(9) چیف جسٹس نے پٹیشن دائر کرنے والوں کے وکلا سے کہا: ''اس میں عوام کا مفاد کیا ہے اور آپ کے کس بنیادی حق کو سلب کیا گیا ہے، اس کا کوئی معقول جواب اُن کے پاس نہیں تھا، بلکہ ایک وکیل نے کہا: ''قانون تو اچھا ہے، مگر یہ قانون پارلیمنٹ کو نہیں بلکہ سپریم کورٹ کو بنانا چاہیے‘‘۔ تو سوال یہ ہے: ''کیا پارلیمنٹ پر کوئی اچھا قانون بنانے کی پابندی عائد ہے؟‘‘، اس پر جسٹس جمال مندوخیل نے کہا: ''تین ججوں کا بنچ بنانا عدلیہ کی آزادی کے خلاف ہے، تو سترہ ججوں کا اختیار ایک جج کو دینا کیسے درست ہے؟‘‘۔ جسٹس اطہر من اللہ نے پوچھا: ''چیف جسٹس پاکستان کے اختیارات کو ریگولیٹ کرنا بنیادی حقوق کی خلاف ورزی کیسے ہے‘‘۔ ایک وکیل نے کہا: '' عدلیہ کو خود اپنے اختیارات کو ریگولیٹ کرنا چاہیے تھا‘‘۔ جسٹس منصور علی شاہ نے کہا: ''سپریم کورٹ نے اپنے ''رولز اینڈ ریگولیشنز‘‘ یعنی قواعد و ضوابط 1980ء میں بنائے، ہمیں بہت پہلے ان پر نظرِ ثانی کر کے ان کو بہتر بنانا چاہیے تھا، جو کام ہم تینتالیس سال میں نہ کرسکے، وہ اگر پارلیمنٹ نے کر دیا ہے تو اس میں خرابی کیا ہے‘‘۔ پس معلوم ہوا: ''درخواست دہندگان کے وکلا کے پاس کسی سوال کا آئین و قانون کے حوالے سے کوئی قابلِ قبول جواب نہیں تھا۔ چنانچہ چیف جسٹس نے یہ بھی کہا: ''سپریم کورٹ کے بنائے گئے قواعد و ضوابط ہماری رہنمائی کے لیے ہیں، یعنی یہ پارلیمنٹ پر حاکم نہیں ہیں‘‘۔
(10) چیف جسٹس نے کہا: ''ایکٹ آف پارلیمنٹ اور قانون ایک ہیں یا نہیں، اس سوال کی اہمیت کیا ہے، انہوں نے اٹارنی جنرل سے کہا: آپ نے دلائل درخواست کے ناقابلِ سماعت ہونے پر شروع کیے تھے، وہ مکمل کریں، آپ نے درخواست گزاروں کے وکلا پر بات شروع کر دی ہے، ہر قانون قابلِ عمل ہے تاوقتیکہ اُسے غلط ثابت نہ کر دیا جائے اور یہ ذمہ داری اُن پر ہے جو قانون کو چیلنج کر رہے ہیں، ہمارے پاس ہائیکورٹ سے بھی کم اختیارات ہیں۔ پاکستان میں کئی چیزیں خلافِ آئین ہو رہی ہیں، مگر وہ آئین کے آرٹیکل 184/3 کے دائرۂ کار میں نہیں آتیں۔ بعض حضرات نے ایکٹ (قانون) اور رولز اینڈ ریگولیشن (قواعد وضوابط) کا سوال اٹھایا، ان کا مقصد یہ تاثر دینا تھا کہ قواعد و ضوابط ایکٹ آف پارلیمنٹ کے ہم مرتبہ ہیں۔
(11) قانون کے ایک طالبعلم کی حیثیت سے ہماری نظر میں یہ رائے درست نہیں ہے، ایکٹ اپنی اصل ساخت کے اعتبار سے قانون ہے اور اُسے پارلیمنٹ یعنی قانون سازی کے مُجاز ادارے نے بنایا ہے، جبکہ رولز اینڈ ریگولیشن آئین وقانون کے اندر رہتے ہوئے ''ایگزیکٹو اختیارات‘‘ سے بنتے ہیں، ایگزیکٹو جو ضابطہ بناتی ہے، وہ اُسے واپس بھی لے سکتی ہے، بدل بھی سکتی ہے، لیکن ایکٹ آف پارلیمنٹ کو منسوخ کرنے یا اُس میں ترمیم کرنے کے لیے باقاعدہ قانون سازی کے عمل سے گزرنا پڑتا ہے، حتیٰ کہ اگر قانون سے کوئی لفظ حذف کرنا ہو یا اضافہ کرنا ہو یا کاما یا فل سٹاپ ڈالنا ہو تو بھی ایسا قانون سازی کے باقاعدہ طریقے سے ہی ہو سکتا ہے، یہ نہیں کہ قومی اسمبلی کا سپیکر یا سیکرٹری یا متعلقہ محکموں کا سیکرٹری ازخود ایسا کر لے ۔
(12) جسٹس منیب اختر نے سوال کیا: ''بنچ کی تشکیل سے متعلق کمیٹی بنانے کا قانون کیا جوڈیشل پاور دے رہا ہے یا انتظامی پاور، کیا پارلیمان انتظامی اختیارات سے متعلق قانون بنا سکتی ہے، پارلیمان نئے انتظامی اختیارات دے کر سپریم کورٹ کی جوڈیشل پاور کو پسِ پشت ڈال سکتی ہے‘‘، ہمیں اس سوال پر حیرت ہے: پارلیمنٹ جب آئین بنا سکتی ہے، جس کے تحت سپریم کورٹ کا ادارہ قائم ہے، آئین میں حذف و اضافہ کر سکتی ہے، جج صاحبان کی تعداد کم یا زیادہ کر سکتی ہے، ان کے مشاہروں اور مراعات کا تعیّن کر سکتی ہے، تو قانون سازی کے طریقۂ کار کے مطابق ایسا کیوں نہیں کر سکتی۔
انسان ایک گہرا سمندر ہے، اس کی شخصیت، ذہنی سوچ اور بدلتے ہوئے خیالات کا احاطہ اُس کے خالق کے سوا کوئی نہیں کر سکتا۔ انسان صرف اپنی معلومات، مشاہدات اور تجربات کے حوالے سے کسی کے بارے میں رائے قائم کر سکتا ہے، جو کُلّی یا جزوی طور پر درست بھی ثابت ہو سکتی ہے اور غلط بھی۔ قطعی علم اللہ تعالیٰ کے پاس ہے۔ پس جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا ظاہری تاثّر یقینا اچھا ہے۔ جو ان کے پیشرو جج صاحبان کے بعض متنازع فیصلوں کے ستم رسیدہ تھے، وقتی طور پر انہیں ہوائیں ٹھنڈی محسوس ہو رہی ہیں، سکون کا سانس لے رہے ہیں، لیکن جب رفتہ رفتہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی شخصیت کے پرت کھلیں گے تو حقیقت آشکار ہو گی۔ سرِ دست علامہ اقبال کے اس شعر پر گزارا کیجیے:
دیکھیے اس بحر کی تہ سے اُچھلتا ہے کیا
گُنبدِ نیلوفری رنگ بدلتا ہے کیا!
چنانچہ ہم نے ''جسٹس قاضی فائز عیسیٰ! ہوشیار باش!‘‘ کے نام سے ایک ٹویٹ کیا تھا، جو حسبِ ذیل ہے: (13) ''بہت سے یوٹیوبر اور میڈیا پرسنز ایک عرصے سے ماحول بنائے بیٹھے ہیں کہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ آئین پسند ہیں، اُصول پسند ہیں، وغیرہ، گویا سب کو نشانِ عبرت بنا دیں گے، انہیں معلوم ہے: پرویز مشرف کے بعد کے جسٹس ناصر الملک، جسٹس تصدق حسین جیلانی اور جسٹس انور ظہیر جمالی کے سوا ان کے سارے پیشرو آج اس شعر کی تصویر ہیں:
بیا جاناں! تماشا کن کہ در انبوہِ جاں بازاں
بصد سامانِ رسوائی، سرِ بازار می رقصم
مفہومی ترجمہ: ''اے محبوب! آئو! تماشا کرو کہ جانبازوں کے ہجوم میں تمام تر رسوائیوں کے اسباب کے ساتھ سرِ بازار رقص کر رہا ہوں‘‘۔
اُن کے پیشروئوں نے ایک انتہائی پوزیشن اختیار کر رکھی تھی، اِس کے سبب وہ خود بھی بے آبرو ہوئے، انصاف کا پلڑا بھی واضح طور پر ایک جانب جھکا ہوا نظر آیا اور ملک بھی بحرانوں کا شکار رہا۔ عدلیہ کاکام توازن قائم کرنا ہے، مگر یہ ادارہ خود ہی غیر متوازن ہو گیا۔ آج ہمارے نظامِ عدل کو توازن کی ضرورت ہے تاکہ ملک کی نیّا جو کئی برسوں سے طلاطم خیز موجوں میں ہچکولے کھا رہی ہے، اس میں ٹھیرائو آئے، ملک سے غیر یقینی کیفیت کا خاتمہ ہو، پُرسکون ماحول میں آئندہ قومی انتخابات منعقد بھی ہوں اور معتبر بھی قرار پائیں۔ الغرض گزشتہ ڈیڑھ عشرے سے ہماری عدلیہ کو صرف ٹیلی وژن چینلوں پر ٹِکر چلانے کا شوق رہا، اگر جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اس پر پابندی لگا دیں تو شاید عدلیہ کا تاثّر بہتر ہو، صرف فیصلوں پر تبصرے کی اجازت ہونی چاہیے‘‘۔
فقہِ اسلامی میں قاضی کے لیے جو اصول وضع کیے گئے ہیں، وہ یہ ہیں: (الف) قاضی کا فیصلہ عصبیت اور قرابت داری کی بنا پر نہیں ہونا چاہیے، قرابت سے صرف رشتے داری مراد نہیں ہے، قُربت کی اور بھی بہت سی صورتیں ہوتی ہیں، الغرض صرف اور صرف حقانیت کے معیار پر فیصلہ ہونا چاہیے۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے: ''اے ایمان والو! عدل پر مضبوطی سے قائم رہنے والے اور اللہ کے لیے گواہی دینے والے بن جائو، خواہ یہ گواہی تمہاری ذات یا تمہارے ماں باپ اور رشتے داروں کے خلاف ہو، (فریقِ معاملہ) خواہ امیر ہو یا غریب، اللہ تم سے زیادہ اُن کا خیر خواہ ہے، پس تم خواہش کی پیروی کر کے عدل سے روگردانی نہ کرو اور اگر تم نے گواہی میں ہیر پھیر کیا یا پہلو تہی اختیار کی تو اللہ تمہارے سب کاموں سے خوب باخبر ہے‘‘ (النسآء: 135)۔
جسٹس بندیال نے ''آڈیو لیکس جوڈیشل کمیشن‘‘ کو معطل کرنے کے لیے اس آیت کا حوالہ دیا، ہم نے اُسی وقت متوجہ کیا تھا: یہ اللہ تعالیٰ کے فرمان کی غلط تعبیر ہے، اس فرمان کا واضح مقصد یہ ہے کہ حق کا فیصلہ تمہارے ماں باپ اور رشتے داروں کے خلاف بھی آئے تو اس میں تردّد نہ کرو، جبکہ جسٹس بندیال نے اس کمیشن کو معطل کر کے اہلِ خانہ کو تحفظ دیا، کیونکہ اُن کی مبینہ آڈیو لیک بھی ریکارڈ پر آگئی تھی۔
(ب) کبھی حاکمِ یا قاضی کی ذاتی نفرت یا عداوت عدل کی راہ میں رکاوٹ بن جاتی ہے، اس پر متنبہ کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ''اے ایمان والو! اللہ کے لیے (حق پر) مضبوطی سے قائم رہنے والے ہو جائو درآں حالیکہ تم انصاف کے ساتھ گواہی دینے والے ہو اور کسی قوم کی عداوت تمہیں ناانصافی پر نہ ابھارے، (ہرصورت میں) عدل کرو، یہ (شِعارِ عدل) تقویٰ کے زیادہ قریب ہے اور اللہ سے ڈرتے رہو، بے شک اللہ تمہارے کاموں کی بہت خبر رکھنے والا ہے‘‘ (المائدہ: 8)۔ حدیثِ پاک میں ہے: ''تم میں سے کوئی بھی شخص غصے کی حالت میں دو آدمیوں کے درمیان فیصلہ نہ کرے‘‘ (مسلم: 1717)۔
(ج) عدل کے لیے شہادت ناگزیر ہے اور قاضی محض اپنے علم کی بنیاد پر فیصلے صادر نہیں کرتا بلکہ عدالتی فیصلے اعترافِ جرم یا شہادتوں پر مبنی ہوتے ہیں اور اللہ تعالیٰ نے اس کا اہتمام فرمایا ہے، ارشاد ہوا: ''جب (اُس کے ہر قول و فعل کو) دو فرشتے حاصل کر لیتے ہیں، جو اُس کے دائیں اور بائیں جانب بیٹھے ہوئے ہیں، وہ جو بات بھی کہتا ہے (اُس کو لکھنے کے لیے) اُس کا محافظ (فرشتہ) تیار رہتا ہے‘‘ (ق: 17 تا 18)۔
(د) منصب عدالت پر فائز حاکم پر ہمیشہ خشیتِ الٰہی طاری رہنی چاہیے کہ ذرا سی غفلت سے کسی کا حق تلف ہو سکتا ہے یا کسی کو استحقاق کے بغیر کچھ مل سکتا ہے، نبی کریمﷺ نے فرمایا: '' تم میرے پاس اپنے مقدمات لے کر آتے ہو، ہو سکتا ہے تم میں سے کوئی فریق اپنا موقف پیش کرنے میں زیادہ حجت باز ہو اور میں (دلائل سن کر) اُس کے بھائی کے حق میں سے کوئی چیز اُسے دے دوں، تو (وہ یوں سمجھے کہ) میں اسے آگ کا ٹکڑا کاٹ کر دے رہا ہوں، سو وہ اسے (ہرگز) نہ لے‘‘ (بخاری: 2680)۔ رسول اللہﷺ کو تو اللہ تعالیٰ اشیا اور معاملات کی حقیقت پر مطلع فرما دیتا تھا، لیکن عام قاضی اور حاکم کا تو یہ مقام نہیں ہے۔ اس حدیث پاک سے معلوم ہوا کہ عدالتی فیصلہ قانون کی طاقت سے نافذ تو ہو جاتا ہے، لیکن عند اللہ اس سے حقائق نہیں بدلتے اور آخرت میں اللہ تعالیٰ کی عدالت میں حقائق کی بنیاد پر فیصلہ ہو گا۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: ''(اے رسول!) بے شک ہم نے آپ کی طرف حق پر مبنی کتاب نازل کی ہے تاکہ آپ لوگوں کے درمیان اُس قانون کے مطابق فیصلہ کریں جو اللہ نے آپ کو دکھایا ہے اور آپ خیانت کرنے والوں کے وکیل (دفاع کرنے والے) نہ بنیں‘‘ (النساء: 105)۔ لہٰذا عنداللہ قاضی پر لازم ہے کہ حق اور حقائق پر مبنی فیصلہ کرے اور کسی فریق کی رعایت نہ کرے، خواہ وہ کتنا ہی با اختیار و بارسوخ ہو۔
نوٹ: یہ کالم میں نے 26 ستمبرکو امریکہ روانگی سے پہلے لکھا، سپریم کورٹ میں اگلی سماعت 3 اکتوبر کو تھی، اس میں پیش رفت کے حوالے سے اگر ضرورت محسوس ہوئی تو اس پر واپس آ کر لکھوں گا۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved