اگر حکومت ملک میں رہنے والوں کی جان و مال کا تحفظ ہی یقینی نہیں بنا سکتی تو پھر اس کے پاس عوام پر حکمرانی کرنے کا کیا جواز باقی رہ جاتا ہے؟ اگر عوام کو یونہی گھروں، سڑکوں، بازاروں، دکانوں، دفتروں، بسوں، گاڑیوں، بینکوں، شاہراہوں اور مارکیٹوں میں ڈاکوئوں، چوروں اور راہزنوں کے ہاتھوں لوٹ مار کر شکار ہی رہنا ہے تو پھر اہلِ حکومت کا اقتدار کی کرسی پہ براجمان رہنے کا کوئی جواز نہیں ہے۔ اس وقت دو کروڑ سے زائد بچے سکولوں سے باہر ہیں اور تین کروڑ سے زائد نوجوان صبح سے شام تک کسی بھی نوکری کے لیے در بدر دھکے کھاتے دیکھے جا سکتے ہیں۔ اگر حکومت ان کے لیے تعلیم اور روزگار کے وسائل پیدا نہیں کر سکتی، انہیں امن و امان نہیں دے سکتی تو ملک و قوم کے وسائل سے اندرون و بیرونِ ملک‘ لائو لشکر سمیت کئی کئی ہفتوں کے دورے کس لیے؟ اگر گولیوں کی ترتراہٹ اور بموں کے دھماکوں سے بھی ضمیر جاگنے کا نام نہیں لے رہے تو حکومت کے نام پر اس گناہِ بے لذت کا کیا فائدہ؟ اس وقت بازار محفوظ ہیں نہ مساجد۔ گھر محفوظ ہیں نہ گلیاں، لیکن اہلِ اختیار نہ جانے کن خیالات میں مگن ہیں۔ ان کی آنکھیں نیند سے جاگنے کا نام ہی نہیں لے رہیں۔ یہ سنگدلی اور بے حسی دیکھ کر اب ڈر لگنے لگا ہے کہ کہیں کوئی آسمانی کوڑا تو ہم پر نہیں برسنے والا۔ یہ تو ازل کی رِیت ہے کہ جب زمین پر عدل و انصاف اور امن و امان مفقود ہو جائے تو پھر فیصلے آسمان سے نازل ہوا کرتے ہیں اور آسمان سے اترنے والے فیصلے کسی تخصیص کو خاطر میں نہیں لاتے۔ پھر امیر غریب‘ ظالم مظلوم‘ طاقتور کمزور‘ سبھی برابر پستے ہیں، ہاں! روزِ جزا کو سب اپنی اپنی نیت اور اپنے اپنے عمل کے مطابق پرکھے جائیں گے مگر اس زمین پر جب آسمان کے فیصلے نازل ہوتے ہیں تو پھر کسی کے ساتھ کوئی رعایت نہیں برتی جاتی۔ حضرت صالح علیہ اسلام کی اونٹنی کی کونچیں صرف چند بدبختوں نے کاٹی تھیں لیکن عذاب کا شکار پوری قوم کو ہونا پڑا تھا۔
حکمران اس قدر بے خبر تو نہیں ہو سکتے کہ انہیں پتا ہی نہ چلے کہ ملک میں امن و امان کی صورتحال کس حد تک بگڑ چکی ہے۔ کراچی، پشاور اور کوئٹہ کے کاروباری اور تاجر حضرات اپنے خاندانوں سمیت بنگلہ دیش، کینیا، ملائیشیا، ترکیہ اور دیگر ممالک کی طرف بھاگنے پر مجبور ہو چکے ہیں۔ اس وقت کراچی کی صورتحال یہ ہو چکی ہے کہ ایک مشہور قدیمی کلب کے لگ بھگ چالیس فیصد ممبران چند ماہ ہوئے‘ ملک کو مستقل طور پر چھوڑ کر جا چکے ہیں۔ یہ سب شہرِ قائد کے بڑے تاجر اور صنعتکار تھے۔ اب تو حالت یہ ہو چکی ہے کہ پولیس سٹیشن تک محفوظ نہیں ہیں اور یہاں بھی لوگوں کی گاڑیاں اور موٹر سائیکلیں چوری کی جا رہی ہیں۔ اکثر تھانوں کی اندرونی دیواروں پر لکھ کر لگا دیا گیا ہے کہ اپنی اشیا کی حفاظت خود کریں۔ گزشتہ دنوں گوجرانوالہ کے صرافہ بازار میں ایک رہائشی کاموبائل فون اور پیسے چوری کر لیے گئے، جب وہ تھانہ کوتوالی میں مقدمہ درج کرا کے باہر نکلا تو تھانے کے باہر سے اس کی موٹر سائیکل بھی چوری ہو چکی تھی۔ گزشتہ ماہ ہی یہ خبر بھی پڑھنے کو ملی تھی کہ لاہور کے تھانہ ڈیفنس کے باہر سے چالیس سے زائد موٹر سائیکلیں چوری کرنے والے پولیس اہلکار کے خلاف مقدمہ درج کر کے محکمانہ کارروائی کا آغاز کر دیا گیا۔ تفصیلات کے مطابق پولیس کانسٹیبل ایک مقامی کباڑیے کے ساتھ مل کر یہ دھندہ کر رہا تھا۔ لاہور ہی میں چوبرجی کے علاقہ میں ایک شخص کی موٹرسائیکل گھر کے باہر سے غائب ہو گئی تو گلی میں لگے کیمرے کی سی سی ٹی وی فوٹیج چیک کی گئی۔ حیران کن منظر آنکھوں کے سامنے تھا۔ دو موٹر سائیکلوں پر چار پولیس اہلکار گلی سے گزر رہے تھے کہ اچانک شہری کی موٹر سائیکل کے پاس آ کر دونوں موٹر سائیکلیں رک گئیں۔ دو اہلکار نیچے اترے، ایک نے جیب سے چابی نکال کر موٹر سائیکل کھولی، سٹارٹ کی، دوسرے اہلکار کو پیچھے بٹھایا اور اگلے دو منٹوں میں چاروں اہلکار تین موٹر سائیکلوں پر سوار ہو کر چلے گئے۔ اس وقت سوشل میڈیا پر روالپنڈی کی ایک وڈیو بھی گردش کر رہی ہے کہ جہاں چند دن پہلے ایک احتجاج کے دوران پولیس اہلکار آئے اور آپریشن کے دوران ''مالِ غنیمت‘‘ پر بھی بھرپور زور دیا گیا۔ کچھ وکلا نے مل کر اہلکاروں کو رنگے ہاتھوں پکڑا اور سرکاری گاڑی میں بیٹریاں لے جانے کی کوشش ناکام بنا دی۔
امن و امان کی بات کی جائے تو ابھی تک کچے کا علاقہ ہی پُرامن نہیں بنایا جا سکا۔ حالیہ اعداد و شمار کا جائزہ انتہائی لرزہ خیز ہیں۔ گزشتہ ایک ماہ میں 30 کے قریب افراد کو صرف کشمور اور ملحقہ علاقوں سے اغوا کر کے کچے میں لے جایا گیا۔ ڈاکوئوں کا مقابلہ کرنے اور علاقہ کلیئر کرنے کے بجائے مقامی پولیس کی کوشش یہ ہے کہ جرائم پیشہ عناصر کو ایک مخصوص علاقے تک محدود کر دیا جائے۔ جب اس اپروچ کے ساتھ جرائم سے نمٹا جائے گا تو وہی نتیجہ برآمد ہو گا جو اس وقت ہمارے سامنے ہے۔ جرائم کے حوالے سے ایک اور رپورٹ میرے سامنے پڑی ہے جس کے مطابق رواں سال شہرِ قائد میں دوران ڈکیتی مزاحمت پر قتل کیے جانے والے شہریوں کی تعداد 100 سے تجاوز کر گئی ہے جبکہ دیگر سینکڑوں شہری ڈاکوئوں کی فائرنگ سے زخمی ہوئے۔ ان چوروں، ڈاکوئوں کو وارداتیں کرنے کے دوران سڑکوں، محلوں اور گلیوں میں لگے ہوئے کیمروں کا بھی کوئی ڈر و خوف نہیں ہے، جس سے ان کے ''بلند حوصلوں‘‘ کا بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ صرف کراچی میں گزشتہ چند ہفتوں میں خواتین کو ہراساں کرنے کے کئی واقعات سامنے آ چکے ہیں، بیشتر کی فوٹیج بھی دستیاب ہے مگر اب تک کتنی گرفتاریاں عمل میں لائی گئی ہیں؟ روزانہ کی بنیاد پر پولیس کی جانب سے سٹریٹ کرمنلز سمیت دیگر جرائم پیشہ عناصر کو پکڑنے یا مقابلے کے دوران زخمی یا ان کے مارے جانے کے دعوے سامنے آتے ہیں لیکن جرائم کی شرح ہے کہ بڑھتی ہی جا رہی ہے۔ کاش کسی دن اس ملک کے عوام کا بھی ضمیر جاگے۔ کسی دن عوام کی بند آنکھیں بھی کھلیں اور وہ ان ڈاکوئوں، قاتلوں اور لٹیروں کے پیچھے چھپے ہوئے چہروں کو دیکھیں۔ اپنی خوشیاں لوٹنے والوں‘ اپنا خون چوسنے والی جونکوں کی شکلیں پہچان لیں اور پھر ان سب لٹیروں کے خلاف ''آل عوام کانفرنس‘‘ بلا کر ان کا وہ حال کریں کہ آئندہ کسی کو انہیں لوٹنے کی ہمت تک نہ ہو سکے۔
حکمران طبقے سے تو اب کوئی امید بھی باقی نہیں۔ کئی کئی گھنٹے اس قوم کی بیٹیاں پورے ملک کی سڑکوں پر کھلے آسمان تلے سراپا احتجاج رہتی ہیں، اپنے دامن پھیلائے اس ملک کے فیصلہ سازوں سے قانون اور آئین میں دیا گیا تحفظ مانگتی ہیں لیکن کوئی ان کی فریاد سننے والا نہیں۔ ہر شہر کے پریس کلب کے باہر ہر روز، بلاناغہ پولیس گردی، اثر و رسوخ والی شخصیات اور مختلف طاقتور افراد کی جانب سے ڈھائے جانے والے مظالم کے خلاف احتجاج ہوتا ہے مگر کسی کی شنوائی نہیں ہو پاتی۔ جب بھی میں قوم کے بیٹیوں کو حکمرانوں کو پکارتے دیکھتا ہوں تو مجھے ڈر لگنے لگتا ہے کہ کہیں قہر الٰہی جوش میں نہ آ جائے۔ مجھے ڈر ہے کہ کہیں کسی بچے کی دلدوز چیخ، کہیں کسی ماں کی آہ و بکا عرش کو ہلا کر نہ رکھ دے۔ مجھے ڈر ہے کہ کہیں پورے ملک کے گلی کوچوں میں کھلے آسمان تلے روتی پیٹتی چیختی قوم کی چیخوں سے عرش پر جنبش نہ ہو نے لگ جائے۔ مجھے ڈر ہے کہ کسی بے گناہ کی روح کہیں اپنے لیے فوری انصاف کا تقاضا نہ کر دے۔ کوئٹہ، مستونگ، چترال، کراچی، ہنگو اور پشاور کی سڑکوں پر روزانہ خون بہایا جا رہا ہے۔ انسانوں کی کفن میں لپٹی ہوئی میتیں انصاف مانگتی ہیں۔ اہلِ حکومت کی بات تو رہنے دیں، انہیں اپنی ذمہ داریوں کی جس قدر پروا ہے، وہ سب کے سامنے ہے۔ مجھے اس قوم کے ہر فرد سے بھی گلہ ہے جو اب تک خاموشی سے سارا تماشا دیکھ رہے ہیں۔ اس ملک میں کام کرنے والی این جی ا وز سے بھی مجھے گلہ ہے اور ہیومن رائٹس کی تنظیموں سے بھی گلہ ہے جنہوں نے خود کو ہر چیز سے لاتعلق بنا لیا ہے۔ یاد رہے کہ جب عوامی سطح پر ردعمل بند ہو جائے تو پھر فیصلے آسمان سے اترا کرتے ہیں۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved