسم کی نسل پروان چڑھے گی جو چاند پر جانے کی بجائے ''چن‘‘ چڑھانے میں پیش پیش ہو گی۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved