برسوں پہلے اسلام آباد میں میری ایک سندھی نوجوان سے ملاقات ہوئی تھی۔ مجھے اس نوجوان کا نام یاد نہیں مگر اس کی کہی ہوئی ایک بات مجھے آج تک نہیں بھولی۔ یہ اس دورکی بات ہے جب بے نظیر بھٹو کی پہلی حکومت ختم ہوچکی تھی اور میاں نوازشریف نے اپنی پہلی حکومت قائم کی تھی۔ اس سندھی نوجوان کو چند ماہ پہلے پیپلزپارٹی کی حکومت میں کوئی نوکری ملی تھی مگر نئی حکومت نے آتے ہی اُسے نکال دیا اور وہ چند روز کے لیے میرے ایک دوست کے ہاں ٹھہرا ہوا تھا۔ اسی دوست کے ہاں میں اس سندھی نوجوان سے ملا تھا۔ میں کسی کام سے اپنے دوست کے ہاں گیا تھا اور ہم دونوں جتنی دیر آپس میں بات چیت کرتے رہے وہ سندھی نوجوان مسلسل فون پر باتیں کرتا رہا۔ فون پر موصوف کی گفتگو میں بار بار جو نام آئے ان میں بیشتر ناموں کے ساتھ لفظ بلوچ آتا تھا۔ میرا دوست اٹھ کر کسی کام سے باہر گیا تو میں نے دیکھا کہ وہ سندھی نوجوان بھی فون پر مصروف نہیں ہے‘ لہٰذا میں اس نوجوان کی طرف متوجہ ہو کر بیٹھ گیا۔ شروع میں چونکہ تعارف وغیرہ ہوچکا تھا لہٰذا میں نے محض گفتگو کرنے کی غرض سے کہا: ’’سائیں آپ کی نوکری چلی گئی مگر آپ کی گفتگو سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ بالکل خوش باش ہیں اور آپ کو نوکری سے نکالے جانے کا کوئی دکھ نہیں ‘‘ وہ سندھی نوجوان میری بات سن کر مسکرایا اور کہنے لگا: ’’سائیں دکھ کس بات کا۔سب کچھ مولا سائیں کی طرف سے ہوتا ہے‘ اسی نے نوکری دی تھی‘ اسی نے لے لی۔ ویسے سائیں میری بات چیت سے آپ کو لگا ہوگا کہ میں تعلیم یافتہ ہوں۔ میں تو سائیں پانچویں کے بعد سکول گیا ہی نہیں۔ اللہ کا کرم ہے گفتگو بڑی اچھی کرلیتا ہوں۔ پندرہ بیس منٹ تو میں رانگ نمبر پر بات چیت کرلیتا ہوں۔ سائیں تعلیم ہوتی اور نوکری سے نکال دیتے تو پھر تودکھ ہوتا۔ ‘‘ جس آسانی سے وہ نوجوان اپنے بارے میں بے لاگ گفتگو کررہا تھا‘ مجھے اتنا اچھالگا کہ میں بیان نہیں کرسکتا۔ کوئی بناوٹ نہیں‘ کوئی کمپلیکس نہیں۔ میرا جی چاہا کہ اس نوجوان سے اور گفتگو کروں۔ میں نے یوں ہی موصوف سے پوچھا: ’’سائیں‘ آپ جب فون پر بات کررہے تھے تو جن لوگوں کے آپ نام لے رہے تھے ان میں اکثر نام کے ساتھ بلوچ کا لفظ آتا تھا۔ یہ اتنے سارے بلوچ لوگ سندھ میں کیسے آگئے۔‘‘ یہ سن کر وہ نوجوان سوچ میں پڑ گیا اور اس کے بعد اس نے وہ جملہ بولا جس کی تمہید کے طورپر میں نے اتنا پس منظر بیان کیا ہے۔ موصوف میرے سوال کے جواب میں انتہائی سادگی سے بولے: ’’سائیں سچی بات بولوں‘ میں اس بارے میں کبھی اتنا Deep (گہرائی میں) نہیں گیاہوں۔‘‘ اس نوجوان نے خلوص کے ساتھ یہ اعتراف کرکے مجھے ایک ایسا سبق دیا کہ اگرکوئی بات مجھے معلوم نہ ہوتو میں بے جھجک اپنی لاعلمی کا اظہار کردیتا ہوں اور اگر دوستوں کی محفل ہوتو اس سندھی نوجوان کا یہ جملہ دوہرادیتا ہوں کہ ’’سائیں ،میں اس مسئلے پر اتنا Deepنہیں گیا ہوں۔ یہ جملہ حال ہی میں مجھے ایک ایسی بحث میں دہرانا پڑا جہاں سائنسی میدان میں مغرب کی ترقی سے بات شروع ہوئی اور پھر اس کی وجوہ پر اظہار رائے ہوا۔ ایک نقطہ نظر یہ تھا کہ مغرب کی ترقی کی بنیاد میں قرون وسطیٰ میں مسلمانوں نے جو سائنسی ترقی کی تھی وہ آج بھی دکھائی دیتی ہے اور پھر اس کے بعد مسلمانوں کے انحطاط کی طویل تفصیل ۔ دوسرا نقطہ نظریہ تھا کہ یورپ ہزاربرس تک تاریک دور (Dark ages) میں رہا اور پھر پندرہویں صدی میں احیائے علوم کی تحریک سے جاگ اٹھا ۔ جب جاگ اٹھا تو اس نے دنیا بھر میں جہاں کہیں علم کے موتی دیکھے اکٹھے کرنے شروع کردیے۔ اس دوران میں یورپ کو مسلم دنیا میں جو سائنسی ترقی ہوچکی تھی اس کا بھی فائدہ ہوا مگر بنیادی طورپر بات یہ ہے کہ جب کوئی تہذیب جاگ جاتی ہے تو پھر وہ آہستہ آہستہ لیڈربن ہی جاتی ہے۔ اور بھی بہت سے مؤقف اس ضمن میں پیش ہوئے مگر میرا کہنا بس اتنا ہی تھا کہ ’’سائیں میں اس مسئلے پر اتنا Deep نہیں گیا ہوں۔‘‘ واقعتاً اس بارے میں جس قدر بھی میں نے سوچ بچار کی ، اس میں کبھی اتنی گہرائی پیدا نہیں ہوسکی کہ میرے ذہن کو کوئی تسلی بخش جواب مل سکے سوائے اس کے کہ جو اللہ چاہتا ہے کرتا ہے۔ صلیبی جنگوں (Crusades) کے دور سے مسلم دنیا اور مسیحی یورپ میں مخاصمت چلی آرہی ہے۔ یہ مخاصمت ماضی کی تاریخ کے مختلف ادوار میں کس کس انداز سے سامنے آتی رہی اس کی صحیح حقیقت تک پہنچنا بہت ہی مشکل کام دکھائی دیتا ہے۔ گزشتہ صدیوں کی بات کریں تو نو آبادیاتی نظام کے بارے میں یہ جائزہ لینا کہ اس کی کتنی وجوہ معاشی تھیں اور کتنی ہوس اقتدار تھی اور کتنا اثر مسلمانوں اور مسیحیوں کی تاریخی مخاصمت کا تھا، کیا آپ کو آسان دکھائی دیتا ہے؟ میں تو بقول اس سندھی نوجوان کے اتنا Deep نہیں جا سکتا۔ اگر ہم جدید دور کی بات کریں تو واضح مثال کے طور پر لوگ دہشت گردی کے خلاف جنگ کی بات کرتے ہیں اور یہ بھی بتایا جاتا ہے کہ صدر جارج بش نے تو Crusade کا لفظ بھی استعمال کردیا تھا۔ آج مسلم دنیا کے ساتھ مغرب کے تعلقات کی جو نوعیت ہے وہ بھی مجھے بہت پیچیدہ معلوم ہوتی ہے۔ سوویت یونین کے خلاف افغانستان میں جنگ کے دوران جس طور مغربی دنیا مسلمانوں پر فریفتہ تھی وہ تو کل کی بات ہے‘ پھر آج بھی 11ستمبر کے واقعہ میں عرب نوجوانوں کے شامل ہونے کے باوجود عرب دنیا سے مغربی دنیا کے تعلقات اظہر من الشمس ہیں۔ ہم ادھر پاکستان میں امریکہ سے نفرت کے ریکارڈ قائم کررہے ہیں اور یہ نفرت ایسی بے بنیاد ہے کہ اگر آج امریکی صدر یہ بیان دے دے کہ کشمیر کے مستقبل کا فیصلہ اقوام متحدہ کی قراردادوں کی روشنی میں ہوگا تو کل ہی یہ ساری نفرت ہوا ہوجائے گی اور ہم امریکہ پر صدقے واری ہونا شروع ہوجائیں گے۔ لہٰذا اس بارے میں ہم لوگوں نے تمام نتائج سطحی انداز میں اخذ کر رکھے ہیں۔ کوئی اتنا Deep نہیں گیا۔ اب آخر میں مغرب کو چھوڑیں، طالبان کا معاملہ لے لیں۔ کیا کیا موشگافیاں اس ضمن میں ہورہی ہیں۔ آج اس حوالے سے مذاکرات کی بات ہوتی ہے‘ اگلے دن مذاکرات کی بات کرنے والے مزاحیہ کردار محسوس ہونے لگتے ہیں۔ طالبان نے جن علاقوں پر اپنا ’’اقتدار اعلیٰ‘‘ قائم کررکھا ہے وہاں نہ سکول ہیں، نہ کالج اور نہ یونیورسٹیاں ، مگر یہ لوگ ،جو طالب علم کا جمع کا صیغہ ہونے کے ناتے طالبان کہلاتے ہیں ،اپنے نام سے علم کا لفظ حذف کر چکے ہیں اور ہمارے معلّم اور استاد بننے کی ضد کررہے ہیں۔ان حقائق کے باوجود ہم نے یہ سطحی سا نتیجہ اخذ کر رکھا ہے کہ طالبان سے مذاکرات کرکے امن قائم ہوسکتا ہے۔ کوئی مجھ سے پوچھے کہ آیا ایسا ہوسکتا ہے تو میرا جواب اس سندھی نوجوان والا ہی ہوگا: ’’سائیں ،میں اس مسئلے پر اتنا Deep نہیں گیا ہوں۔‘‘
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved