میں جغرافیہ کی طالبعلم رہی ہوں لہٰذا زمین سے متعلق تمام چیزوں پر میری گہری نظر رہتی ہے۔ زمین کی سطح، اس کے خدوخال، اس کی تبدیلیاں‘ یہ سب مجھے اپنی طرف ایسے کھینچ لیتا ہے جیسے ان میں میرے لیے کوئی کششِ ثقل ہے۔ یہ میرا پسندیدہ سبجیکٹ رہا ہے مگر ہمارے ہاں اس شعبے میں کم مواقع ہیں‘ اسی وجہ سے بعد میں مَیں معاشیات اور میڈیا سٹڈیز کی طرف آ گئی۔ مگر ان کا مطالعہ جاری رکھا اور ہمیشہ سے مجھے ماحولیاتی اور ارضیاتی تبدیلیوں کے حوالے سے جاننے کا اشتیاق رہا ہے۔
آج کل ایک افواہ پھیلی ہوئی ہے کہ پاکستان میں زلزلہ آنے والا ہے۔ کہا جا رہا ہے کہ یہ زلزلہ چمن فالٹ لائن پر آئے گا۔ اس بات کی اطلاع سوشل میڈیا پر ایک ایسے ادارے کے اکائونٹ کے ذریعے سے دی گئی جو زلزلوں، ارضیاتی تبدیلیوں اور فالٹ لائنز وغیرہ کا مطالعہ کرتا ہے۔ یہ کوئی ٹرول یا جعلی اکائونٹ نہیں ہے بلکہ ایک نامی گرامی ادارہ ہے۔ اس ادارے کا نام SSGEOS (Solar System Geometry Survey) ہے اور یہ نیدر لینڈز میں قائم ہے۔ یکم اکتوبر کو اس ادارے کے آفیشل اکائونٹ کی طرف سے ایک ٹویٹ کیا گیا کہ جس میں ایک خطے کو ہائی لائٹ کر کے کہا گیا کہ یہاں پر ایک میجر سزمک ایونٹ (Seismic event) ہونے کا خدشہ ہے۔ جس جگہ کو انہوں نے نقشے پر ہائی لائٹ کیا تھا وہ چمن فالٹ لائن ہے۔ یہ وہی ادارہ ہے جس نے ترکیہ میں آنے والے زلزلے سے دو دن پہلے ہی اس حوالے سے ٹویٹ کیا تھا کہ اس جگہ زلزلہ آنے کا خدشہ ہے۔ یہ پیشگوئی درست ثابت ہوئی اور ترکیہ اور شام میں ہولناک زلزلہ آیا۔ اس ٹویٹ کے بعد افواہ سازی بھی شروع ہو گئی اور لوگوں نے زلزلے کو کسی انسانی تجربے کی کارستانی قرار دینا شروع کر دیا۔ اب اسی ادارے کی طرف سے یہ ٹویٹ سامنے آیا ہے کہ ہم نے 30 ستمبر کو پاکستان کے قریب ایک ارضیاتی ہل جل محسوس کی ہے، یہ مراکش میں آنے والے زلزلے کی طرح ایک اشارہ ہو سکتا ہے اور شدید زلزلے کے جھٹکے محسوس کیے جا سکتے ہیں، لیکن یہ نہیں بتایا جا سکتا کہ یہ کب آئیں گے۔ سولر سسٹم جیومیٹری سروے ایک مستند ادارہ ہے جو سزمک ایکٹوٹی یعنی زمین کی پلیٹوں کی حرکت پر کام کرتا ہے۔ اس ادارے نے اگرچہ زلزلے کی پیش گوئی کی ہے مگر ساتھ ہی یہ بھی کہا ہے کہ یہ نہیں بتایا جا سکتا کہ زلزلہ کب آئے گا؛ تاہم اس خبر نے عوام میں خوف پھیلا دیا ہے۔ رہی سہی کسر نیپال اور بھارت میں آنے والے زلزلے نے پوری کر دی ہے۔ اس زلزلے نے لوگوں میں مزید خوف اور سنسنی پھیلا دی کہ اب تو پاکستان میں زلزلہ ضرور آئے گا۔ اس حوالے سے خصوصاً بلوچستان میں لوگ زیادہ پریشان ہو گئے ہیں۔ بہت سے علاقوں سے یہ بھی اطلاع آئی کہ لوگوں نے رات سڑکوں پر بسرکی۔ معاملہ اس لیے بھی سنگین ہے کہ جس ادارے کی طرف سے یہ ٹویٹ آیا‘ اس کی پہلی اطلاع درست ثابت ہوئی تھی۔ اب سوشل میڈیا پر زلزلہ ٹاپ ٹرینڈز میں ہے اور مختلف افواہیں بھی جنم لے رہی ہیں۔
زلزلے کیوں آتے ہیں؟ زمین پلیٹس یعنی پرتوں پر مشتمل ہے، زیرِ زمین حرارت یا کسی تغیر و تبدیلی سے یہ پرتیں ہلتی ہیں تو زلزلے جنم لیتے ہیں۔ پاکستان دو اہم فالٹ لائنز پر واقع ہے، اس لیے یہ زلزلوں کی زد میں رہتا ہے۔ یہ تمام فالٹ لائنز متحرک ہیں۔ پاکستان میں کشمیر اور بلوچستان میں ہولناک زلزلے آ چکے ہیں۔ میدانی علاقوں میں زلزلوں سے عمارتیں زمین بوس ہونے کا خطرہ ہوتا ہے جبکہ ساحلی علاقوں میں زلزلوں سے سونامی بھی آ جاتے ہیں۔ اگر ہم اپنے دین کی تعلیمات دیکھیں تو یہ واضح ہو جاتا ہے کہ جہاں زِنا، سود، شراب، ناانصافی اور ظلم جیسے گناہ عام ہو جائیں، وہاں اللہ کا عذاب اترنا شروع ہو جاتا ہے۔ اس لیے سب کو چاہیے کہ کثرت کے ساتھ استغفار کریں تاکہ اگر کوئی مصیبت آنے کو ہو تو وہ ٹل جائے۔ قرآنِ پاک میں سورۃ الزلزال موجود ہے جس میں زلزلے کا ذکر ہے‘ ایک ایسا زلزلہ جس سے دنیا تباہ ہو جائے گی اور پھر مردے اپنی قبروں سے اٹھ کھڑے ہوں گے اور پھر قیامت برپا ہو گی۔ ایسے کسی بھی وقت سے پہلے ہمیں چاہیے کہ اپنے گناہوں پر نادم ہوکر اللہ تعالیٰ سے سچے دل سے معافی مانگیں۔ پاکستان میں 2005ء میں آنے والا زلزلہ اتنا شدید تھا کہ ہزاروں لوگ لقمہ اجل بن گئے۔ اس کے بعد بھی زلزلے آتے رہے جن سے کثیر مالی اور جانی نقصان ہوا۔ 2013ء میں بھی پاکستان زلزلے کے جھٹکوں سے لرز اٹھا تھا۔ 2016ء میں چار ماہ میں چار بار زلزلہ آیا۔ 2018ء میں بھی ریکٹر سکیل چھ شدت کا زلزلہ آیا تھا۔ 2019ء میں آزاد کشمیر میں ایک زلزلہ آیا جس سے دیواروں اور سڑکوں میں شگاف پڑ گئے تھے۔ مارچ 2023ء میں جو زلزلہ آیا وہ میری زندگی کا سب سے شدید زلزلہ تھا۔ اس سے قبل میں نے عمارتیں ایسے ہلتے ہوئے نہیں دیکھی تھیں۔ میں نے خود بھی اس سے کافی خوف محسوس کیا اور بہت دن تک طبیعت بوجھل رہی۔ کسی بھی بڑے زلزلے کے بعد آفٹر شاکس آتے ہیں جن کی شدت اکثر چار‘ پانچ یا زائد بھی ہو سکتی ہے۔
ہم قدرتی آفات کو نہ تو روک سکتے ہیں اور نہ ہی ان کا مقابلہ کر سکتے ہیں لیکن ان سے ہونے والے نقصان کو کم ضرور کر سکتے ہیں۔ کچھ احتیاطی تدابیر اپنا کر ہم زلزلے میں خود کو محفوظ رکھ سکتے ہیں۔ زلزلے سے قبل ہی سب کو چاہیے کہ چند احتیاطی تدابیر اختیار کر لیں۔ گھر کے ایک حصے میں‘ جو داخلی دروازے سے قریب تر ہو‘ ایک بیگ میں فرسٹ ایڈ کٹ، پانی، کچھ نقدی، صابن اور خشک راشن رکھ لیں۔ اپنے پرس میں اپنا شناختی کارڈ، فون، اے ٹی ایم کارڈ اور ٹارچ رکھ لیں۔ اپنے فون میں ایمرجنسی کے آپشن میں زلزلے کے الرٹ کو آن کر لیں۔ کچھ ماہ قبل میرے فون نے مجھے زلزلہ آنے سے تقریباً ایک منٹ پہلے ہی زلزلے کے بارے میں وارننگ دیدی تھی۔ آپ سب بھی اس کو فون کی سٹینگ میں آن کر سکتے ہیں۔ ایسے علاقے جو فالٹ لائنز پر ہیں‘ وہاں بلند عمارتوں کی تعمیر پر پابندی ہونی چاہیے۔ زلزلے کے جھٹکے محسوس ہونے کی صورت میں فوری طور پر کھلی جگہ پر چلے جائیں۔ اگر ایسا کرنا ممکن نہ ہو تو اپنے سر کو کور کرکے کسی میز کے نیچے پناہ لے لیں۔ کبھی بھی زلزلے میں لفٹ استعمال نہ کریں، ہمیشہ سیڑھیوں اور ایمرجنسی ایگزٹ کا استعمال کریں۔ دورانِ زلزلہ فلائی اوور، انڈر پاس اور پل وغیرہ کراس کرنے سے پرہیز کریں۔ زلزلے پر سب کام چھوڑ دیں اور اس کے ختم ہونے تک انتظار کریں۔ اگر آپ سمندر کے قریب ہیں اور زلزلہ آجائے تو فوری طور پر کسی اونچی جگہ پر چلے جائیں تاکہ سونامی سے بچ سکیں۔ گھر میں تمام اشیا جیسے ٹی وی، فریج، الماریاں، فریم، تصاویر اور فانوس وغیرہ کو اچھی طرح دیوار کے ساتھ فکس کرائیں تاکہ دوران زلزلہ یہ گرنے سے بچ سکیں۔ زلزلے سے انسان ٹانگوں میں درد اور متلی کی سی کیفیت محسوس کرتا ہے۔ بہت دن تک خوف اور انزائٹی میں بھی مبتلا رہتا ہے۔ اگر یہ علامات زیادہ دن چلیں تو ڈاکٹر سے رجوع کریں۔ زلزلے کے دوران استغفار اور توبہ کرتے رہیں تاکہ زلزلہ اگر جان لیوا بھی ہو تو دنیا سے جاتے وقت ہمارے لبوں پر اللہ کا نام ہو۔ ابھی حکومت کے پاس وقت ہے کہ تمام اونچی عمارتوں کا سروے کرائے اور حفاظتی اقدامات یقینی بنائے۔ ہمارے ملک میں ریسکیو کا نظام صفر ہے، اس لیے زلزلے سے ہونے والے نقصانات کو اسی صورت میں کم کیا جا سکتا ہے اگر پہلے سے کچھ حفاظتی اقدامات کر رکھے ہوں۔
پاکستان ایک ایسے خطے میں واقع ہے جو موسمیاتی تبدیلیوں کی زد میں ہے۔ سیلاب‘ زلزلے‘ آندھی‘ طوفان گلیشیرز کا پگھلائو‘ غذائی قلت‘ شدید گرمی‘ شدید سردی اور خشک سالی مسلسل عوام کو نقصان پہنچا رہے ہیں۔ موسمیاتی تبدیلیاں انسانی سرگرمیوں اور زمینی و فضائی تبدیلیوں کے باعث جنم لیتی ہیں۔ کچھ کا اثرجلد نظر آ جاتا ہے اور کچھ کا دیر سے؛ تاہم پاکستان میں ان موسمیاتی تبدیلیوں کے تدارک کے حوالے سے کوئی خاص کام نہیں ہورہا‘ نہ ہی ان سے ہونے والے نقصانات کو کم کرنے پر کام ہو رہا ہے۔ ہم دعا ہی کر سکتے ہیں کہ یا اللہ! ہمارے ملک کو قدرتی آفات سے محفوظ رکھ، آمین!
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved