پاکستان میں دہشت گردی ‘ ڈالر ‘ منشیات اور افغان ٹرانزٹ ٹریڈ کی آڑ میں اشیائے خور و نوش کی سمگلنگ میں غیر ملکی شہریوں کے ملوث ہونے کی تصدیق کے بعد اعلیٰ سطحی اجلاس میں غیر قانونی طور پر مقیم تارکین ِوطن کی ملک سے بے دخلی کا فیصلہ ہوا ہے۔ یہ فیصلہ اگرچہ کسی خاص ملک سے متعلق نہیں ہے تاہم غیر ملکیوں میں افغان شہریوں کی اکثریت ہونے کی وجہ سے یہ تاثر قائم ہوا کہ شاید افغان شہریوں کو ملک سے بے دخل کیا جا رہا ہے۔ افغان شہریوں کی اپنے وطن واپسی کا مطالبہ اگرچہ وقتاً فوقتاً سامنے آتا رہا ہے تاہم ماضی میں ایسا اقدام نہیں کیا جا سکا جو اَب کیا گیا ہے۔ غیر قانونی تارکین وطن کو 31 اکتوبر تک کی مہلت دی گئی ہے ‘ اس دوران وہ رضا کارانہ طور پر واپس چلے جائیں‘ ڈیڈ لائن گزرنے کے بعد یکم نومبر کو غیر قانونی طور پر مقیم تارکین وطن کو ڈی پورٹ کر دیا جائے گا۔ وزارتِ داخلہ حکام کے مطابق پاکستان میں مقیم تارکینِ وطن میں سب سے زیادہ افغان شہری ہیں جن کی تعداد تقریباً 44 لاکھ ہے‘ ان میں سے 14 لاکھ کے پاس رجسٹریشن کا ثبوت موجود ہے‘ ساڑھے آٹھ لاکھ افراد کے پاس افغان سٹیزن کارڈ ہے‘ جبکہ 17 لاکھ غیر رجسٹرڈ شدہ افغان شہری غیر قانونی طور پر مقیم ہیں۔ سوال یہ ہے کہ یہ افغان شہری پچھلی تین سے چار دہائیوں سے پاکستان میں مقیم ہیں تو پھر اچانک انہیں ملک سے بے دخل کرنے کا خیال کیوں آیا؟ نگران وزیر داخلہ کے مطابق جنوری سے لے کر اب تک 24 خودکش حملے ہوئے ہیں‘ جن میں سے 14 حملوں میں افغان شہری ملوث تھے۔ اسی طرح آئی جی خیبرپختونخوا اختر حیات خان کے مطابق صوبے کے مختلف اضلاع میں ہونے والے خودکش دھماکوں میں75 فیصد خودکش حملہ آوروں کا تعلق افغانستان سے تھا۔ علی مسجد‘ باڑہ‘ ہنگو‘ باجوڑ اور پشاور پولیس لائنز کے خودکش حملہ آور بھی افغان شہری تھے۔ بات پاکستان تک محدود نہیں‘ بلکہ کئی ایسے واقعات بھی سامنے آئے ہیں کہ سرکاری اداروں کے اہلکاروں کی ملی بھگت اور جعل سازی سے خود کو پاکستانی شہری ظاہر کر کے پاکستانی شناختی کارڈ حاصل کیا گیا‘ اس بنیاد پر پاسپورٹ بنوایا گیا اور بیرون ملک قیام کے دوران جرائم میں پکڑے گئے تو پاکستانی دستاویز برآمد ہوئیں جس سے بیرون ممالک یہ تاثر گیا کہ جرائم میں ملوث افراد کا تعلق پاکستان سے تھا۔ ان حقائق کے بعد اگر پاکستان نے افغان شہریوں کو بے دخل کرنے کا فیصلہ کیا ہے‘ افغان شہریوں کیلئے پاسپورٹ اور ویزا کی شرط عائد کی ہے تو اس میں غلط کیا ہے؟ افغان شہریوں کو تو پاکستان کا شکر گزار ہونا چاہئے کہ جب نائن الیون کے بعد ان پر افتاد پڑی تو پاکستان نے انہیں کھلے دل سے قبول کیا‘ لاکھوں افراد کو اپنے ہاں نہ صرف جگہ دی بلکہ ان کی میزبانی کا حق ادا کیا اور اب جبکہ وہ واپس جانے لگے ہیں تب بھی انہیں موقع فراہم کیا گیا ہے کہ پاکستان میں موجود اپنی جائیدادیں فروخت کر سکیں۔
کابل نے افغان مہاجرین کے واپسی کے فیصلے پر شدید ردِعمل کا اظہار کیا ہے۔افغان طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے کہا ہے کہ پاکستان میں افغان مہاجرین کے ساتھ سلوک ناقابلِ قبول ہے‘ اس حوالے سے انہیں اپنی پالیسی پر نظر ثانی کرنی چاہیے۔ ذبیح اللہ مجاہد نے مزید کہا کہ پاکستان کے سکیورٹی مسائل میں افغان مہاجرین کا کوئی ہاتھ نہیں‘ جب تک مہاجرین اپنی مرضی اور اطمینان سے پاکستان سے نہیں نکلتے‘ انہیں برداشت سے کام لینا چاہیے۔ اسی طرح افغانستان کے قائم مقام وزیر دفاع مُلا یعقوب مجاہد نے افغان مہاجرین کو پاکستان سے ملک بدر کرنے کے فیصلے کی مذمت کرتے ہوئے اسے غیر منصفانہ فیصلہ قرار دیتے ہوئے پاکستان کے فیصلے کو افغان مہاجرین کے خلاف پرتشدد کارروائیوں سے تعبیر کیا ہے‘ مُلا یعقوب نے پاکستان میں سرمایہ کاری کرنے والے افغان سرمایہ کاروں سے مطالبہ کیا کہ وہ سرمایہ کاری بند کریں اور اپنے اثاثے افغانستان کی کفالت کے لیے استعمال کریں جبکہ افغانستان کے نائب وزیر خارجہ شیر محمد عباس نے پاکستان کی جانب سے افغان مہاجرین کو اپنی سرزمین سے بے دخل کرنے کے فیصلے کو بین الاقوامی قوانین اور آداب کے خلاف قرار دیا۔ سمجھنے کی بات یہ ہے کہ پاکستان نے غیر قانونی تارکین وطن کو ملک بدر کرنے کا فیصلہ کیا ہے جس میں افغان شہریوں کی اکثریت ہے‘ قانونی طور پر مقیم افغان باشندے بدستور پاکستان میں رہیں گے‘ اس کے باوجود افغان قیادت کے مہاجرین کی بے دخلی کے فیصلے پر شدید ردِعمل کی وجہ یہ ہے کہ پچھلی تین دہائیوں سے افغان باشندوں کے پاکستان میں آنے جانے‘ یہاں رہنے اور کاروبار کرنے پر انہیں رعایت حاصل تھی۔ صرف افغان شہری ہی نہیں افغان سرحد سے متصل پاکستانی شہری بھی افغانستان میں بغیر ویزا کے آزادانہ آتے جاتے تھے‘ پابندی کے بعد سرحدی علاقوں سے متصل رہنے والے دونوں اطراف کے شہری متاثر ہوں گے۔ چونکہ پاکستان نے سکیورٹی حالات اور غیر قانونی معاشی سرگرمیوں کی روک تھام کیلئے غیر قانونی تارکین وطن کی واپسی کا عملی قدم اٹھایا ہے تو افغان حکومت اور پاکستان میں موجود افغان باشندوں کو یہ فیصلہ یکطرفہ محسوس ہو رہا ہے۔ غیر قانونی افغان شہریوں کی واپسی‘ سفر کیلئے پاسپورٹ اور ویزا کی شرط نہایت اہم اقدام ہے دنیا بھر میں سفر کیلئے یہی طریقہ رائج ہے لیکن چونکہ افغان شہریوں کے ساتھ ساتھ سرحدی علاقوں کے قریب رہنے والے پاکستانی باشندے بھی برسوں سے دستاویزات کے بغیر سفر کے عادی تھے اس لئے فوری طور پر فیصلے پر عمل درآمد مشکل ہو گا۔ اس فیصلے سے نہ صرف افغان شہری متاثر ہوں گے بلکہ چمن کے لوگ بھی متاثر ہوں گے‘اس لئے مناسب معلوم ہوتا ہے کہ پاکستان نے غیر قانونی مقیم تارکین وطن کیلئے یکم نومبر کی جو ڈیڈ لائن دی ہے اس پر نظر ثانی کی جائے کیونکہ 17 لاکھ افراد کی واپسی اس قدر کم مدت میں ممکن نہیں ہو سکے گی۔ یہ بات ملحوظ رہنی چاہئے کہ 2016 میں بھی افغان شہریوں کیلئے ویزا کی شرط رکھی گئی تھی لیکن اس پر عمل درآمد نہیں ہو سکا تھا۔
حقیقت یہ ہے کہ پاکستان پناہ گزینوں کی میزبانی کرنے والے بڑے ممالک میں شامل ہے‘ حالانکہ پاکستان 1951ء کے کنونشن یا اس کے بعد 1967ء کے پروٹوکول کا دستخطی نہیں اور ہمارے پاس قومی پناہ کا نظام بھی نہیں ہے‘ نامساعد معاشی حالات اور سکیورٹی چیلنجز کے باوجود پاکستان نے اپنے افغان بھائیوں کیلئے دروازے کھول دیے‘ طویل عرصہ تک میزبانی کی اور حتیٰ الامکان افغان باشندوں کے ساتھ نرمی کا برتاؤ کیا گیا۔ اقوام متحدہ کے پلیٹ فارم پر پاکستان کی میزبانی کو سراہا جاتا ہے اور جب کبھی افغان عوام پر مشکل حالات آتے ہیں ان کی پہلی ترجیح پاکستان ہی ہوتا ہے۔پاکستان نے بھی ہمیشہ آگے بڑھ کر افغان شہریوں کو گلے لگایا یوں برسوں سے قائم ہونے والے Narrativeکو ایک فیصلے سے ختم نہیں کیا جانا چاہئے۔ نگران وزیر خارجہ جلیل عباس جیلانی کی افغان ہم منصب مولوی امیر خان متقی سے چین میں دو طرفہ مسائل پر خوشگوار ماحول میں ہونے والی ملاقات سے نتیجہ اخذ کیا جا سکتا ہے کہ پاکستان نے غیر قانونی مقیم افغان شہریوں کو بے دخل کرنے کی جو ڈیڈ لائن دی ہے اس میں گنجائش رکھی جائے گی‘ جس کا اظہار نگران وزیر خارجہ نے اپنے افغان ہم منصب سے ملاقات میں کیا ہے کہ جلا وطنی کے دوران کسی کو ہراساں نہیں کیا جائے گا‘ البتہ اس فیصلے کا اثر یہ ہوا ہے کہ بہت سے افغان شہری رضا کارانہ طور پر واپس جانا شروع ہو گئے ہیں اور متعدد خاندان طور خم سرحد سے واپس جا چکے ہیں۔ ملکی حالات کے پیش نظر افغان شہریوں کی واپسی کا فیصلہ نہایت اہم ہے ‘تاہم دو باتوں کا خیال رکھا جانا بہت ضروری ہے‘ ایک یہ کہ دنیا افغان مہاجرین کی میزبانی کے حوالے سے پاکستان کو جس نظر سے جانتی ہے وہ تشخص خراب نہیں ہونا چاہئے دوسرا یہ کہ جیسے ہم نے تین سے چار دہائیوں تک لاکھوں افغان شہریوں کی میزبانی کی ہے اسی طرح ان کی واپسی بھی باعزت طریقے سے ہونی چاہئے۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved