تحریر : بابر اعوان تاریخ اشاعت     06-10-2023

وہ ٹوٹے گا نہیں‘ پھر لوٹے گا

یہ عمران خان کی گرفتاری سے بہت پہلے کی بات ہے۔ 2018ء کے عام انتخابات میں پاکستان تحریکِ انصاف کا انتخابی منشور فائنل کرنے کے لیے بنی گالا میں میٹنگ ہوئی۔ ملک کے نظام پرکپتان نے بار بار ایک ہی تبصرہ کیا۔ تکرار کی حد تک ان کا اصرار تھا کہ یہ انتخابی نعرہ ہر گز نہیں بلکہ عشروں سے پاکستان میں رائج ظالمانہ Elite Capture کاایسا مکروہ چہرہ ہے جس پر عام آدمی کو ایجوکیٹ کرنا پڑے گا تاکہ ناانصافیوں کے اس نظام کو بے نقاب کرنا‘ انتخابی مہم سے آگے بڑھا کر قومی ایجنڈا بنایا جا سکے۔ طویل نشست کے بعد اس کی فائنل صورت یہ سامنے آئی ''دو نہیں ایک پاکستان‘ دو نہیں ایک انصاف‘‘۔
اس ہفتے آپ نے دو مقدمات چلتے ہوئے دیکھے ہیں۔ ایک ملک کی سب سے بڑی عدالت سپریم کورٹ آف پاکستان میں اور دوسرا اڈیالہ جیل کی اونچی دیواروں کے پیچھے چلایا گیا مقدمہ ہے۔ ان دونوں کیسز کا تقابلی جائزہ لینا بنتا ہے مگر اس سے بھی پہلے نئے چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ صاحب کی طرف سے اٹھائے گئے وطنِ عزیزکی جوڈیشل پالیسی کے بارے میں دو نکات دیکھنا ضروری ہوں گے۔ پہلے نمبر پر لارجر پبلک انٹرسٹ کی صف میں آنے والے مقدمات کے حوالے سے چیف جسٹس صاحب کی زبانی ہدایت ہے جس کو جوڈیشل زبان میں Obitar-dictaکہتے ہیں۔ اس کے مطابق چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ صاحب نے مقدمات میں وکیلوں کی بحث سننے کے بعد کئی کئی ہفتوں تک فیصلے محفوظ کرنے کی روایت پر سخت ناپسندیدگی کا اظہار کیا۔ دوسرے یہ کہ اُنہوں نے مفادِ عامہ کے دو بڑے مقدمات کی براہِ راست ٹی وی سیکرینوں پر کوریج کرنے کے احکامات جاری کیے۔ چیف جسٹس پاکستان سے پہلے چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ کی حیثیت سے جسٹس اطہر من اللہ صاحب پاکستان کی تاریخ میں لائیو کوریج یا مقدمے کی سماعت کو براہِ راست میڈیا پر نشر کرنے کی روایت کے بانی ہیں۔ ان دونوں روایات کے پیچھے عدالتی انصاف کا عالمی اصول ہے۔ جسے کہتے ہیں انصاف صرف کر دینا کافی نہیں بلکہ انصاف ہوتا ہوا بھی دکھائی دینا چاہیے۔
ان حالات میں پاکستان میں عام آدمی اور جمہوریت پسندوں کی طرف سے یہ مطالبہ عین قرینِ انصاف ہے کہ سابق وزیراعظم عمران خان کے خلاف سائفر مقدمے کا ٹرائل براہِ راست کور کرنے کے لیے لوکل اور گلوبل میڈیا کو موقع دیا جائے۔ ہم ذرا پیچھے دیکھیں تو چند عشرے پہلے امریکن سٹار فٹ بالر‘ مسٹر O.J Simpson‘ جن پر اپنی گرل فرینڈ کو قتل کرنے کا الزام تھا‘ کا مقدمہ ساری دنیا میں لائیو دکھایا گیا۔ امریکہ کے سابق صدر اور 2024ء کے لیے مضبوط ترین صدارتی امیدوار ڈونلڈ جے ٹرمپ کے مقدمے بھی لائیو ہی دکھائے جا رہے ہیں۔
اگر عمران خان کا مقدمہ لائیو دکھایا گیا تو اس سے ملک میں نظامِ انصاف پر عوام کا اعتماد واپس لوٹنے کا امکان ہے۔ ویسے بھی ہمارے نظامِ انصاف میں موجود کھلے تضاد کی وجہ سے عالمی رینکنگ میں ہم 133ویں نمبر پر آتے ہیں۔ عمران خان کی کوئی حمایت کرے یا مخالفت‘ اس سے انکار نہیں کیا جا سکتا ہے کہ وہ چار میدانوں کے گلوبل لیڈر ہیں۔ ان کا اولین میدان کرکٹ تھا جس میں ان کے سٹارڈم کا مقابلہ کوئی دوسرا کرکٹ میں نہ کر سکا۔ دوسرے نمبر پر وہ عالمِ اسلام اور آزادی پسند پُرامن عوام کے عالمی آئیکون ہیں۔ تیسرے بلین ٹری سونامی کے ذریعے انہوں نے عالمی ماحولیات کی لیڈر شپ میں اپنے لیے خاص جگہ بنا لی ہے۔ چوتھے ان کے دلیرانہ طرزِ سیاست‘ آزادانہ خارجہ پالیسی‘ آئینی جمہوریت پر لگی زنجیریں توڑنے کی جدوجہد اور بین الااقوامی برادری کے درمیان کھڑے ہو کر اسلامو فوبیا کے نام پر مغربی اندھیرا فروشوں کو للکارنا۔ دوسروں کے لیے لڑی جانے والی پراکسی جنگوں سے Absolutely Not کہہ کر پاکستان کے عوام کو بچانا‘ ان کی عالمگیر شہرت کا باعث ہیں۔ اس لیے عین ممکن ہے کہ کپتان کا ٹرائل براہِ راست دکھانے کے نتیجے میں ہمارے جوڈیشل سسٹم کی رینکنگ میں کچھ بہتری آجائے۔
عمران خان کی عالمگیر پذیرائی اور Reach کے دو کھلے ثبوت اس وقت سوشل میڈیا پر سب کے سامنے ہیں۔ ہفتے اور اتوار کی درمیانی رات 12بجے عمران خان کی سالگرہ کا وقت شروع ہوا۔ صرف چند گھنٹے کے اندر اندر عمران خان سوشل میڈیا پر عالمی ٹرینڈنگ کے دوسرے نمبر پر آگئے۔ پاکستان میں 'اغوا برائے بیان‘ کیے جانے والے واقعہ کی رپورٹنگ پاکستان کے اندر بھی عمران خان کی سالگرہ مبارک والے ٹرینڈ کو مات نہ کر سکی۔ زمینی حقائق‘ زمینی جبروت سے بہت زیادہ طاقتور ہوتے ہیں۔ یہ حقیقت عمران خان کے پہلے ٹک ٹاک نے بھی ثابت کر دی تھی۔ ہر ضمنی الیکشن بھی یہی حقیقت ثابت کرتا آیا ہے۔
اب چلتے ہیں دوسرے کھلے تضاد کی جانب جس کے مطابق پاکستان کی ریاست و سیاست میں بھی دو نظام چلتے ہوئے صاف دکھائی دے رہے ہیں۔ پہلا نظام وہ ہے جسے شہید بی بی نے ''ضیا کی باقیات‘‘ کا نام دیا تھا۔ یہ تھا غیرجماعتی الیکشن کا ٹیکنو کریٹس والا نظام جس کے ذریعے پنجاب میں ایک بزنس مین کو وزیر خزا نہ بنایا گیا۔ Elite Captureکو یہ شخص اس قدر پسند آیا کہ تھوڑے عرصے میں اسے وزیراعلیٰ پنجاب اور پھر طاقت کا بوسٹر لگا کر وزارتِ عظمیٰ کی سیڑھی پر چڑھا دیا گیا۔ یہیں سے وہ داستان شروع ہوتی ہے جسے ایک مرحوم اردو صحافی نے ''جب پاکستان لٹ رہا‘‘ کا ٹائٹل دیا۔ پھراسے کرپٹ ثابت کرکے گھر بھجوا دیا گیا۔ تھوڑے عرصے بعد کرپشن کے داغ تو اچھے ہوتے ہیں والا فارمولا حرکت میں آیا اور دوسری بار اسے چیف ایگزیکٹو آف اسلامک ریپبلک بنا دیا گیا۔ کھلے تضاد کی بھرمار نے اس کی دولت کئی براعظموں تک پھیلا دی۔ مٹھائی کے ٹوکرے والی پرساد BMWکے گفٹ میں تبدیل ہو گئی۔ پھر تیسری بار بھی اسے وزیراعظم بنانے کے لیے داغ دھلے‘ فیض احمد فیض کے بقول:
یہ داغ داغ اجالا یہ شب گزیدہ سحر
وہ انتظار تھا جس کا یہ وہ سحر تو نہیں
یہ وہ سحر تو نہیں جس کی آرزو لے کر
چلے تھے یار کہ مل جائے گی کہیں نہ کہیں
ان دنوں ایک بار پھر فیض کو سچا ثابت کیا جا رہا ہے۔ پورا زور لگ رہا ہے وہ چوتھی بار لوٹ آئے جس نے تین بار معیشت کو چین‘ جرمنی اور جنوبی کوریا کے مقابلے سے اٹھا کر ٹمبکٹو‘ بھوٹان اور افغانستان کے مقابلے میں لا چھوڑا ہے۔ جس کا برادرِ خورد 16مہینے میں وطن کو کھائی میں گرا کر بڑے بھائی کو پھر سے داغ دھونے والی فیکٹری میں لے جانا چاہتا ہے۔ مگر اس بار قیدی نمبر 804کھلے تضادات کا راستہ روکے بیٹھا ہے۔ اس کے لوگ جاگ رہے ہیں۔ اسی لیے اڑھائی کروڑ آبادی کے شہر لاہور میں (ن) لیگ کی جلسیاں کراؤڈ کے بغیر دکھائی جا رہی ہیں۔ ضمیر کے قیدی کو سالگرہ مبارک اور ساتھ فیض احمد فیض کو بھی خراجِ تحسین جو اسی پیغام کے پیام بر تھے:
ابھی چراغِ سرِ رہ کو کچھ خبر ہی نہیں
ابھی گرانیٔ شب میں کمی نہیں آئی
نجات دیدہ و دل کی گھڑی نہیں آئی
چلے چلو کہ وہ منزل ابھی نہیں آئی
اور سنیے! وہ ٹوٹے گا نہیں پھر لوٹے گا۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved