پاکستان میں ایک دفعہ پھر نئے آئینی تجربے کی باتیں ہو رہی ہیں حالانکہ موجودہ آئین قیامِ پاکستان کے بعد تین قسم کے آئینی تجربات سے گزر کر قومی اتفاقِ رائے کی بنیاد پر اپنایا گیا تھا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ موجودہ آئینی ڈھانچے کو تبدیل کرکے جن نئے ڈھانچوں کے قیام کی حمایت میں باتیں کی جا رہی ہیں ان تمام کا قوم کسی نہ کسی شکل میں پہلے ہی تجربہ کر چکی ہے اور اس کا خمیازہ بھی بھگت چکی ہے۔ مثلاً بات کی جا رہی ہے کہ ملک میں صوبوں کی جگہ انتظامی یونٹ بنانے چاہئیں۔ اس قسم کے تجربے یعنی وَن یونٹ سے قوم پہلے بھی گزر چکی ہے جسے چند برس بعد ختم کرنا پڑا اور پرانے صوبوں کو بحال کرنا پڑا کیونکہ یہ تبدیلی عوام کی مرضی سے نہیں بلکہ ایک فردِ واحد کی خواہش پر عمل میں لائی گئی تھی۔ ایوب خان نے اپنی کتاب ''فرینڈز ناٹ ماسٹر‘‘ میں لکھا ہے کہ کس طرح 1950ء کی دہائی میں جب وہ مرکزی کابینہ کے رکن تھے‘ امریکہ کے ایک دورے کے دوران روز ویلٹ ہوٹل کی گیلری میں چہل قدمی کرتے ہوئے ان کے ذہن میں خیال آیا کہ مغربی پاکستان کے صوبوں اور ریاستوں کو ضم کرکے ایک اکائی کی شکل دے کر نہ صرف قومی یکجہتی بلکہ پاکستان کے دفاع کا مسئلہ بھی حل کیا جا سکتا ہے۔ لیکن تاریخ بتاتی ہے کہ وَن یونٹ نے قومی یکجہتی کو فروغ دینے کے بجائے اس کو نقصان پہنچایا۔ ایوب خان کے خلاف عوامی تحریک میں تقریباً تمام سیاسی پارٹیوں کی حمایت سے جن مطالبات کو پیش کیا جا رہا تھا‘ ان میں وَن یونٹ کا خاتمہ اور مغربی پاکستان کے سابق صوبوں کی بحالی کا مطالبہ بھی شامل تھا۔ اس مطالبے کو منظور کرتے ہوئے صدر یحییٰ خان نے جولائی 1970ء میں وَن یونٹ ختم کر دیا اور پرانے صوبے بحال کر دیے۔
یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ پاکستان میں موجودہ آئین کے تحت پارلیمانی نظام ملک میں سیاسی استحکام نہیں لا سکا اور نہ ہی سماجی اور معاشی ترقی کے عمل کو آگے بڑھا سکا ہے‘ اس لیے صدارتی نظام کے حق میں اور پارلیمانی نظام کے خلاف ایک عرصہ سے مہم چلائی جا رہی ہے لیکن جب کبھی ملک میں غیرسیاسی اور غیرمنتخب حکومت قائم ہوتی ہے تو اس مہم میں تیزی آ جاتی ہے۔ ایک سابق بیوروکریٹ‘ جو پرویز مشرف کے بہت قریب تھے‘ اس مہم میں پیش پیش ہیں اور صدارتی نظام کی حمایت پر مبنی اپنے مؤقف کے حق میں قائداعظم کی ایک غیرمصدقہ چٹ کا بھی حوالہ دیتے ہیں‘ مگر اس ایشو پر پبلک ڈیبیٹ پر کوئی اعتراض نہیں ہونا چاہیے‘ نہ ہی صدارتی نظام کو غیرجمہوری کہا جا سکتا ہے بلکہ کئی ملکوں میں یہ کامیابی سے چل رہا ہے لیکن پارلیمانی نظام کو پاکستان کیلئے نقصان دہ قرار دے کر صدارتی نظام کو سود مند ٹھہرانے والے اصحاب کی خدمت میں چند سوالات پیش کیے جاتے ہیں۔ پہلا سوال یہ ہے کہ 1968-69ء میں صدر ایوب خان کے خلاف ملک کے دونوں حصوں کے عوام نے صدارتی نظام کی جگہ پارلیمانی نظام کی بحالی کا کیوں مطالبہ کیا تھا؟
بھارت میں بھی پارلیمانی نظام پر قومی اتفاقِ رائے پایا جاتا ہے۔ ابتدا میں بی جے پی نے صدارتی نظام کی حمایت کی تھی لیکن پھر اسے بھی اس پر سمجھوتہ کرنا پڑا اور گزشتہ 10سال کے دوران حکومت میں رہنے کے باوجود اسے موجودہ پارلیمانی نظام کو تبدیل کرنے کی جرأت نہیں ہوئی۔ شیخ مجیب الرحمن نے 1975ء میں اپنے قتل سے قبل بنگلہ دیش میں پارلیمانی کی جگہ صدارتی نظام نافذ کر دیا تھا جسے مجیب الرحمن کے بعد برسر اقتدار آنے والے جرنیلوں نے قائم رکھا‘ لیکن 1990ء میں جب سیاسی قوتوں نے تقویت حاصل کی تو جنرل حسین محمد ارشاد کی حکومت کے خلاف کامیاب تحریک کے بعد پارلیمانی نظام کو دوبارہ نافذ کر دیا گیا۔ یاد رہے کہ اس فیصلے میں شیخ مجیب الرحمن کی بیٹی حسینہ واجد اور جنرل ضیاالرحمن کی بیوہ بیگم خالدہ ضیا بھی شامل تھیں‘ حالانکہ سیاسی میدان میں وہ ایک دوسرے کی سخت مخالف تھیں۔
نیپال جس نے رانا خاندان کی موروثی آمریت کے خلاف جدوجہد کرکے 1952ء میں پارلیمانی جمہوریت کا آغاز کیا تھا‘ 1960ء میں شاہ مہندرا نے براہِ راست منتخب پارلیمنٹ کو تحلیل کرکے آمرانہ نظام قائم کر دیا تھا‘ مگر نیپال کے عوام ایک طویل جدوجہد کے بعد 1991ء میں دوبارہ پارلیمانی جمہوریت بحال کرنے میں کامیاب ہو گئے جس میں بادشاہ کے اختیارات برائے نام تھے۔ سری لنکا نے آزادی کے بعد اپنا سیاسی سفر پارلیمانی جمہوریت کے ساتھ شروع کیا تھا مگر 1978ء میں دائیں بازو کی یونائیٹڈ نیشنل پارٹی نے اسے صدارتی نظام میں تبدیل کر دیا تھا مگر چار دہائیوں سے اس نظام کے تحت ریاستی نظام چلانے کے بعد اب وہاں بھی ایگزیکٹیو پریزیڈنسی ختم اور پارلیمنٹ کے اختیارات میں اضافہ کرکے واپس پارلیمانی نظام کی طرف رجوع کیا جا رہا ہے۔ مالدیپ میں بھی آئے دن سیاسی بحرانوں کی بنیادی وجہ وہاں کا صدارتی نظام بتایا جاتا ہے۔
پاکستان میں پولیٹکل ری سٹرکچرنگ کے حوالے سے2010 ء میں منظور ہونیوالی 18ویں آئینی ترمیم اور نیشنل فنانس کمیشن کے ساتویں ایوارڈ (2009ء) کے تحت آمدنی کے محاصل کی صوبوں اور مرکز کے درمیان تقسیم کے فارمولے کو خاص طور پر اور تواتر کیساتھ نشانہ بنایا جاتا ہے۔ ایک سابق آرمی چیف اٹھارہویں آئینی ترمیم کو 1966 کے شیخ مجیب الرحمن کے چھ نکاتی فارمولے سے بھی زیادہ خطرناک قرار دے چکے ہیں۔ پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین تو اپنی تمام مشکلات کا سبب اٹھارہویں آئینی ترمیم کو ٹھہراتے تھے کیونکہ اس کے ذریعے بقول ان کے مرکز کو صوبوں کا دست نگر بنا دیا گیا تھا‘ خصوصاً وہ این ایف سی ایوارڈ‘ جس کے تحت کنسولیڈیٹڈ فنڈز میں سے 50فیصد سے زیادہ حصہ صوبوں کو منتقل کر دیا جاتا ہے‘ ان کی تنقید کا نشانہ تھا۔اٹھارہویں آئینی ترمیم کے دو حصے ہیں: اس کے تحت ضیاالحق اور مشرف کے ادوار میں بالترتیب آٹھویں اور سترہویں (17ویں) ترمیم کے ذریعے وزیراعظم (پارلیمنٹ) کے جن اختیارات کو صدر کے ہاتھ میں دے دیا گیا‘ انہیں واپس پارلیمنٹ ٹرانسفر کرکے 1973ء کے آئین کو اس کی اصل شکل (پارلیمانی) میں بحال کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ دوسرے اس کے ذریعے صوبائی خود مختاری کے دائرے کو وسیع کیا گیا ہے۔ بہت سے محکمے اور ادارے صوبوں کو منتقل کیے گئے ہیں اور صوبوں کی ذمہ داری میں اضافے کے پیش نظر مرکزی فنڈز میں ان کے حصوں کو بڑھا دیا گیا ہے۔
اگرچہ 12سال گزر جانے کے بعد بھی 18ویں آئینی ترمیم پر پوری طرح عمل نہیں ہوا مگر پاکستان کے وہ حلقے جو روایتی طور پر مضبوط مرکز کے حامی رہے ہیں‘ 18ویں آئینی ترمیم کے خلاف مہم چلانے میں مصروف ہیں۔ ان کی دلیل ہے کہ اٹھارہویں آئینی ترمیم پر عملدرآمد سے مرکز صوبوں کا محتاج ہو کر رہ گیا ہے اور اہم اخراجات اور قرضوں کی ادائیگی کے بعد اس کے پاس کچھ نہیں بچتا‘ اس لیے وہ 18ویں آئینی ترمیم کے رول بیک اور این ایف سی ایوارڈ کے فارمولے پر نظر ثانی کا مطالبہ کر رہے ہیں‘ مگر چھوٹے صوبوں میں اس مطالبے کی سخت مخالفت پائی جاتی ہے اور اگر یکطرفہ طور پر کسی اقدام کے ذریعے اٹھارہویں آئینی ترمیم کو چھیڑا گیا تو چھوٹے صوبوں سے سخت ردِعمل آئے گا کیونکہ اٹھارہویں آئینی ترمیم‘ جس کے تحت صوبائی خود مختاری کی حدود کو وسیع اور صوبوں کو مالی طور پر مستحکم کیا گیا ہے‘ ایک طویل جدوجہد کا نتیجہ ہے‘ جس میں پاکستان کی سیاسی پارٹیوں نے مل کر حصہ لیا ہے۔ صوبائی خود مختاری پاکستان کا سب سے اہم مسئلہ رہا ہے۔ اسے حل کرنے میں ناکامی نے مشرقی پاکستان کی علیحدگی کی راہ ہموار کی۔ اس سے پہلے اسی مسئلے پر کانگرس کی ضد نے ہندوستان کی تقسیم کو ناگزیر بنا دیا تھا۔ اس لیے اس مسئلے سے چھیڑ چھاڑ کرنے سے احتراز کیا جائے کیونکہ یہ ایک حساس مسئلہ ہے۔ اگر اس میں کسی ایڈجسٹمنٹ کی ضرورت محسوس ہو رہی ہو تو سیاسی جماعتوں کے درمیان اتفاقِ رائے پیدا کیا جائے اور یہ کوئی مشکل بات نہیں۔ ماضی میں پاکستانی سیاستدانوں اور سیاسی جماعتوں نے متعدد مواقع پر اتفاقِ رائے کے ذریعے پیچیدہ ترین مسائل کو بھی حل کیا ہے۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved