محمد علی کو خود بھی علم نہیں تھا کہ ہائی لیول پر ایک ایجنسی کے ذریعے ان کی باقاعدہ انکوائری ہورہی تھی اور ایک سرونگ کرنل کو یہ ڈیوٹی دی گئی تھی کہ وہ اس معاملے کو دیکھے کہ واقعی کینیڈا سے آئے انرجی ماہر نے آتے ہی ایک پاور پلانٹ کے مالک سے فارم ہاؤس رشوت میں لے لیا تاکہ اس کے بدلے لاہور سے تعلق رکھنے والے اس پاور پلانٹ مالک نے جو لمبا مال کمایا اس کا ذکر اس رپورٹ میں نہ آئے۔یہ بات ان لوگوں کیلئے صدمے کا باعث تھی جو اُنہیں لائے تھے کہ اگر اس ایکسپرٹ کو پاکستان لینڈ کرتے ہی پاور ٹائیکونز نے خرید لیا تو پھر اس پوری مشق کا کیا فائدہ۔
کراچی کے جس بزنس مین نے جنرل باجوہ کو محمد علی کا نام دے کر کینیڈا سے بلوایا تھا وہی اب ان کا دشمن بن گیا تھا۔ جب اسے محسوس ہوا کہ محمد علی وہ کھیل کھیلنے کو تیار نہیں تو اس نے شکایت لگائی کہ اس بندے نے تو خود کو اتنا سستا بیچ دیا ہے‘ ہم یہاں کھربوں کی لٹ مار کی بات کررہے ہیں اور اگلا بندہ چند کروڑ کا فارم لے کر فارغ ہوگیا ہے۔جنرل باجوہ کے لیے بھی یہ حیران کن بات تھی کہ جس بندے نے اس لیول پر انکوائری کرنی تھی اگر اس کا یہ حال ہے تو پھر بندہ کس پر اعتبار کرے۔ بہرحال اس شک کو جو اُن کے ذہن میں ڈال دیا گیا تھا‘ چیک کرنے کے لیے جنرل باجوہ نے سپریم ایجنسی کو ٹاسک دیا کہ پوری انکوائری کر کے رپورٹ پیش کی جائے کہ ان الزامات میں کتنی صداقت ہے کہ محمد علی نے لاہور کے پاور پلانٹ مالک سے فارم ہاؤس لیا ہے۔یوں ایک انوکھا کام ہورہا تھا۔ ایک طرف محمد علی اور ان کی ٹیم پوری تندہی سے دن رات پاور سیکٹر میں ہونے والی بدعنوانیوں اور کرپشن کا ریکارڈ تلاش کر کے ان کا ڈیٹا تیار کررہی تھی کہ کس کس پلانٹ مالک نے کیسے سیاستدانوں، حکمرانوں اور بیوروکریٹس کے ساتھ مل کر لمبا ہاتھ مارا ‘تو دوسری طرف جو بندہ ان کی انکوائری کررہا تھا وہ خود اپنی انکوائری بھگت رہا تھا کہ اس نے کیسے ایک فارم ہاؤس پاکستان میں خرید لیا۔اس انکوائری افسر نے جب کام شروع کیا تو اسے حیرانی ہوئی کہ اتنا بڑا الزام اس بندے پر کیسے لگ گیا۔ جب اس فارم ہاؤس کا ریکارڈ چیک کرایا گیا تو پتہ چلا کہ یہ سب ایک سازش تھی جو محمد علی کے خلاف لانچ کی گئی تھی۔ سب ریکارڈ درست تھا‘ادائیگیاں محمد علی نے اپنے بینک اکاؤنٹس سے کی تھیں اور اس پیسے سے کی گئی تھیں جو وہ کینیڈا سے لائے تھے۔ انکوائری میں پتہ چلا کہ محمد علی نے لیگل طریقے سے فارم ہاؤس خریدا ہے۔ سب الزامات غلط تھے اور انہیں دبائو میں لانے کے لیے یہ کیاگیا تھا۔
یہ رپورٹ جنرل باجوہ تک پہنچی کہ سب ٹھیک ہے۔ اب ایک اور دلچسپ کام ہوا۔ جب لاہور کے پاور پلانٹ مالک کے اکاؤنٹس اور دیگر چیزیں چیک ہونا شروع ہوئیں تو وہ بھی دبائو کا شکار ہوئے۔ اس پاورفل بینکر اور پاور پلانٹ مالک کو محمد علی کے کراچی کے اس بزنس مین سے پرانے مراسم کا علم تھا۔ اُسے یہ بھی علم تھا کہ کراچی کے اس بزنس مین نے ہی محمد علی کا نام جنرل باجوہ کو دیا تھا جس کے بعد اسے عمران خان کو ریفر کر کے کمیٹی بنوائی گئی۔اب جب کمیٹی نے پاور پلانٹس کی انکوائریاں شروع کیں تو لاہور کے بزنس مین کا شک کراچی کے اپنے مخالف بزنس مین پر گیا کہ اس نے جنرل باجوہ سے اپنے تعلقات کا فائدہ اٹھا کر اپنے ہی ایک قابلِ بھروسا بندے کو اس کمیٹی کا چیئرمین صرف اس لیے لگوایا تاکہ وہ اس کی مدد سے اس کے پاور پلانٹس میں ہونے والی بدعنوانیوں کو ہائی لائٹ کر سکے‘ لہٰذا اس نے بھی محمد علی بارے کہنا شروع کر دیا کہ اسے دراصل کراچی کے بزنس مین نے رشوت دی تھی کہ وہ اس کے پلانٹ کے خلاف اپنی رپورٹ میں دبا کر لکھے اور اسے کسی طرح پھنسوائے۔ لاہور کے اس بزنس مین کو اندازہ نہ تھا کہ محمد علی پہلے ہی کراچی کے بزنس مین کو انکار کر چکا ہے کہ وہ کسی کے کہنے پر اس کے مخالفوں کو اس رپورٹ میں فکس نہیں کرے گا جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ نہ صرف ان کے پرانے مراسم خراب ہوئے بلکہ الٹا وہ بندہ اتنا دشمن ہوگیا کہ اب وہ اس کی انکوائری کروا رہا ہے۔
لاہور کے اس پاور پلانٹ مالک کم بزنس مین کو پہلے سے بہت الزامات کا سامنا تھا۔ نیب کا ادارہ انہیں سمن کر چکا تھا۔ ان پر الزام تھا کہ انہوں نے لندن میں ایک سو ملین ڈالرز کا ایک ہوٹل خریدا۔ نیب ان سے پوچھنا چاہ رہا تھا کہ یہ ہوٹل کن پیسوں سے خریدا گیا اور کیسے یہ رقم پاکستان سے باہر بھیجی گئی۔ الزام یہ لگ رہا تھا کہ یہ پیسہ منی لانڈرنگ کے ذریعے بھیجا گیا کیونکہ بینکنگ چینلز کے ذریعے بھیجنے کا کوئی ریکارڈ موجود نہیں تھا۔ اس کا مطلب بڑا واضح تھا کہ غیرقانونی طریقوں سے پیسہ باہر بھیجا گیا تھا۔سوال یہ تھا کہ اس بزنس مین کے پاس ایک سو ملین ڈالرز کہاں سے آئے جو باہر بھیجے گئے ؟اس دوران سینیٹ کی پاور پر بنائی گئی قائمہ کمیٹی میں ایک دن انکشاف ہوا کہ لاہور کے اس بزنس مین‘ پلانٹ مالک کے خلاف بھی کچھ ایسے انکشافات ہورہے تھے جنہوں نے کمیٹی ممبران کو چونکا دیا تھا۔ اس اجلاس میں ہی بتایا گیا کہ پاور پلانٹ مالک کو دوسروں کی نسبت زیادہ ریٹ آف ریٹرن یا ٹیرف دیا گیا جس سے انہوں نے تقریبا ًآٹھ ارب روپے زیادہ بل وصول کیا۔ اس بات کا اعتراف وزارت کے آفیشل کررہے تھے کہ اس سیاسی طور پر اثرورسوخ رکھنے والے بینکر نے پلانٹ لگاتے وقت نیپرا سے جو ٹیرف لیا وہ دوسروں سے ڈبل تھا۔ اگر دوسرے پلانٹ سو ڈالرز کما رہے تھے تو لاہور کا یہ بزنس مین دو سو ڈالرز کما رہا تھا۔ اس بات نے دوسرے پاور پلانٹس مالکان کو بھی ڈسٹرب کیا کہ اس میں ایسی کیا بات تھی کہ اسے بجلی کا ریٹ ان سے سو گنا زیادہ دیا گیا جس پر وہ اربوں کما رہا ہے۔ اب نیب کہہ رہا تھا کہ ان کے پاس جو ریکارڈ ہے اس سے تو پتہ چل رہا ہے کہ زیادہ ٹیرف لینے کی وجہ سے وہ اب تک آٹھ ارب روپے زیادہ لے چکا ہے۔ وہ آٹھ ارب یقینی طور پر عوام کے بلوں میں بجلی کی قیمت بڑھا کر وصول کیے جارہے تھے۔ دوسری طرف وہی بزنس مین پاکستانی عوام کو مہنگی بجلی بیچ کر اربوں روپے اضافی کما کر منی لانڈرنگ کے ذریعے پیسہ لندن بھیج کر وہاں ہوٹل خرید رہا تھا۔ ڈالرز پاکستان سے غائب ہو کر لندن پہنچ رہے تھے اور یہاں عوام کے لیے روزانہ فی یونٹ بجلی مہنگی ہورہی تھی اور ہر دفعہ بجلی مہنگی کرتے وقت عوام کو گولی دی جاتی کہ یہ آئی ایم ایف کی شرط ہے۔ سوال یہ ہے کہ آئی ایم ایف معاہدے سے پہلے بھی فی یونٹ بجلی مسلسل مہنگی کی جارہی تھی لیکن مسئلہ وہی تھا کہ جن لاڈلے پاور پلانٹس مالکان کو مہنگے ریٹس دیے گئے وہ ڈالرز اور فیول کے نام پر بڑی بڑی دیہاڑیاں لگا رہے تھے۔ سینیٹ کمیٹی میں کچھ دن پہلے ہی نیپرا حکام نے انکشاف کیا کہ ڈالر کے مقابلے میں ایک روپیہ گرتا ہے تو بجلی کے بلوں میں 18 ارب روپے کا اضافہ ہو جاتا ہے اور پچھلے ایک سال میں ڈالر کی قیمت ایک سو روپے بڑھ گئی جس سے 1800 ارب روپے کا اضافی بل عوام کو بھیجا گیا۔ان حالات میں لاہور کے پاور پلانٹ مالک سے پوچھا جارہا تھا کہ انہوں نے لندن میں ایک سو ملین ڈالرز کا ہوٹل کیسے خریدا اور ڈالرز پاکستان سے باہر کیسے بھیجے گئے ؟ نیب نے اس ٹائیکون کو سمن کیا تو اس نے جانے سے ہی انکار کر دیا۔(جاری)
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved