آج میں کہہ سکتا ہوں کہ چند روز پہلے دہشت گردوں کے بارے میں پاکستان کے اندرجو اختلاف رائے بلکہ انتہاپسندانہ اختلاف رائے دکھائی دے رہا تھا‘ حقائق کی دنیا میںجھٹکے کھانے کے بعد‘ اتفاق رائے کی صورت اختیار کرتا نظر آ رہا ہے۔ اے پی سی کی قرارداد سے ‘ اب تک دیکھتے ہی دیکھتے سب کچھ بدل چکا ہے۔ خصوصاً وزیراعظم نوازشریف اور تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان نے اپنے تازہ بیانات میں ‘ وہی قومی موقف اختیار کر لیا ہے‘ جوانتخابی مہم کے دوران کافی دھندلا گیا تھا اور یہ کہا جانے لگا تھا کہ دہشت گردوں کے خلاف پالیسی بنانے کے سوال پر پاکستانی قوم بری طرح تقسیم ہو چکی ہے۔ یہ تاثر کافی حد تک درست بھی تھا۔ نوازشریف اور عمران خان دونوں نے اپنی انتخابی مہم میں‘ دہشت گردوں کے لئے جن جذبات کا اظہار کیا‘ وہ عوام اور فوج کے جذبات کے سراسر خلاف تھا۔ دونوں نے طالبان سے مذاکرات کی بات کی۔ اے پی سی کی قرارداد میں انہیں ’’سٹیک ہولڈر‘‘قرار دیا گیا اور کچھ لوگ اتنے آگے بڑھے کہ دہشت گردوں کو اپنے ’’بچے‘‘ تک کہہ ڈالا۔ لیکن وقت نے اتنی تیزی سے حقائق کے چہرے بے نقاب کئے کہ اب یہ دونوں لیڈر وہی کچھ کہہ رہے ہیں‘ جو انتخابی مہم سے پہلے پاک فوج اور عوامی لیڈر کہہ رہے تھے۔ نوازشریف واضح اعلانات کر چکے ہیں کہ دہشت گردوں کو مذاکرات سے پہلے ہتھیار پھینکنا اورپاکستان کے آئین کو تسلیم کرنا پڑے گا۔کل کے’’ گارڈین‘‘ لندن میں عمران خان کا ایک خصوصی انٹرویوشائع ہوا۔ اس میں وہ بھی نوازشریف کی طرح قومی سوچ اور جذبات سے پوری طرح ہم آہنگ ہو گئے ہیں۔ جو دہشت گرد ہتھیار پھینک کے پاکستان کے آئین کو تسلیم کر لیتے ہیں‘ تو پھر واقعی وہ ہمارے بچے ہیں۔ عمران خان نے واضح طور سے کہہ دیا ہے کہ ’’انہیں ‘ پاکستان کے آئین کو تسلیم کرنا پڑے گا۔ وہ بہت عرصہ پہلے سے یہ دعوے کر رہے ہیں کہ پاکستانی نظام کو اسلامی قوانین کے تحت ازسرنو تشکیل دیں گے۔‘‘ گویا عمران خان‘ اکثریت کی اس رائے کی حمایت کرنے لگے ہیں‘ جس میں کہا جاتا ہے کہ پاکستان میں پہلے ہی شرعی نظام نافذ ہے اور جو اس میں تبدیلیاں کرنا چاہتا ہے‘ اسے پاکستانی آئین نے اجازت دے رکھی ہے کہ جمہوری روایات پر عمل کرتے ہوئے کوئی بھی‘ ایسا کر سکتا ہے۔ خان صاحب نے آخر کار عوام اور فوج کے اس مطالبے سے بھی اتفاق کر لیا کہ پاکستان کے اندر سرگرم تمام دہشت گردوں کوہتھیار پھینکنا پڑیں گے۔ کہیں کہیں خان صاحب نے اپنے دیرینہ خیالات بھی دہرائے۔ جیسے یہ کہ ’’مذاکرات کے دوران ‘ طالبان گروپوں کے ڈھیلے ڈھالے اتحاد میں دراڑیں پیدا ہو سکتی ہیں۔‘‘ یا پھر یہ کہ ’’پشاور چرچ پر حملہ ان طاقتوں کی کارستانی بھی ہو سکتا ہے‘ جو مذاکرات کو سبوتاژ کرنا چاہتی ہیں۔‘‘ انہوں نے انکشاف کیا کہ ’’حکومت نے مختلف بریفنگز میں یہ بتایا ہے کہ پاکستان میں دہشت گردی کے متعدد واقعات میں افغانستان کی حکومت بھی ملوث پائی گئی ہے۔‘‘ نوازشریف اور عمران خان کے موقف میں‘ عوامی خواہشات کے مطابق حقیقت پسندی کا رنگ نمایاں ہو جانے کے بعد‘ اب یہ شک و شبہ باقی نہیں رہنا چاہیے کہ دہشت گردی سے نبردآزما ہونے کے لئے پاکستانی قوم کے اندر اختلاف رائے پایا جاتا ہے۔ پیپلزپارٹی کی ہمیشہ سے یہ پالیسی رہی ہے کہ دہشت گردی کا مقابلہ کرنا پڑے گا۔ یہی بات الطاف حسین کہتے ہیں۔ یہی وہ سیاسی قوتیں ہیں‘ جنہیں عوام نے حالیہ انتخابات میں بھاری تعداد میں ووٹ دیئے۔ اے این پی خیبرپختونخوا میں بہت اثرورسوخ رکھتی ہے۔ یہ واحد سیاسی جماعت ہے‘ جس نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں سب سے زیادہ قربانیاں دی ہیں۔ حالیہ ضمنی انتخابات میں قومی اسمبلی کے انتہائی اہم حلقے میں کامیابی حاصل کر کے ثابت کیا ہے کہ اے این پی کی جڑیں آج بھی عوام کے اندر موجود ہیں۔ بلوچستان اور خیبرپختونخوا میں مولانا فضل الرحمن اچھا خاصا اثرورسوخ رکھتے ہیں۔ وہ اپنے فکری اور تہذیبی پس منظر کی بنا پر‘ دہشت گردوں کے اسلامی نعروں سے متاثر نظر آتے ہیں اور شاید ان کی طاقت سے بھی کسی حد تک مرعوب ہیں۔ وہ درمیانی راستے کی بات کرتے رہتے ہیں ۔ شاید وہ اس حقیقت کو نظرانداز کر رہے ہیں کہ ایک ہی تخت کے دو دعویداروں میں کبھی سمجھوتہ نہیں ہو سکتا۔ جمہوری نظام میں اقتداراعلیٰ کے دعویدار عوام ہوتے ہیں‘ جو اکثریت رائے سے فیصلہ کرتے ہیں کہ امور مملکت چلانے کا حقدار کون ہے؟ جبکہ دہشت گرد کسی نظام پر یقین نہیں رکھتے۔ وہ ایک خودساختہ اسلامی نظام پر یقین رکھتے ہیں۔ اس معاملے میں و ہ کسی دوسرے کی رائے تسلیم کرنا تو ایک طرف رہا‘ سننے کے بھی روادار نہیں۔ جس رجعت پسندانہ اور کم علمی پر مبنی تصور کو‘ وہ اسلام سمجھتے ہیں‘ اسے ظلم و جبر کے ذریعے نافذ کرنا اپنا فرض سمجھتے ہیں اور جو ان سے اختلاف کرتا ہے‘ وہ اسے بے رحمی سے قتل کرنے پر یقین رکھتے ہیں۔ ان کے تصوراسلام میں اپنے مقاصد حاصل کرنے کے لئے بے گناہوں‘ معصوموں اور معذوروں کو قتل کرنابھی جائز ہے۔ وہ مساجد میں‘ نمازیوں کو اور عبادت گاہوں میں‘ خالق کائنات کی بارگاہ میں حاضری دینے والوں کو بموں سے اڑانا جائز تصور کرتے ہیں اور جب بھی وہ بچوں‘ بوڑھوں‘ خواتین اور کمزوروں کو بموں سے اڑاتے ہیں‘ تو فخر کے ساتھ اس واردات کی ذمہ داری بھی قبول کرتے ہیں۔ آج کے دور میں وہ دنیاوی معاملات کو جس انداز میں دیکھتے ہیں‘ اس کا اندازہ ان کے حالیہ بیان سے کیا جا سکتا ہے‘ جو انہوں نے مذاکرات کے حوالے سے دیا۔ انہوں نے مطالبہ کیا کہ ’’حکومت پاکستان ڈرون حملے بند کرائے‘ ورنہ بات آگے نہیں بڑھ سکے گی۔‘‘ گویا وہ سنجیدگی سے یقین رکھتے ہیں کہ پاکستان اگر چاہے تو ڈرون حملے بند کرا سکتا ہے۔جس گروہ یا گروہوں کی سوچ یہ ہو‘ ان کے ساتھ کس بنیاد پر مذاکرات کئے جا سکتے ہیں؟ پاکستان اگر اس سلسلے میں اپنی مجبوریوں کا حوالہ دے گا‘ تو ہو سکتا ہے جواب میں کہا جائے کہ ’’اگر امریکہ نہیں مانتا‘ تو اس پر ایٹم بم گرا دو۔‘‘ ایسے دلائل کا جواب کیا ہو سکتا ہے؟ اس معاملے میں تو ہمارے عمران خان بھی‘ طالبان ہی کی طرح سوچتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ وہ بھی اس طرح بات کرتے ہیں‘ جیسے پاکستان ڈرون حملے بند کرانے کے لئے طاقت اور استدلال رکھتا ہے۔ وہ تو یہاں تک کہتے ہیں کہ اس معاملے کو یو این میں لے جانا چاہیے۔ وہاں لے جانے سے کیا ہو گا؟ خان صاحب نے شاید اس پر غور نہیں کیا۔ 9/11 کے بعد‘ عالمی سیاست میں خودمختار قوموں کے لئے ایک نیا ’’حق ‘‘ یہ تسلیم کیا گیا ہے کہ کسی ایک یا کئی ملکوں کی خودمختاری کو دہشت گردی کے ذریعے چیلنج کرنے والے‘ افراد یا گروہ‘ دنیا میں جہاں کہیں بھی موجود ہوں‘ وہاں کی حکومت کا فرض ہے کہ اپنے علاقے کو ان سے صاف کرے اور اگر عالمی دہشت گرد پھر بھی اسی ملک کے اندر موجود رہیں‘ تو دہشت گردوں کا ہدف بننے والا کوئی بھی ملک‘ ان کی کمیں گاہوں پر پہنچ کر‘ انہیں ختم کر سکتا ہے۔ اقوام متحدہ نے ‘ امریکہ اور اس کے اتحادیوں کو افغانستان پر فوج کشی کا اختیار‘ اسی حق کے تحت دیا تھا۔ پاکستانی علاقوں میں امریکہ کے ڈرون حملے‘ اسی حق کے تحت کئے جاتے ہیں۔ اگر ہم یہ مسئلہ یو این میں لے کر گئے‘ تو امریکہ کی طرف سے پہلا مطالبہ یہ آئے گا کہ پاکستان اپنی سرزمین کو القاعدہ اور اس کے اتحادی دہشت گردوں سے خالی کرا لے‘ تو ہم بھی عالمی قوانین کی پابندی کریں گے۔ لیکن جو دہشت گرد‘ ہمارے افراد اور اثاثوں کو تباہ کرنے کے لئے کسی بھی ملک میں چھپے ہوئے ہوں‘ تو ہمیں یہ حق حاصل ہے کہ خود آگے بڑھ کر‘ انہیں نشانہ بنائیں۔ پاکستان کو ثابت کرنا پڑے گا کہ ہماری سرزمین پرکوئی ایسا دہشت گرد نہیں‘ جو دوسرے ملکوں میں جا کر کارروائیاں کرتا ہو۔ کیا خان صاحب اور دہشت گرد‘ اقوام متحدہ کے کسی اجلاس میں کھڑے ہو کر‘ اپنا یہ دعویٰ ثابت کر سکیں گے؟ اور جواب میں جب چین‘ روس‘ امریکہ‘ سپین‘ جرمنی‘ برطانیہ‘ فرانس اور بھارت‘ سب بیک زبان ہو کر یہ بتائیں گے کہ پاکستان میں تربیت اور تیاریوں کی سہولتوں سے فیض یاب ہو کر‘ دہشت گردوں نے ان کے ملکوں کے اندر جا کر کارروائیاں کی ہیں‘ تو ہمارے پاس ان سب کا جواب کیا ہو گا؟بے شک ان سب کے پاس بھی شہادتیں موجود ہوں گی اور وہ عالمی رائے عامہ کو متاثر کرنے کی صلاحیت بھی رکھتے ہیں۔ امکان یہ ہے کہ پاکستان کی اپنی درخواست پر جب بحث ہو گی اور مخالفین اپنے موقف کے حق میں اکثریت کی حمایت حاصل کر لیں گے‘ تو ڈرون حملوں کو جائز قرار دیا جا سکتا ہے۔ ابھی تو امریکی‘ ڈرون حملوں کی ذمہ داری اشاروں کنایوں یا دبی زبان میں قبول کرتے ہیں‘ پھر وہ ڈنکے کی چوٹ پر حملے کیا کریں گے۔ دہشت گرد کہیں یہی تو نہیں چاہتے؟ ہو سکتا ہے وہ ایسا ہی چاہتے ہوں کہ ان کی آخری منزل پاکستان پر قبضہ کرنا ہے۔ لیکن ہمارے خان صاحب کس خیال میں ہیں؟ ---------------
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved